کیا ہر کوئی انتہا پر رہے گا؟

October 12, 2020

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اور پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) میں شامل سیاسی جماعتیں دو انتہاؤں پر چلی گئی ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کہہ رہے ہیں کہ جس نے بھی قانون توڑا، اسے جیل میں ڈال دیا جائے گا اور وہ جیل عام قیدیوں والی ہو گی۔ دوسری طرف پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کہتے ہیں کہ وہ جیل جانے کے لئے تیار ہیں۔ حکومت کا جانا ٹھہر گیا ہے۔ اب یوں محسوس ہو رہا ہے کہ دونوں اپنی انتہائی پوزیشن سے ہٹنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ دونوں کی طرف سے کوئی درمیانی راستہ اختیار کرنے کا بھی کوئی عندیہ نہیں مل رہا اور نہ ہی دونوں کے مابین ثالثی کے لیے کوئی سامنے آرہا ہے۔ اس صورت حال کا کیا نتیجہ نکلے گا ؟

وزیر اعظم عمران خان اپنی سیاست کی ابتداسے ہی دیگر سیاسی جماعتوں خصوصا مختلف ادوار میں حکومت میں رہنے والی بڑی سیاسی جماعتوں کے بارے میں انتہائی پوزیشن پر تھے۔ وہ جس طرح آج بھی اپوزیشن کے سیاست دانوں کو چور، ڈاکو اور لٹیرا کہہ رہے ہیں، یہی باتیں وہ پہلے دن سے کہہ رہے ہیں۔ یہ ان کا سیاسی بیانیہ ہے، جس پر ان کی سیاست کی بنیادیں قائم ہیں۔ انہوں نے کبھی لگی لپٹی بات نہیں کی اور نہ ہی اپنی یہ بات کہنے میں وہ ہچکچائے۔ پاکستانی سیاست کے بنیادی دھارے کی جو سیاسی جماعتیں تھیں، ان سے وہ الگ تھلگ رہے، اُنہوں نے ڈاکٹر طاہر القادری کی پاکستان عوامی تحریک کو تو اپنے ساتھ ملایا مگر کسی ایسی سیاسی جماعت سے کوئی سیاسی تعلق استوار نہیں کیا، جو ماضی میں کسی حد تک موثر سیاسی کردار کی حامل رہی ہو۔

آج عمران خان کی مخالف سیاسی جماعتیں پی ڈی ایم میں شامل ہیں۔ وہ پاکستانی سیاست کے بنیادی دھارے کی سیاسی جماعتیں ہیں۔ وہ کبھی ایک دوسرے کی حلیف رہی ہیں اور کبھی حریف۔ جب کسی ایک سیاسی جماعت کی حکومت رہی تو دوسری سیاسی جماعتیں یا تو اس حکومت میں شامل رہیں یا اپوزیشن کا کردار ادا کیا۔ اپوزیشن نے سیاسی حکومت کے خلاف سیاسی اتحاد بھی بنائے اور تحریک چلا کر حکومت کے لئے مشکلات بھی پیدا کیں مگر ان تمام سیاسی جماعتوں کی قدر مشترک یہ ہے کہ وہ سیاسی حکومتوں میںچاہےایک دوسرے کی مخالف رہی ہوں مگر وہ غیر سیاسی حکومتوں یا فوجی حکمرانوں کے خلاف زیادہ تر ایک ساتھ رہیں۔ تحریک انصاف کے غیر لچکدار سیاسی بیانیے کے باوجود آج کی اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں نے تحریک انصاف کے بارے میں غیر لچکدار بیانیہ اختیار نہیں کیا اور اسے سیاست میں آگے آنے کا راستہ دیا۔ اب پی ڈی ایم کی جماعتیں یہ محسوس کر رہی ہیں کہ ان کا اپنا راستہ بند ہو رہا ہے۔ احتساب کے نام پر کسی پرانے سیاسی ایجنڈے پر کام ہو رہا ہے۔ جولائی 2018 ء کے عام انتخابات کے بعد تحریک انصاف کی حکومت بنی تو جمعیت علمائے اسلام (ف)، مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی سمیت پی ڈی ایم کی دیگر سیاسی جماعتوں نے دھاندلی کے الزامات کے باوجود تحریک انصاف کی حکومت کو وقت دینے کا اعلان کیا۔ پھر جب جے یو آئی (ف) نے حکومت کے خلاف دھرنا دیا تو مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی نے کھل کر ان کا ساتھ نہیں دیا۔ مسلم لیگ (ن) نے جب تحریک انصاف کی حکومت گرانے کےلئے استعفوں کی بات کی تو پیپلز پارٹی نے حمایت نہیں کی۔ اب ساری جماعتوں نے عوامی طاقت کے مظاہرے، احتجاج، دھرنوں اور اسمبلیوں سے استعفوں پر اتفاق کر لیا ہے کیونکہ انہوں نے اب محسوس کر لیاہے کہ مفاہمت کی گنجائش پہلے سے نہیں تھی، اب درمیانی راستہ بھی اختیار کرنا ممکن نہیں رہا۔ اس لئے وہ بھی انتہا پر چلی گئی ہیں۔ اب دونوں نے تصادم کا راستہ اختیار کر لیا ہے۔ تحریک انصاف اپوزیشن کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنے غیر لچکدار اور پرانے بیانیے پر انحصار کر رہی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کہتے ہیں کہ وہ جمہوریت ہیں اور اپوزیشن والے ڈاکو ہیں۔ تحریک انصاف کے لوگ اپنے بیانیہ میں یہ تاثر دے رہے ہیں کہ فوج ہی ان کے بیانیہ کی محافظ ہے اور کبھی ڈاکوؤں اور لٹیروں کو سیاست میں نہیں آنے دے گی۔ تحریک انصاف والے اپنی بات کی دلیل میں بھی یہ کہتے ہیں کہ اپوزیشن والے اپنی کرپشن چھپانے اور احتساب سے بچنے کے لیےاداروں کو بدنام کر رہے ہیں اوران کے خلاف مہم چلا رہے ہیں۔ وہ یہ بھی الزام لگاتے ہیں کہ اپوزیشن کے رہنما دشمن ملک کی ایماء پر یہ کام کر رہے ہیں۔

تاریخ میں واقعات معروضی حالات کے منطقی انجام کے طور پر رونما ہوتے رہتے ہیں۔ زمینی حقائق کی بناء پر جو کچھ ہونا ہوتا ہے، وہ کسی کے پروپیگنڈے یا ایجنڈے کی وجہ سے ہوتا ہے اور نہ وہ کسی کے پروپیگنڈے یا ایجنڈے کی وجہ سے رکتاہے۔ پی ڈی ایم کے جلسے معروضی حالات کا تعین کر دیں گے۔ تحریک انصاف کے جس انتہائی بیانیے کے باعث اپوزیشن کی جماعتیں انتہا پر گئی ہیں، اب وہی بیانیہ آزمائش سے دوچار ہے۔ یہ فیصلہ تو وقت ہی کرے گا کہ کون کرپٹ ہے اور کون محتسب۔ لیکن اگر سیاسی تصادم بڑھتا ہے تو پھر سیاسی صف بندی لازمی طور پر وہی نہیں رہے گی۔ نواز شریف، بلاول بھٹو زرداری، مولانا فضل الرحمن، مریم نواز، محمود اچکزئی، اختر مینگل اور اسفندیار ولی بلاشبہ انتہائی بڑی قیادت ہے اور پہلی دفعہ سب ساتھ ہیں جس کا تاثر تحریک انصاف والے دے رہے ہیں کیونکہ ملک کے لئے سوچنے والے اس بیانیے کے تحفظ کی بجائے ملک کو سیاسی تصادم کے نقصانات سے بچانے کی کوشش کریں گے۔ سب کے لئے انتہا پر رہنا ممکن نہیں۔