کورونا کی واپسی …!

October 16, 2020

ڈیٹ لائن لندن … آصف ڈار
برطانوی حکومت نے اس سال جولائی میں جب لاک ڈائون اٹھانے کا فیصلہ کیا تو طبی ماہرین نے مشورہ دیا تھا کہ لوگوں کو اس قدر آزادی نہ دی جائے کہ کورونا وائرس کی دوسری لہر آجائے اور یہ کہ یہ لہر زیادہ مہلک بھی ثابت ہوسکتی ہے۔ ظاہر ہے کہ حکومت نے اس مشورے پر غور ضرور کیا ہوگا مگر برطانوی معیشت کو اس وقت شاید مزید مکمل طور پر بند ارباب اختیار کے بس میں نہیں رہا تھا چنانچہ حکومت نے دوسری لہر کے خطرے سے آگاہی کے باوجود رسک لیا اور معیشت کا پہیہ بحال کرنے کے لئے لوگوں کو Eat Out (ایٹ آئوٹ) کے لئے مالی معاونت بھی کی۔ گرمیوں کے موسم میں تو بہت زیادہ لوگوں کے ریستورانوں، پبوں اور بارز میں جمع ہونے سے بہت زیادہ اثرات مرتب نہیں ہوئے تاہم ستمبر کے آخر اور اکتوبر میں جاڑا آتے ہی کورونا کے مثبت کیسوں کی تعداد روزانہ ہزاروں میں ہوگئی ہے اور اموات میں بھی ایک بار پھر زبردست اضافہ ہوگیا ہے۔ ایسے میں اگر حکومت نے معیشت کے پہیے کو مکمل طور پر رکنے سے بچانے کے لئے کورونا کے خطرے کو تین درجوں (میڈیم، ہائی، ویری ہائی) میں تقسیم کردیا ہے تاہم جس تیزی کے ساتھ کورونا دوبارہ پھیل رہا ہے اس سے لگتا ہے کہ لندن سمیت دیگر علاقوں میں بھی میڈیم کی بجائے ہائی یا ویری ہائی کے درجوں کا اطلاق کرنا پڑے گا جس کا مطلب یہ ہے کہ ملک بھر میں 60 سے 70 فی صد تک لاک ڈائون ہوگا اور اس کا سب سے زیادہ نقصان ملک کی اقتصادی ترقی (شرع نمو) کو ہوگا اور ملک تیزی کے ساتھ کساد بازاری کی طرف بڑھے گا۔ حکومت اگرچہ میڈیم درجے کے علاقوں میں ہائی یا ویری ہائی کا نفاذ نہیں کرنا چاہتی مگر اسے طبی ماہرین اور خود لندن کے میئر صادق خان کی جانب سے بھی اس دبائو کا سامنا ہے کہ کم از کم لندن میں اس کا درجہ بڑھا کر ہائی کردیا جائے۔ جس کا مطلب یہ ہوگا کہ لوگ ایک مرتبہ پھر اپنے گھروں میں کسی مہمان یا خاندان کے ایسے افراد جو ساتھ نہیں رہتے ہوں گے، کو نہیں بلا سکیں گے۔ البتہ چھ افراد گھر سے باہر کھلی جگہوں پر ایک دوسرے سے مل سکیں گے۔ ہوسکتا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ اور کورونا کے کیسز بڑھنے کی صورت میں مزید سختیاں کرنا پڑیں تاہم طبی ماہرین اور حکومت کو یہ یقین بھی ہے کہ ان سردیوں کے دوران کورونا سے نجات کی ویکسین بھی دریافت ہوسکتی ہے۔ یورپ کے دوسرے ممالک کی صورتحال بھی برطانیہ سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔ البتہ چونکہ اب کورونا کے بارے میں طبی ماہرین کے پاس بہت زیادہ معلومات آگئی ہیں اس لئے امکان یہی ظاہر کیا جارہا ہے کہ اموات کی شرح وہ نہیں ہوئی جو پہلے مرحلے میں تھی۔ دوسری طرف پاکستان پر اللہ تعالیٰ کی خاص کرم نوازی ہے کہ اب تک اس کو کورونا کی دوسری لہر کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ میڈیا میں اس وبا کے بارے میں لوگوں کو آگاہی دی جارہی ہے جب کہ گرم موسم بھی کرونا کو محدود رکھنے میں اپنا کردار ادا کررہا ہے۔ البتہ پاکستان میں بڑے پیمانے پر اپوزیشن کی سیاسی سرگرمیاں شروع ہونے کے بعد یہ نہیں کہا جاسکتا کہ کورونا واپس آئے گا یا نہیں، تاہم اگر سیاسی سرگرمیوں کے دوران ایس او پیز کی پابندی کی جائے اور خاص طور پر نوجوان خود کو کورونا سے بچا کر رکھیں تو وہ واپس اپنے گھروں میں جاکر اپنے بزرگوں کے لئے خطرے کا باعث نہیں بن سکیں گے۔ لوگوں کو سیاسی جلسوں اور جلوسوں میں جانے سے روکنا بھی درست نہیں اور ان اجتماعات میں کورونا کا خیال نہ رکھنا بھی غلط ہے۔ اس بات کو یاد رکھا جانا چاہئے کہ کورونا ایک حقیقت ہے اور جان لیوا بھی۔