ن سے نسلی، ص سے صحافت

September 27, 2020

یادش بخیر! برسوں پرانی بات ہے ملک میں عام انتخابات کا اعلان ہو چکا تھا، تمام سیاسی جماعتوں کی تیاریاں عروج پر تھیں کہ ایسے میں پشتو فلموں کی اداکارہ مسرت شاہین نے ممتاز عالم اور سیاست دان مولانا فضل الرحمٰن کے خلاف اچانک الیکشن لڑنے کا اعلان کردیا۔ بس پھر کیا تھا، میڈیا کے ہاتھ ایک ایسا موضوع آگیا کہ اللہ کی پناہ۔ حد تو یہ ہوئی کہ عالمی میڈیا بھی اس میں شامل ہو گیا، عالمی نشریاتی ادارے خبر کے آغاز پر پہلے تو اداکارہ مسرت شاہین کے بارش میں فلمائے جانے والے گانوں اور ڈانس کی جھلکیاں دکھاتے اور پھر اسے مولانا کیخلاف ایک ایسا پروپیگنڈہ بصورت خبر پیش کرتے جیسے وہ اداکارہ، ایک مذہبی رہنما کو شکست دینے میں کامیاب ہو جائے گی اور یوں روشن اور آزاد خیال حلقے ان کی جیت کی خوشی میں رقص کریں گے۔ دوسری جانب یہ صورتحال سنجیدہ و فہمیدہ حلقوں کے مطابق انتہائی قابلِ مذمت تھی کیونکہ مولانا مفتی محمود کے صاحبزادے مولانا فضل الرحمٰن کیخلاف یہ ایک ایسا سوچا سمجھا عمل تھا جس کے ذریعے اُن کا مذاق اڑانا مقصود تھا، میڈیا نے ایک ایسا منظرنامہ تخلیق کیا کہ جیسے مقابلہ کانٹے کا ہے۔ الیکشن کا دن آیا اور ریڈیو اور ٹیلی وژن پر نتائج کا اعلان ہونا شروع ہوا تو پتا چلا کہ ڈیرہ اسمعیل خان کے لوگوں نے مولانا فضل الرحمٰن کی جھولی ووٹوں سے بھردی اور اداکارہ کے حصے میں گنتی کے چار ہی ووٹ آئے۔ یوں عوام نے ایک خاندانی، مذہبی اور قابلِ احترام نسلی سیاستدان کو منتخب کروا کے انہیں سرخرو کردیا۔ یہ تمہید یوں باندھی ہے کہ آپ کو کچھ بتانا مقصود ہے، صحافت ایک مقدس ترین پیشہ اور ریاست کا چوتھا ستون ہے، تحریک پاکستان کی طویل اور صبر آزما جدوجہد میں اہلِ صحافت نے لازوال قربانیاں دیں، قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں، مالی نقصانات برداشت کئے لیکن حصولِ پاکستان کی جدوجہد میں ثابت قدم رہے، جنگ بھی اُن اخبارات میں شامل تھا، حصولِ وطن کی جدوجہد کے دوران جنگ گروپ کے بانی میر خلیل الرحمٰن بھی جیل گئے۔ اُن کا احسان تھا کہ وہ پاکستان بننے کے بعد ہجرت کرکے پاکستان تشریف لائے اور ساتھ جنگ بھی کراچی لے آئے، انتھک محنت اور لگن سے اخبار کو بامِ عروج تک پہنچایا اور میرِ صحافت کہلائے۔

قیام پاکستان سے لے کر آج کے دن تک صحافت کو جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے، وہ داستان آبلہ پائی سے عبارت ہے، جمہوریت اور آزادی اظہار رائے کیلئے سات دہائیوں پر مشتمل جدوجہد پر تو سینکڑوں کتابیں لکھی جا سکتی ہیں، اہلِ صحافت کیلئے نہ تو آمرانہ دور اچھے تھے اور نہ ہی جمہوری۔ آمروں نے آزادیٔ اظہار پر کون کون سی پابندیاں نہ لگائیں، کون سے قدغنیں عائد نہ کی گئیں، جیل یاترا تو صحافیوں کا ٹریڈ مارک ٹھہری، جنرل ایوب کا مارشل لا صحافت پر جبر کی ایک علیحدہ داستان ہے، آمر ضیاء الحق نے تو صحافیوں کو کوڑے بھی لگوائے۔ انتہائی قلیل معاوضے پر کام کرنیوالے صحافیوں کی آزادیٔ اظہار کیلئے قربانیاں تاریخ کا سنہری باب ہے، فاقہ کشی برداشت کی، جیلیں کاٹیں، بےروزگار ہوئے لیکن اپنے آدرش سے جڑے رہے، قلم کی حرمت پر حرف نہ آنے دیا۔ آمر مشرف کے دور میں جیو پر پابندی عائد کی گئی، جو ستم ڈھانے کے حربے تھے وہ سب آزمائے گئے لیکن سلام ہے ان صحافیوں پر جنہوں سب کچھ ہنس کر برداشت کیا اور آمر رخصت ہوا، ادارہ قائم رہا۔ جمہوری ادوار بھی صحافت کیلئے ہمیشہ کٹھن ثابت ہوئے، سیاستدان جب اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو آزادیٔ اظہار اور آزادی صحافت کا علم بلند کرتے نظر آتے ہیں، جب اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہوتے ہیں تو سب سے پہلے صحافیوں کی آواز کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک مرتبہ پھر صحافت پر آزمائش کا دور آیا ہوا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پچھلے دو برسوں میں تقریباً دس ہزار میڈیا کارکنان بیروزگار ہوئے ہیں۔ پاکستان براڈ کاسٹرز ایسوسی ایشن کے مطابق حکومت کے ذمہ اشتہارات کی مد میں واجب الادا رقم تقریباً چار ارب روپے ہے۔ آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی کا کہنا ہے کہ ان کے اشتہارات میں تقریباً ستر فیصد کی کمی آئی ہے۔ ان حالات میں ورکرز کو تنخواہیں کہاں سے دیں۔ آنے والے دن پاکستانی صحافیوں کیلئے مزید سخت ہیں۔ عالمی معیشت کورونا وائرس کی وجہ سے ہل کر رہ گئی ہے اور اس کے اثرات پاکستان پر بھی پڑے ہیں۔ ایسے میں حالات کے بہتر ہونے کی امید رکھنا عبث ہے۔

آج ملک پر تحریک انصاف کی حکومت ہے۔ جب عمران خان قومی اسمبلی میں ایک سیٹ جیتنے والی تحریک انصاف کے سربراہ تھے اور اس سے مزید پہلے جب وہ شوکت خانم اسپتال کیلئے چندہ اکٹھا کررہے تھے تو سب سے زیادہ تعاون اور ان کی پروجیکشن جنگ اور جیو نے کی تھی۔ جب پہلی بار تحریک انصاف کی حکومت آئی تو اس نے بھی سب سے پہلا وار جنگ اور جیو پر کیا۔ آج میر صحافت خلیل الرحمٰن کا بیٹا میر شکیل الرحمٰن پابندِ سلاسل ہے، وجہ چھتیس سال پرانا، ایک افسانہ، جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ ان کی اسیری کے دوران بھائی میر جاوید رحمٰن رخصت ہوئے، پیرول پر نماز جنازہ میں شرکت کر سکے۔ تحریک انصاف کی حکومت جو کررہی ہے وہ غلط کررہی ہے، وہ ان کے عزم و حوصلہ کو نہیں توڑ سکتی کیونکہ وجہ صاف ظاہر ہے کہ میر صاحب، اصلی اورنسلی صحافی ہیں وہ جھکنے والے نہیں ہیں، حکومت مسرت شاہین والا کردار ادا کرکے مفت میں رسوائی مول لے رہی ہے۔