وِژن

October 14, 2020

اِس دنیا میں دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ ایک وہ جن کے پاس وژن ہوتا ہے۔ یہ لوگ مستقبل کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ اپنے حال میں پیش آنے والی مشکلات کو برداشت کرتے ہوئے ایک ایک قدم اپنی منزل کی طرف اٹھاتے رہتے ہیں۔ کچھ سال بعد اُن کی حالت بدلنے لگتی ہے۔ دوسرے لوگ وہ ہیں جو اپنی موجودہ حالت کے تناظر میں ہی پوری زندگی بسر کرتے ہیں۔ آپ اِس دنیا میں بڑے سے بڑا مقصد بھی حاصل کرنا چاہیں تو اُس کے لئے روزانہ کی بنیاد پر کچھ چھوٹے چھوٹے قدم اُٹھانا ہوتے ہیں۔ وژن والا آدمی بصیرت کی وجہ سے مستقبل کو دیکھ سکتا ہے، لہٰذا وہ یہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا رہتا ہے حتیٰ کہ کامیابی کو چھو لیتا ہے۔ جس آدمی کے پاس وژن نہیں ہوتا، وہ ایک راستے پر چند قدم اٹھاتا ہے، پھر مایوس ہو کر دوسرے راستے کی طرف بھاگتا ہے۔ یوں اُس کی حالت کبھی نہیں بدلتی۔ سوائے اِس کے کہ قدرت اُس پر مہربان ہونے کا فیصلہ کرلے، جس طرح عرب سرزمینوں سے تیل کے چشمے پھوٹ پڑے۔

ہزاروں میں سے صرف ایک شخص وژن والا ہوتا ہے۔ یہ شخص تین اطراف میں پھیلے ہوئے پہاڑوں کو دیکھ کر یہ بتا دیتا ہے کہ چوتھی طرف ایک دیوار تعمیر کرنے کی دیر ہے، ڈیم بن جائے گا۔ انسانی تاریخ میں سب سے زیادہ وژن جس ہستی کے پاس ہے، وہ رسالت مآبؐ ہیں۔ تنہا اُنہوں نے اپنی رسالت کا اعلان فرمایا تھا لیکن اُنہیں معلوم تھا کہ اگلے 23برس میں سب کچھ بدل جائے گا۔ سرکارؐ جانتے تھے کہ اسلام پوری دنیا میں پھیل جائے گا۔ آپؐ نے یہ بھی فرما دیا تھا کہ آخر عرب دولت کے فتنے کا شکار ہو جائیں گے۔ کثرت کے باوجود، دشمنوں کے دل سے اُن کا رعب ختم ہو جائے گا۔ آپ ؐ کے فرامین کے مطابق ہندوستان اور ترک سرزمینوں کے مسلمان ہی جنگ لڑنے کے قابل رہ جائیں گے۔ جب آپؐ نے یہ ارشادات فرمائے تو عرب سرزمینیں بدحالی کا شکار تھیں اور ہندوستان اور ترکی میں ایک بھی مسلمان موجود نہ تھا۔

آپ تحریکِ پاکستان کو دیکھیں۔ آپ اقبالؔ کے وژن کو دیکھیں۔ قائدِاعظم شروع شروع میں ہندو مسلم اتحاد کے داعی تھے۔ ابتدا میں آپ نے کانگریس میں بھی شمولیت اختیار کی۔ اقبالؔ مگر پورے یقین کے ساتھ جانتے تھے کہ ہندوستان میں یا دو الگ مسلمان ریاستیں قائم ہوں گی۔ قائدِاعظم ایک موقع پر مایوس ہو کر واپس برطانیہ چلے گئے تو اُنہیں خط لکھ کر واپس بلایا۔ اُنہیں معلوم تھا کہ صرف جناح ہی مسلمانوں کو یہ جنگ جیت کر دے سکتے ہیں۔ اقبالؔ کا ویژن کلیئر تھا۔ نہ صرف یہ کہ اقبالؔ نے پاکستان کا تصور پیش کیا بلکہ اُنہوں نے جناح کو مسلمانوں کا سپہ سالار بھی بنایا۔ اُن سے زیادہ اور کون جانتا تھا کہ پاکستان بن کے رہنا ہے۔ اُس کے باوجود آخری برسوں میں ایک وقت آیا، جب آبدیدہ ہو کر اُنہوں نے یہ کہا ’’افسوس کوئی مخلص مسلمان نہیں ملتا‘‘۔ مخلص مسلمان تو وہ خود ڈھونڈ چکے تھے اور اُسے مسلمانوں کی قیادت بھی سونپ چکے تھے۔ پھر اُنہوں نے ایسا کیوں کہا؟ اس لئے کہ راستہ طویل تھا اور اقبالؔ کی صحت جواب دے رہی تھی۔ آپ 1938 میں وفات پا گئے، جب کہ قیامِ پاکستان کی فیصلہ کن جدوجہد کا آغاز 23 مارچ 1940میں ہوا۔ جناح کا وژن اِس قدر صاف تھا کہ ایک دفعہ فرمایا: پاکستانیوں کو ایک قوم بننے میں سو برس درکار ہوں گے۔ پاکستان آج ایک عجیب صورتِ حال سے دوچار ہے۔ پرویز مشرف کے جانے کے بعد پچھلے 12برس میں قرضوں میں تیس ہزار ارب روپے کا اضافہ ہو چکا۔ اِس میں موجودہ حکومت کے گیارہ ہزار ارب روپے بھی شامل ہیں۔ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں پیپلزپارٹی اور نون لیگ کی حکومتیں مکمل طور پر ناکام ہو گئیں۔ پھر بلند بانگ دعوے کرتی تحریکِ انصاف کو حکومت ملی۔ عمران خان کا کہنا یہ تھا کہ برسرِ اقتدار آنے کے بعد قرض لینا پڑا تو خودکشی کر لوں گا۔ دیکھتے ہی دیکھتے پی ٹی آئی حکومت نے قرضوں میں گیارہ ہزار ارب کا اضافہ کر دیا۔ تحریکِ انصاف کی ناکامی اب نوشتۂ دیوار ہے۔

ملک کی تین بڑی سیاسی جماعتیں ناکام ہو چکیں۔ پرویز مشرف کے دور میں قرضوں میں اضافہ نہیں ہوا اور اقتصادی ترقی کی شرح 7.7فیصد کے قریب پہنچ گئی تھی۔ فوجی اقتدار مگر ایک عارضی حل ہوتا ہے۔ اس میں انتقالِ اقتدار کا کوئی تصور نہیں ہوتا۔ طوالتِ اقتدار کی وجہ سے بالآخر وہ نامقبول ہو جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی سیاسی جماعتیں تحریک چلا کر اس کا خاتمہ کر دیتی ہیں۔ پیپلزپارٹی ناکام، نون لیگ ناکام، تحریکِ انصاف ناکام، پرویز مشرف کی صورت میں فوجی حکومت بھی آٹھ برس سے زیادہ نہ چل سکی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ راستہ اب کہاں سے نکلے گا؟ ایک لمحے کے لئے ایسا لگتا ہے کہ وژن رکھنے والا کوئی ایک بھی شخص ملک میں موجود نہیں، جو قوم کو دلدل سے نکال سکے لیکن ایک لمحے کے لئے رک جائیے۔ بارہ سال قبل، ملک جب دہشت گردی کی دلدل میں اتر چکا تھا تو پھر کیا ہوا؟ عالمی میڈیا روز ایک خبر پیش کرتا تھا: دہشت گرد کہوٹہ سے اتنے کلومیٹر دور ہیں۔ ہر روز خودکش دھماکے ہوتے۔ حالیہ عالمی تاریخ میں دنیا کا کوئی ایک بھی ملک ایسا نہیں، جو دہشت گردی سے باہر نکلا ہو۔ سری لنکا اگر نکلا تو پاکستان ہی کی مدد سے۔

ڈاکٹر شعیب سڈل، جنرل احسن محمود اور خواجہ ہارون، تین لوگوں کو تو میں جانتا ہوں، جو ٹیکس اکٹھا کرنے سمیت، ملک کو معاشی بدحالی سے نکالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یقیناً اور بھی ہوں گے۔ یہ بات غلط ہے کہ وژن رکھنے والا کوئی ایک بھی شخص موجود نہیں۔ حالات خراب تو ہیں لیکن اس دن سے زیادہ خراب نہیں، آبدیدہ اقبالؔ نے جب یہ کہا تھا کہ افسوس، کوئی مخلص مسلمان نہیں ملتا۔ حالات خراب تو ہیں لیکن 2008سے زیادہ خراب نہیں، جب دہشت گرد سوات، وزیرستان، فاٹا، کراچی اور بلوچستان میں دندناتے پھر رہے تھے۔

وژن رکھنے والا ایک لیڈر اگر ڈھونڈ لیا جائے تو حالات اب بھی بدل سکتے ہیں!