نواز شریف کی تقریر اور پاکستان

October 04, 2020

کون جانتا تھا کہ مریم نواز آل پارٹیز کانفرنس میں شریک ہوں گی؟ یہاں تک کہ میاں نواز شریف کا آل پارٹیز کانفرنس سے خطاب بھی یقینی نہیں تھا۔ تمام حکومتی ترجمانوں کو گویا یقین تھا کہ میاں نواز شریف کے بغیر یہ آل پارٹیز کانفرنس ماضی کی طرح کی ٹھنڈی ٹھار ہو گی یعنی کھایا پیا کچھ نہیں، گلاس توڑا بارہ آنے۔ جیسے ہی مریم نواز شریف کی شمولیت اور میاں نواز شریف کے وڈیو لنک خطاب کا اعلان ہوا تو ہلچل سی مچ گئی۔ جوں جوں حکومتی حلقوں میں اضطرابی کیفیت پیدا ہوئی توں توں عوام میں میاں نواز شریف کی تقریر سننے کا اشتیاق بڑھتا چلا گیا۔ اگر حکومتی رویہ نارمل ہوتا تو شاید میاں نواز شریف شریف کی تقریر کا مرکزی خیال کچھ اور ہوتا اور عوام کی توجہ بھی تقریر کی جانب نہ ہو پاتی۔ میاں محمد نواز شریف کی تقریر سے سیاسی ہیجان پیدا ہوا اور ایسا ہوا کہ تقریر کے بعد اے پی سی سے متعلق تمام مجوزہ قیافے دم توڑ گئے۔ مقدمات اور احتساب کے شکنجے کے خوف سمیت سب حکمت عملیاں بےمعنی سی دکھائی دینے لگیں۔ نوازشریف کی تقریر کے بعد آل پارٹیز کانفرنس بہت پیچھے چلی گئی اور اس تقریر نے ثابت کردیا گیا کہ وطن عزیز کو ابھی ایک ایسا لیڈر دستیاب ہے، جس کیلئے عوام کے دل دھڑکتے ہیں۔ میاں نواز شریف کی تقریر اور انکا بیانیہ عوام نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ سوشل میڈیا پر انکی تقریرپر ابھی تک بحث ہو رہی ہے۔ متحدہ اپوزیشن کے اسمبلیوں سے مستعفی ہونے پر شیخ رشید نے بےپر کی اُڑا دی کہ ہم خالی سیٹوں پر انتخاب کروا دیں گے۔ اپوزیشن کا یہ اتحاد بالکل صحیح وقت پر بنا ہے کیونکہ اقتدار والوں کے سبز باغوں کی حقیقت عوام پر واضح ہو گئی ہے۔ اپوزیشن کے لئے بربادی ہی بربادی کے جھوٹے نامے لانے والوں کو خبر ہو کہ معاشی بدحالی اور کمر توڑ مہنگائی نے عوام کو دو برسوں میں برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ اپنی کرنسی میں گراوٹ کی ہی بات کریں تو پتا چلے گا بنجر ملک کے ایک افغانی روپے کے بدلے زرخیز ملک پاکستان کے 2روپے 16پیسے ملتے ہیں۔ ایشین ٹائیگر بنانے کے خواب دکھانے والوں نے ملک کو قرضوں کی دلدل میں دھکیل دیا ہے۔ سردیوں میں گیس کی شدید کمیابی کا عندیہ حکومت خود دے رہی ہے۔ بجائے اسکے کہ ایل این جی منگواتے اور گیس کے نئے ذخائر کو بھی شامل کرتے، یہ سندھ حکومت اور اپوزیشن کو رگڑا لگانے میں مصروف رہے۔ کون نہیں جانتا کہ جب پوری دنیا میں پٹرول سستا ہوا تواس کا فائدہ بھی عوام کو نہ پہنچایا جا سکا بلکہ الٹا پٹرول غائب ہو گیا اور پھر مہنگا کرکے فروخت کیا گیا۔ ہرروز میڈیا پر اعلان کردیا جاتا ہے کہ 20کلو آٹا کی سرکاری قیمت 860روپے مقرر ہے لیکن مجال ہے کہ کسی نے بازار میں اِس ریٹ پر آٹے کی دستیابی پر بات کی ہو۔ چکی پر آٹا تو اسی روپے کلو تک جا پہنچا ہے لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ گندم برآمد کرنے والا ملک درآمد کرنے پر مجبور ہو گیا ہے۔ چینی کی فی کلو قیمت سو روپے کی حد بھی پار کر چکی ہے۔ سبزیوں کی قیمتوں کا بتائوں، صرف ادرک کو دیکھ لیں، آٹھ سو روپے کلو تک جا پہنچا ہے۔ بجلی بھی خاموشی سے 2روپے یونٹ مہنگی کر دی گئی۔ دو سال میں ادویات کی قیمتیں پانچ سو فیصد تک بڑھیں۔ میں تو یہی کہوں گی کہ پاکستانیو، اب آپ نے بیمار نہیں ہونا کیونکہ وفاقی کابینہ نے جان بچانے والی 94ادویات کی قیمتیں مزید 262فیصد تک بڑھا کر انہیں غریبوںبلکہ سفید پوشوں کی پہنچ سے بھی دور کردیا ہے۔ پاکستان دنیا کا پہلا ملک بن گیا جس نے دو سال میں ادویات کی قیمتوں میں اِس قدر اضافہ کیا۔ اس بار پھر حکومتی ’’نگینوں‘‘ نے وجہ یہ بیان کی ہے کہ ہم نے ان ادویات کی دستیابی کو یقینی بنانے کیلئے قیمتیں بڑھائی ہیں۔ بجائے اس کے کہ میڈیشن مافیا کی سرکوبی کی جاتی، سابقہ بڑھائی گئی ناجائز قیمتیں کم کروائی جاتیں، یوں لگتا ہے کہ مافیا کو کھل کھیلنے کی اجازت دیدی گئی ہے۔ بیرون ملک پاکستانیوں کو سرمایہ قرار دینے والوں کو بھی نہیں بخشا گیا، کورونا کے باعث جو پاکستانی 35ہزار کی ٹکٹ لیکر واپس آئے تھے انہیں زرمبادلہ کمانے کیلئے واپس جانے کیلئے پونے دو لاکھ روپے کی ٹکٹ بھی بڑی مشکل سے دستیاب ہوئی۔ جو سات برسوں میں سو ارب روپے سے زائد رقم لگا کر نامکمل بی آر ٹی منصوبہ زبردستی شروع کرکے چار بسیں جلوا کر ایک ماہ بھی بس سروس نہ چلا سکے، وہ سن لیں کہ شیر نے ایک بار پھر بھرپور انگڑائی لے لی ہے۔ عوام کے ووٹوں کی طاقت اور خدا کے فضل سے ایک بار پھر مسلم لیگ ن ملک کو منجدھار سے نکال کر ترقی کی راہ پر گامزن کرے گی۔ ان شاء اللہ