دنیا کی اقتصادی و سیاسی صورتحال اور ہم

September 27, 2020

دنیا کی اقتصادیات میں کوئی ایک ملک تن تنہا آگے نہیں بڑھ سکتا۔ اقتصادی ترقی کیلئے ضروری ہوتا ہے کہ ہم آہنگی رکھنے والے ممالک مل کر آگے بڑھیں۔ ہم اس وقت ایسے راستے پرہیں جو آگے جا کر دو حصوں میں تقسیم ہو جاتا ہے۔ ایک راستہ امریکہ، اسرائیل، برطانیہ وغیرہ کے بلاک کی طرف جاتا ہے اور دوسرا چین اور روس وغیرہ کی طرف۔ اسلامی ممالک بھی دو حصوں میں تقسیم ہیں، ایک طرف ترکی، انڈونیشیا، ایران وغیرہ نظر آتے ہیں تو دوسری طرف سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، مصر، بحرین وغیرہ ہیں۔

صدر ٹرمپ 2016میں جب امریکی صدر بنے تو انہوں نے کھل کر اسرائیل کی حمایت کی۔ اِس دوران عربوں کے داخلی اختلافات اور بڑھتے چیلنجز کی وجہ سے اسرائیل کی حوصلہ افزائی تسلسل سے جاری رہی اور اُس نے عرب دنیا کی کسی امن تجویز کو قابلِ غور نہ سمجھا حتیٰ کہ اس پس منظر میں متحدہ عرب امارات کی طرف سے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کا اعلان سامنے آیا، جس سے اسلامی دنیا چونک گئی۔ اس سے پہلے بھی قطر سمیت کئی عرب ملکوں نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کئے لیکن ان ملکوں کو کچھ بھی حاصل نہ ہوا۔ امریکہ اور اسرائیل نے خطہ میں کئی ممالک کو کھنڈرات میں تبدیل کیا، ان کے مالی حالات کو کمزور ترین کیا۔ مہاتیر محمد نے کہا ہے کہ یہ معاہدہ مسلم دنیا کو مخالف گروپوں میں تقسیم کرنے کا باعث بنے گا لیکن در حقیقت مسلم دنیا عملی طور پر پہلے ہی سے دو گروپوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔ ایران، قطر اور ترکی کھل کر اسرائیل کی مخالفت کر رہے ہیں جبکہ دیگر عرب ممالک اسرائیل اور امریکہ کے کیمپ میں ہیں۔ کچھ عرب ممالک کی حکومتیں تو اسرائیل کے ساتھ کھل کر مل چکی ہیں لیکن دیکھنے کی بات یہ ہے کہ مستقبل میں اس بارے میں اُن ممالک کے عوام کا ردِ عمل کیا ہوتا ہے۔ مسلمان حکومتیں ذاتی مفادات کی بنا پر تقسیم ہو چکی ہیں اور ’’ مسلم امہ‘‘ نام کی کوئی چیز اب عملی طور پر دکھائی نہیں دیتی ہے۔ جن ممالک نے مقبوضہ بیت المقدس کے لئے امریکہ اسرائیل کی زبانی مخالفت کرنے کی ہمت نہیںکی ان سے کشمیر کے لئے کوئی توقع رکھنا حماقت ہوگی۔

آج کی دنیا میں ہمیں ملکی مفادات مشترکہ، دشمنوں اور دوستوں کی بنیاد پر خارجہ پالیسی اور اتحادی بنانا ہونگے۔ کسی بھی قسم کا جذباتی اقدام اُٹھانے کے بجائے پہلے اپنے آپ کو معاشی اور عسکری لحاظ سے مضبوط بنانا ہوگا تاکہ ہم بیانات جاری کرنے اور تقاریر کرنے کے بجائے کوئی ٹھوس عملی اقدامات کرنے کی پوزیشن میں ہوں۔ روس، چین، پاکستان، ترکی اور ایران ایک بلاک بن چکے ہیں۔ بڑے امریکی اتحادی بھارت کو بھی یہ خطرہ ہے کہ اگر اسلامی دنیا کی چوہدراہٹ پاکستان یا ترکی کے پاس آگئی تو پھر کشمیر کیا باقی ہندوستان کو سنبھالنا بھی مشکل ہو جائے گا۔ چین، روس، پاکستان، ترکی اور ایران ایک دوسرے کے کاروباری اتحادی بن سکتے ہیں، جس سے اِن ملکوں میں تجارت بڑھے گی۔ اس بلاک سے مشرقِ وسطی کے شورش زدہ علاقوں میں حالات کنٹرول کرنے میں مدد لی جا سکتی ہے۔

امریکہ کی سب سے بڑی ناراضی چین کی ایک بڑی موبائل کمپنی سے ہے جو فائیو جی اور آرٹیفشل انٹیلی جنس میں دنیا بھر کی کمپنیوں کو پیچھے چھوڑ چکی ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے چین پر یہ کہہ کر تجارتی پابندیاں لگائیں کہ چین کی جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے اُن کا اہم ڈیٹا چینی کمیونسٹ پارٹی کے ہاتھ لگ سکتا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو بھارت پر زور دے رہے ہیں کہ وہ ٹیلی کمیونی کیشن اور صحت کے شعبوں میں چین پر انحصار کم کرے۔ چین اور ایران کے مابین طے پانے والے 400ارب ڈالر کے چاہ بہار معاہدے کے تحت ایران اگلے 25برس تک چین کو سستا تیل فراہم کرے گا جس کے بدلے میں چین ایران میں آئل، گیس اور پٹرول و کیمیکل کے شعبوں کی ترقی کے لئے 280ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا۔ اس معاہدے کے بعد ایران نے بھارت کو چاہ بہار زاہدان ریلوے لائن منصوبے سے الگ کر دیا۔ بھارت، جو ایرانی تیل کا تیسرا بڑا خریدار تھا، نے امریکی دبائو میں آکر ایران سے تیل کی خریداری بند کر دی ہے۔افغانستان کی وزارتِ خارجہ کے بیان کے مطابق افغانستان اور چین کے اعلیٰ سفارت کاروں نے اقتصادی تعاون، علاقائی روابط کے موضوعات اور افغان حکومت اور طالبان کے درمیان امن عمل کی تازہ صورتحال پر تبادلہ خیال کیا ہے۔ دونوں وزرائے خارجہ نے افغانستان میں امن مذاکرات سے متعلق علاقائی تعاون حکومت اور طالبان کے درمیان قیدیوں کے تبادلے، طالبان کی طرف سے تشدد کم کرنے اور انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کی ضرورت پر بھی غور کیا۔ چین اس تناظر میں مسئلہ کشمیر پر شروع دن سے پاکستان کے موقف کی مضبوط حمایت کر رہا ہے اور علاقائی و عالمی فورموں پر پاکستان سے بھی آگے بڑھ کرکشمیریوں کے استصواب کے حق کیلئے آواز بلند کرتا ہے۔ اسی تناظر میں چین نے کشمیریوں کو خصوصی حیثیت دے رکھی ہے۔

دنیا اس امر پر متفق ہے کہ آنے والے برسوں میں سی پیک خطے میں ترقی اور استحکام کی نئی داستانیں رقم کرے گا۔ چوںکہ پاک چین دوستی ضرب المثل کی حیثیت اختیار کر چکی ہے اس لئے ان دونوں ملکوں کا مستقبل انتہائی روشن اور تابناکیوں کا امین ہوگا۔ دوسری جانب چین کے صدر شی جن پنگ نے کہا ہے کہ مشترکہ مستقبل کیلئے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنے پر تیار ہیں۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری کا سنگِ میل منصوبہ دونوں ممالک کی سدابہار اسٹرٹیجک تعاون پر مبنی شراکت داری کو ترقی اور مشترکہ مستقبل کے ساتھ دونوں ممالک کے عوام میں قریبی تعلق کو مزید فروغ دینے کیلئے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔