شہباز شریف لاہور ہائیکورٹ سےگرفتار

September 28, 2020


آمدن سے زائد اثاثہ جات اور منی لانڈرنگ کیس میں مسلم لیگ نون کے صدر شہباز شریف درخواست ضمانت خارج ہونے پر لاہور ہائیکورٹ سے گرفتار کرلیے گئے۔

لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس سردار احمد نعیم اور جسٹس فاروق حید ر پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے شہباز شریف کی درخواست ضمانت پر سماعت کی اور تفصیلی دلائل سننے کے بعد ضمانت خارج کرنے کا فیصلہ سنایا۔

نیب اہلکاروں نے ضمانت منسوخ ہوجانے کے بعد شہبازشریف کو احاطۂ عدالت سےحراست میں لے لیا، اس موقع پر عدالت کے باہر موجود نون لیگ کے کارکنا ن مشتعل ہوگئے اور پولیس کے ساتھ ہاتھا پائی بھی ہوئی ۔

نون لیگ کے مشتعل کارکنان نے نیب اور حکومت کے خلاف نعرےبازی کی۔

اس سے قبل کیس کی سماعت کے آغاز پر شہباز شریف کے وکیل اعظم نذیر تارڑ نے عدالت میں دلائل کا آغاز کیا اور شہبازشریف ادوار میں کیے کاموں کی تفصیلات عدالت میں جمع کروائیں۔

ایڈوکیٹ اعظم نذیر تارڑ نے عدالت کو بتایا کہ شہباز شریف اب تک 1 ہزار ارب روپے قومی خزانے کا بچا چکے ہیں،انہوں نے آج تک بطور ممبر اسمبلی تنخواہ تک وصول نہیں کی۔

وکیل اعظم نذیر تارڑ نے بتایا کہ سیف سٹی پراجیکٹ میں بھی قومی خزانے کے کروڑوں روپے بچا ئے گئے، اگر عدالت چاہے اور اجازت دے تو ہم یہ ساری تفصیلات بتا سکتے ہیں۔

ان کاکہنا تھا کہ شہبازشریف نے اپنے دورحکومت میں اربوں روپے بچائے،جس نے اربوں بچائے وہ کروڑوں روپے کی کیوں کرپشن کرے گا ؟

وکیل شہباز شریف نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ریفرنس فائل ہو چکا ہے لیکن انا کی تسکین کیلئے گرفتار کرنا چاہتے ہیں، کیونکہ اب لوکل باڈی الیکشن بھی ہونے والے ہیں۔

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ حکومت خود کہتی ہے ہم انہیں جیل میں ڈالنا چاہتے ہیں، حکومت انہیں جیل میں ڈال کر کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہے، شہباز شریف کوچھ ماہ جیل میں رکھنے کے بعد کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں، اُنکی جو نیت ہے وہ آپکے سامنے ہے۔

کیس کی سماعت کے دوران شہباز شریف کی جانب سے امجد پرویز ایڈووکیٹ نے بتایا کہ نیب والیم 4 میں ہے کہ انکی فیملی اراکین ان پر انحصار نہیں کرتے،والیم 4 میں فیملی اراکین کی ٹیکس ریٹرن کی تفصیلات دی گئی ہیں اور بتایا گیا ہے کہ کون کب ٹیکس دینا شروع ہوا۔

ایڈووکیٹ امجد پرویز نے اس موقع پر شہباز شریف کے بچوں کی بلوغت اور ٹیکس ریٹرن کا چارٹ عدالت میں جمع کروا دیا اور بتایا کہجویریہ اور رابعہ ٹیکس ادا کر رہے ہیں، حمزہ شہباز اور سلمان شہباز ٹیکس ادا کر رہے ہیں اور کوئی بچہ شہبازشریف کے زیر کفالت نہیں ہے۔

وکیل شہبازشریف نے کہا کہ تمام آمدن پر ٹیکس ادا کیا اور ان کا آڈٹ بھی کروایا، نیب بیس سال بعد نیب ٹیکس ریٹرن کو نہیں مان رہا،26 کروڑ روپے کا فرق نیب نکال نہیں سکتا اس لیےآمدن نہیں مانتا۔

کیس کی سماعت کے دوران شہبازشریف بھی اپنا موقف پیش کرنے روسٹرم پر آگئے اور بتایا کہ 12 سال ٹیکس ادا کرنے کے باوجود ضمانت میں توسیع کیلئے عدالت کےسامنے کھڑا ہوں،کسی کمپنی سے ایک دھیلا میرے اکاؤنٹ میں نہیں آیا اگر ایک دھیلا بھی آیا ہو تو میں اپنی درخواست ضمانت واپس لے لوں گا۔

میرے والد غریب کسان کے بیٹے تھے، انہوں نے قرضہ لے کر کام شروع کیا اللہ کا کرنا ایسا ہوا 1970ء میں لوہے کا سب سے بڑا ادارہ بن گیا، ہمارے لوہے کے ادارے کو نیشنلائزڈ کردیا گیا۔

میرے والد نے کہا کہ ہم نے مرنا جینا یہیں ہے، میرے والد نے 6 مزید فیکٹریاں لگائیں، بینکوں میں ہمیں انجینئرڈ ڈیفالٹ کروایا گیا، اپنے بزرگوں کی اتفاق فاؤنڈری بیچ کر 6 ارب روپے ادا کر دیئے تھے۔

صدر نون لیگ نے کہا کہ میں نے دھیلے کی کرپشن نہیں کی،میں نے کہا کہ وفاقی حکومت سبسڈی دے تو کوئی اعتراض نہیں ہوگا، سندھ حکومت نے شوگر ملزمالکان کو ساڑھے 9 روپے فی کلو مزید سبسڈی دے دی،میرے بیٹے کی مل نے شوگر ایکسپورٹ کی جس سے 23 کروڑ روپے کا نقصان ہوا۔