وفاقی محتسب سیکریٹریٹ کا کام و بائی ایام میں بھی متاثر نہیں ہوا

October 25, 2020

تاریخ ِاسلامی کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ ’’محتسب اور احتساب‘‘ کا تصوّر سب سے پہلے حضرت عمر فاروقؓ کے دَور میں پیش کیا گیا۔اسلامی تاریخ میں پہلا محتسب انہوں نے ہی مقرّر کیا، جس کی ذمّے داریوں کا دائرۂ کار سرکاری عمال کے خلاف شکایات سُننے اور ان پر کارروائی تک محیط تھا۔ پھر اس حوالے سے جوواقعات اور روایات سامنے آئیں ،اُن سے پتا چلا کہ خود حضرت عمر فاروقؓ بھی اپنے ہی مقرّر کردہ محتسب کے سامنے جواب دہ تھے ۔ اپنےاس طرز ِعمل سے انہوں نےعوام کو یہ طاقت، ہمّت اور جرأت دی کہ کوئی بھی بھرے مجمعے میں اُٹھ کےخلیفۂ وقت سے سوال کر سکے کہ ’’آپ نے جویہ کرتا پہنا ہے، وہ لوگوں میں بیت المال سے تقسیم ہونے والے حصّے سے زیادہ ہے؟‘‘ اس طرح کے بے شمار واقعات ہیں ، جو اُس دَور میں احتساب کے حقیقی مفہوم اور محتسب کے مطلوبہ کردار کی غمّازی کرتے ہیں۔

نیشنل اکاؤنٹیبلیٹی بیورو (نیب) بھی احتساب ہی کا ایک ادارہ ہے۔ اس طرز کے ادارے اب دنیا کے اکثر ممالک میں کام کر رہے ہیں، جن میں سیکڑوں کی تعداد میں محتسب اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں ۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ جدید دنیا میں احتساب کا پہلا ادارہ سویڈن میں قائم کیا گیا ، جب کہ پاکستان میں 1983 ءمیں دارالحکومت،اسلام آباد میں وفاقی محتسب کےادارے کا قیام عمل میں آیا۔ اورجسٹس سردار محمّد اقبال (مرحوم)پہلے محتسب مقرر کیے گئے۔ ابتدا میں یہ ادارہ سوئی گیس ،ٹیلی فون بلز اور پاکستان ریلوے سے متعلق شکایات ہی پر کام کرتا تھا اورزیادہ تر ریٹائرڈ افرادہی درخواستوں کے تھیلے، شکایات کا انبار اٹھائے وفاقی محتسب کے دفتر میں آتے جاتےنظر آتے تھے۔

لیکن وقت گزرنے کے ساتھ جہاں شکایات کے شعبوں میں اضافہ ہوتاگیا، وہاں نگرانی کے بھی جدید طریقے اختیار کیے جانے لگے۔ کہا جاتا ہے کہ ’’انصاف ہونا چاہیے اور ہوتا نظربھی آنا چاہیے تاکہ اعتماد کی فضا پیدا ہوسکےکہ عدل و انصاف کے بغیر کوئی معاشرہ خوش حالی و ترقّی کی منا زل طے نہیں کر سکتا۔ ‘‘ اسی اصول کی روشنی میں اگر وفاقی محتسب کے ادارے کی کارکردگی اور وضع کردہ طریقۂ کار دیکھا جائے ،تو کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں وفاقی محتسب سیکریٹریٹ ایک ایسا ادارہ ہے، جہاں عام پاکستانیوں کو فوری اور مفت انصاف فراہم کیا جاتا ہے۔ شکایت گزار کا ایک پیسا بھی خرچ نہیں ہوتا اور گھر بیٹھے انصاف مل جاتا ہے۔

صدرِ پاکستان کو ششماہی رپورٹ پیش کرتے ہوئے

وفاقی محتسب کے ادارے کےقیام کا بنیادی مقصد وفاقی اداروں کی بدانتظامی کی شکایات کا ازالہ کرنا اور عام شہریوں کو مفت اور جلد انصاف فراہم کرنا ہے۔ گزشتہ دنوں ہم نے وفاقی محتسب، سیّد طاہر شہباز سے ایک ملاقات کی ، جس میں اُن سے ادارے کی کارکردگی، طریقۂ کاروغیرہ کے حوالے سے بات چیت کی گئی، جو نذرِ قارئین ہے۔

گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’’ہم نے شکایات کے فوری ازالےکے لیے تمام وفاقی اداروں کو ہدایات کی ہوئی ہیں کہ وہ ادارہ جاتی سطح پر شکایات حل کرنے کا نظام وضع کریں، تاکہ چھوٹے موٹے مسائل وہیں حل ہو جائیں۔ چناں چہ بیش تر وفاقی اداروں نے اپنے ہاں شکایات سیل قائم کر دئیے ہیں، جہاں کوئی بھی شخص اپنے ادارے کے خلاف شکایت درج کرواسکتا ہے ۔ واضح رہے،یہ شکایات صرف زبانی کلامی نہیں، کمپیوٹرائزڈ ہوتی ہیں۔یعنی اگر ادارے کی سطح پر ان شکایات پر 30دن میں کوئی کارروائی نہ ہوتو وہ خودکار نظام کے تحت وفاقی محتسب کے کمپیوٹرائزڈ سسٹم پر منتقل ہو جاتی ہیں۔ یوںوفاقی محتسب سیکریٹریٹ میں ان پر کارروائی شروع کی جاتی ہے۔

اس مقصد کے لیے وفاقی حکومت کے اکثر اداروں کو وفاقی محتسب کے کمپیوٹر ائزڈ نظام سےمنسلک کر دیا گیا ہے۔ہم نے مختلف یونی وَرسٹیز، تعلیمی اداروں کے تعاون سے قیدیوں کے لیے مفت تعلیم کا بندوبست بھی کیا ہوا ہے،جس کے نتیجے میں خیبرپختون خوا میں جنوری 2019 ء سے مارچ 2020 ءتک 578 قیدیوں نے مختلف درجات کے امتحانات پاس کیے اور122قیدیوں نے دینی تعلیم حاصل کرکےاسناد اور سرٹیفکیٹس بھی حاصل کیے۔ صوبۂ پنجاب میں گزشتہ برسوں میں تقریباً 1,514 قیدیوں نے ایف اے، بی اے اور ایم اے کے امتحانات دیئے۔

نمایندہ جنگ سے گفتگو کرتے ہوئے

اسی طرح لگ بھگ5,200 قیدیوں کو(بشمول خواتین ،بچّے) الیکٹریشن کاکام، موٹر وائنڈنگ، پلمبنگ ، کمپیوٹر ٹریننگ، کپڑوں کی سلائی اور دیگر فنون سکھائے جارہے ہیں تاکہ رہائی پانے کے بعد وہ با عزّت روزگار کما سکیں۔‘‘ قیدیوں کی خوراک وغیرہ سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ’’ قیدیوں کی خوراک کے مینیومیں کافی بہتری لائی گئی ہے،اب ہر ہفتے کے کھانوں کا باقاعدہ چارٹ بنایا جاتا ہے۔ نیز، جیل میں ذہنی امراض اور نشے میں مبتلا قیدیوں کو ایک مریض تصوّر کرکے ان کی دیکھ بھال کی جاتی ہے۔‘‘

سپریم کورٹ نے وفاقی محتسب پر ذمّے داری عائد کی ہے کہ انہوں نے جو سفارشات تیار کی ہیں، اُن پرعمل درآمد بھی یقینی بنائیں۔اس سلسلے میں وفاقی محتسب، سپریم کورٹ کو چھے عدد سہہ ماہی رپورٹس بھی پیش کر چُکے ہیں۔ اس حوالے سے اُن کا کہنا ہے کہ ’’ ہر رپورٹ سے قبل مَیں خود چاروں صوبوں کادورہ کرکے چیف سیکریٹریز، آئی جی جیل خانہ جات اور دیگر متعلقہ حکّام سے ملاقاتیں کرتا ہوں، جن سے مُلک بھر کی جیلوں میں کافی بہتری آئی ہے۔علاوہ ازیں، ہر ماہ باقاعدگی سے اپنے انویسٹی گیشن آفیسرز، فیصلوں پر عمل درآمد کروانے والی ٹیم اور دیگر شعبہ جات کا اجلاس بلاتا ہوں اور ان سے ماہانہ کارکردگی رپورٹ لیتا ہوں۔

ایسے ہی علاقائی دفاتر کے افسران سے بھی ماہانہ رپورٹ لی جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ ہمارے یہاں شکایات نمٹانے میں تاخیر نہیں ہوتی۔ اکثر شکایت کنندگان کا مسئلہ پہلی سماعت میں یا45 دن کے اندر حل ہو جاتا ہے، جب کہ بہت سے کیسز ایک ہفتے کے اندربھی نمٹائےجا چُکے ہیں۔ساٹھ دن سے زیادہ توکوئی شکایت ہر گززیرِ التوا نہیں رہتی۔‘‘ سیّد طاہر شہباز نے مزید بتایا کہ ’’ گزشتہ دنوں ایوانِ صدر میں ’’محتسبین کانفرنس‘‘ ہوئی تھی،جس کے دوران ہم نے اعداد وشمار کے حوالے سے جوششماہی رپورٹ پیش کی، وہ ہمارے ادارے کی مثالی کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

یاد رہے، ہمارے یہاں شکایات کا اندراج معمول کے مطابق جاری ہے اور ہمارا کام کورونا کی وجہ سے بالکل متاثر نہیں ہوا، بلکہ گزشتہ برس کے ابتدائی چھے ماہ کے مقابلے میں اس سال شکایات میں اضافہ ہواہے۔ 2019ءکے پہلے چھےماہ کے دوران 34,151شکایات موصول ہوئی تھیں، جب کہ جنوری سے پہلے آنے والی شکایات سمیت 35,895 شکایات کے فیصلے کیے گئے ۔ اس سال یکم جنوری سے 30جون 2020ءتک 47,285 شکایات موصول ہوئیں اور 41,071شکایات کے فیصلے کیے گئے۔ سب سے زیادہ شکایات بجلی سپلائی کرنے والی کمپنیز کے خلاف آئیں، جن کی تعداد 15,412 ہے، جن میں سے 13,826شکایات کے فیصلے کیے جا چُکے ہیں۔ سوئی گیس کے خلاف 6,114شکایات موصول ہوئیں ، جن میں سےجنوری سے قبل آنے والی شکایات سمیت 6,553 کے فیصلے کیے گئے۔ ان اعدادوشمار سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہمارے افسران اور عملے کے افراد کس مستعدی اور لگن سے کام کر رہے ہیں۔‘‘

موصول ہونے والی دیگر شکایات کے حوالے سے اُن کا کہنا ہے کہ ’’بجلی،گیس کے محکموں کے علاوہ دس ادارے جن کے خلاف سب سے زیادہ شکایات موصول ہوئیں،اُن میں نادرا، پاکستان پوسٹ آفس، علّامہ اقبال اوپن یونی وَرسٹی، پاکستان بیت المال، پاکستان ریلوے، اسٹیٹ لائف انشورنس، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام، آئی بی اور ای او بی آئی وغیرہ شامل ہیں۔یہ تاثر موجود ہے کہ وفاقی محتسب کا ادارہ صرف پانی، بجلی، گیس کے بلز اور اسی طرح کی چھوٹی موٹی شکایات کے لیے وقف ہے ، اسی لیے اسے زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی ،لیکن یہ عوامی سطح کی شکایات اور اُن لوگوں کے مسائل ہیں ،جن کی آمدنی محدودہے اوروہ کسی قسم کی سفارش سے بھی محروم ہیں۔ اور میری نظر میں یہی مسائل سب سے زیادہ اہم ہیں۔

ہم نے او سی آر (Outreach Complaint Resolution)کے نام سے ایک پائلٹ پراجیکٹ بھی شروع کیا ہے، جس کے تحت وفاقی محتسب کے افسران تحصیل اور ضلعی ہیڈکوارٹرز میں جاکر عام شہریوں کو ان کے گھر کی دہلیز پر انصاف فراہم کررہے ہیں، ان کیسزکا فیصلہ 45 دن میں کیا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا انقلابی قدم ہے، جسے نہ صرف مُلک بھر میں،بلکہ پوری دنیا میں سراہا گیا۔اس نظام کے تحت گزشتہ برس کے دوران وفاقی محتسب کے افسران نے تحصیل اور ضلعی ہیڈکوارٹرز میں جاکر سماعت کی اور 5,374شکایات کا ازالہ کیا۔علاوہ ازیں، خاران، بلوچستان میں حال ہی میں نئے علاقائی دفتر کا افتتاح کیا گیا ہے ، جس سے بلوچستان کے دُور دراز علاقوںکے لوگ بھی گھر وںکے قریب ہی ریلیف حاصل کر سکیں گے۔ قبل ازیں وفاقی محتسب کے 13 علاقائی دفاتر کوئٹہ، پشاور، لاہور، کراچی،ملتان، ایبٹ آباد، ڈیرہ غازی خان، گوجرانوالہ، اسلام آباد، سکھر، حیدرآباد، بہاول پور اور فیصل آباد میں کام کر رہے ہیں۔ خاران میں نئے دفتر کے قیام کے بعد علاقائی دفاترکی تعداد 14 ہوگئی ہے۔‘‘

مختلف فیصلوں کے حوالے سےاُن کا کہنا ہے کہ ’’ وفاقی محتسب کے فیصلوں پر کوئی بھی فریق نظرِثانی کی اپیل کر سکتا ہے، جس کا فیصلہ 45دن میں کر دیا جاتا ہے۔لیکن یہ اپیل صرف صدرِ پاکستان ہی کو کی جاسکتی ہے۔ ویسےعموماًصدر ِپاکستان محتسب ہی کا فیصلہ برقرار رکھتے ہیں۔ پچھلے برس وفاقی محتسب کے 74,869فیصلوںمیں سے صرف 317 کے خلاف صدرِپاکستان کو اپیل کی گئی اور اُن میں سے انہوں نے 23 قبول کیں۔ ‘‘ وفاقی محتسب نے اپنے آپ کو صرف شکایات کے فیصلوں ہی تک محدود نہیں رکھا، مختلف اداروں کے نظام کی اصلاح کے لیے متعلقہ شعبوں کی نام وَر شخصیات کی سربراہی میں 26کمیٹیاں بھی تشکیل دیں۔ جنہوںنے دیگر محکموں کے علاوہ نادرا، پاکستان پوسٹ، ریلوے، ادارہ قومی بچت اوربیرونِ مُلک پاکستانیوں، سرکاری ملازمین کی پینشن کے مسائل وغیرہ کے حوالے سے بھی سفارشات مرتّب کیں، جن پر سختی سے عمل درآمد کے سبب کئی مسائل حل ہورہے ہیں۔

ان ہی میں سےایک کمیٹی جیل خانہ جات کی اصلاح اور قیدیوں کے حقوق کے تحفّظ کے ضمن میں بھی ہے۔ وفاقی محتسب کی اس کمیٹی نے مُلک بھر کی جیلوں کے دَورے کرکے قیدیوں کی حا لتِ زار کا مشاہدہ کیا اور صوبائی حکومتوں ، مخیّر افراد کے ساتھ مل کر انہیں سہولتیں فراہم کرنے کا بندوبست بھی کیا ۔نیز، ایسے قیدیوں کا جرمانہ، دیت، دامن اور ارش کی رقم ادا کرکے عیدالفطر سے قبل ان کو رہائی دلوائی گئی ،جو صرف جرمانے کی رقم نہ ہونے کے سبب قید تھے۔

اس حوالے سے وفاقی محتسب نے بتایا کہ ’’2019 ءمیں صرف پنجاب کی جیلوں سے 865قیدیوں کی رہائی کے لیے تقریباً 27کروڑ روپے ادا کیےگئے،اسی طرح کئی قیدیوں کو مفت قانونی امداد بھی فراہم کی ۔ہمیں صوبائی حکومتوں نے بتایا کہ پچھلے سال بار ایسوسی ایشنز اور یو این او ڈی سی کے تعاون سے پورے مُلک میں 1500 سے زائد قیدی اس سہولت سے مستفید ہوئے۔ ایسے ہی جسٹس (ر) ناصر اسلم زاہد کی تنظیم سندھ کی 20 جیلوں میں قیدیوں کو مفت مدد فراہم کر رہی ہے۔دوسری جانب، وزیراعظم کی جانب سے بیرسٹر علی ظفر کی سربراہی میں بنائی گئی کمیٹی بلوچستان میں قیدیوں کو مفت قانونی مدد فراہم کر رہی ہے۔ جیل میں ڈاکٹر کی سہولت فراہم کی گئی ہےاور ضرورت پڑنے پر ماہرِ نفسیات کی خدمات بھی حاصل کی جاتی ہیں۔‘‘

سیّد طاہر شہباز کا مزید کہنا تھا کہ ’’ حال ہی میں بیرونِ مُلک مقیم پاکستانیوں کے لیے’’ پاکستان اوریجن کارڈ‘‘ پر فنگر پرنٹس بنانے کی ہدایت کی گئی ہے، جس پرعمل درآمد بھی شروع ہوچُکا ہے، جس کے نتیجے میں تقریباً پونے دو لاکھ’’ کارڈ ہولڈرز‘‘ وطن واپسی پر بآسانی بینک اکائونٹس کھول سکیں گے، جائیداد خرید سکیں گے۔ ہم نے پینشنرز کے مسائل کے حل کے لیے بھی متعدد اقدامات کیے ہیں۔ قبل ازیں پینشنرز صرف نیشنل بینک سے تنخواہ لے سکتے تھے، جہاں انہیں لمبی قطار میں لگنا پڑتا تھا۔اب سیکریٹریٹ میں ایک الگ شعبہ قائم کر کے پینشن براہِ راست اکائونٹ میں ٹرانسفرکرنے کی ہدایات جاری کر دی گئی ہیںتاکہ پینشنرز جب چاہیں اے ٹی ایم کارڈ یا چیک کے ذریعے رقم نکلوا سکیں۔

علاوہ ازیں،ہم نے تمام سرکاری اداروں کو ہدایت کی ہے کہ وہ اپنے کم از کم گریڈ انیس کے افسر ان کی سربراہی میں ایک پینشن سیل قائم کریں، جو سرکاری ملازمین کی ریٹائرمنٹ سے ایک سال قبل ان کی پینشن کے کاغذات مکمل کرنا شروع کر دے، تاکہ واجبات کی ادائی میں تاخیر نہ ہو۔ اسی طرح’’ ادارہ قومی بچت‘‘ کے حوالے سےہم نے جو اصلاحات تجویز کی تھیں، ان کے نتیجے میں بہت سے شہروںمیں کمپیوٹرائزڈ آٹو میشن سسٹم نے کام شروع کردیا ہے، جس سےاب عوام کو لمبی قطاروں میں نہیں لگنا پڑتا، سارا منافع خود کار سسٹم کے ذریعے ان کے اکائونٹ میں جمع ہو جاتا ہے۔اس ضمن میں یہ طے پایاہے کہ اگلے سال کے وسط تک یہ سہولت پورے مُلک میں فراہم کر دی جائے گی۔ ‘‘

اس وقت تقریباً85 لاکھ پاکستانی بیرونِ مُلک کام کررہے ہیں،جن کےمسائل کے حل کے لیے وفاقی محتسب سیکریٹریٹ میں باقاعدہ ایک الگ شعبہ قائم کیاگیا ہے ۔اور مُلک کے تمام بین الاقوامی ہوائی اڈّوں کے وَن ونڈو ڈیسک پر12 سرکاری محکموں کے افسران 24گھنٹے موجود رہتے ہیں، جو بیرونِ مُلک مقیم پاکستانیوں کے مسائل اور مسافروں کی شکایات فی الفور حل کر رہے ہیں۔ اس حوالے سےوفاقی محتسب نےبتایا کہ ’’ مَیں نے پاکستان کے تمام سفارت خانوں میں ہدایت کی ہے کہ پاکستان کے سفیر ہفتے میں ایک دن بیرونِ مُلک پاکستانیوں کے لیے ضرور مختص کریں اور ان کی شکایات سُن کر ان کا فوری ازالہ کریں۔

اس سلسلے میں ہر سفارت خانے کی طرف سے ہمیں ہر ماہ ایک مفصّل رپورٹ بھی ارسال کی جاتی ہے۔ ہماری ہدایت پر حال ہی میں سعودی عرب، چین اور کرغیزستان سمیت کئی مُلکوں سے پاکستانی طلبہ اور عام شہریوں کو واپس لانے کے لیےپی آئی اے نے خصوصی پروازیں بھی شروع کیں۔ نیز، بیرونِ مُلک وفات پا جانے والے پاکستانیوں کی میّتیں واپس منگوانے میں بھی مرکزی کردار ادا کیا۔‘‘