سکون ڈھونڈتا ہوا انسان

October 18, 2020

دنیا میں دو چیزیں ہوتی ہیں ۔ ایک ہے دولت اکٹھی کرتا انسان اور دوسرا انسانی دماغ کا حالتِ سکون (peace of mind)میں ہونا ۔انسان یہ سمجھتا ہے کہ اگر اس نے مال اکھٹا کر لیا تو وہ سکون حاصل کر لے گا۔ دنیا کے 7.8ارب انسان دولت اکٹھی کرنے کی تمنا میں بیدار ہوتے اور شب اسی کی معیت میں سو جاتے ہیں ۔ یہ مگر بالکل بھی ضروری نہیں کہ دولت کے ساتھ ساتھ انسان پہ دائمی خوشی نازل ہو۔نتیجہ برعکس بھی نکل سکتاہے ۔460ارب کے سکینڈل میں ،زرداری صاحب کے دستِ راست ڈاکٹر عاصم حسین کو گرفتار کیا گیا تو انہوں نے فریاد کی کہ انہیں ان کے ماہرِ نفسیات تک رسائی دی جائے ۔ صرف دولت ہی سب کچھ ہوتی تو کوئی امیر شخص کبھی ڈیپریسڈ نہ ہوتا۔

عہدِ اوّل کے انسان نے جب کسی شخص کو بھوک سے مرتا دیکھا تو اس کے دماغ میں خوف نے گہرائی تک پنجے گاڑ لیے ۔اس طرح کے واقعات نے اسے اکسا یا کہ جس قدرہو سکے ، مال اکٹھا کرو ۔ اس نے گندم اور چاول جیسی اجناس اکٹھی کرنا شروع کر دیں۔ انسان زمین کھود کر سونا دفن کرتا رہا۔بعد ازاں کرنسی نوٹ ایجاد ہوئے ، بینک تخلیق ہوئے ۔ اس کے ساتھ ہی مال اکٹھا کرنے، اسے چھپانے اور چھپا کر منتقل کرنے کی انسانی صلاحیت میں ہزاروں گنا اضافہ ہوا۔ لوگ اپنے گمنام ملازمین کے نام پر جعلی اکائونٹ کھلواتے اور اس میں دولت جمع کرتے۔ پھر اس دولت کو بیرونِ ملک منتقل کرتے۔ زرداری اور شریف خاندان اس کی زندہ مثال ہیں ۔ یہ سب کیا تھا ۔ یہ اپنی مستقبل کی زندگی کو آرام دہ بنانے کی وہ خواہش تھی ، جو اعتدال کی حدوں سے باہر نکل چکی تھی ۔ آج بے شمار لوگ اپنے خفیہ اکائونٹ چھپاتے چھپاتے مر جاتے ہیں ۔

دولت اگر سکون مہیا کر سکتی تو کبھی کوئی متمول شخص ڈپریشن کا شکار نہ ہوتا۔ دوسری چیز ہے ایک پرسکون ، صحت مند دماغ جو نفسیاتی مسائل کا شکار نہ ہو ۔ ایک ایسا دماغ جو خوف میں ڈوبا ہوا نہ ہو ۔ دولت مند ہونا اس چیز کی گارنٹی نہیں کہ انسان لازماً پرسکون ہوگا ۔ اسی طرح لازمی نہیں کہ دولت سے محروم شخص لازماً پریشان ہو۔ عبد الستار ایدھی کو دیکھ لیجیے ۔

دنیا کی سب سے بڑی سنگین حقیقت یہ ہے کہ آپ جو مرضی کر لیں ، ملک کے صدر، وزیرِ اعظم یا بادشاہ بن جائیں ، ایک ہزار سال کا غلہ اکھٹا کر لیں ، اس کے باوجود آپ اپنے مستقبل کو سو فیصد محفوظ بنانے کی کوئی ضمانت حاصل نہیں کر سکتے ۔آپ کے پاس اگر دنیا جہاں کی دولت موجود ہو لیکن آپ کو پارکنسن ہو جائے تو آپ اس دولت سے کتنا محظوظ ہو سکیں گے ؟ انسان کو حیاتیاتی طور پر اس طرح سے بنایا گیا ہے کہ وہ دنیا میں اپنی زندگی کو ایک خاص حد سے زیادہ آرام دہ نہیں بنا سکتا۔ دنیا میں محفوظ مستقبل کی اگر کوئی ضمانت ہوتی تو معمر قذافی اور صدام حسین کبھی اپنے ہی ملک میں یوں قتل نہ کر دیے جاتے ۔ شریف خاندان کبھی اقتدار سے محروم نہ ہوتا۔

دولت اکٹھی کرتے انسان نے کبھی اپنے دماغ پہ پیہم برستے خیالات پہ غور نہ کیا، جو دولت مندی کے باوجود اسے شدید اضطراب سے دوچار کر سکتے تھے ۔ یہ خیالات کیا ہیں ؟ استادِ محترم پروفیسر احمد رفیق اختر کا شہرہ آفاق لیکچر ہے "Does a man think?" پروفیسر صاحب بتاتے ہیں کہ خیال باطن نہیں بلکہ خارج سے انسانی دماغ پہ نازل ہوتاہے ۔ سورۃ الشمس میں لکھا ہے فالہمھا فجورھا وتقوھا۔نفس کو تشکیل دینے کے بعد اس کی نیکی اور اس کی بدی الہام کی جانے لگی ۔ دوسری طرف شیطان بھی مسلسل انسان کے کان میں پھونک رہا ہوتا ہے ۔ یہ اسے ایک دلفریب شبیہہ دکھاتاہے ۔ انسانی دماغ کے نچلے دو حصوں میں موجود نفس ، ایک وحشی جانور کی طرح اس دلفریب خیال کی طرف لپکتاہے ، جیسے بھوکا کتا گوشت پہ لپکتاہے۔شیطان جب انسان کو ایک شبیہہ دکھا کر اس کی طرف متوجہ کردیتاہے تو پھر باقی کام نفس کرتا ہے ۔ خدا فرماتاہے : تم چاہ بھی نہیں سکتے ، اگر اللہ نہ چاہے ۔ خدا یہ بھی کہتا ہے کہ ہر ذی روح کو ہم نے اس کے ماتھے سے تھام رکھا ہے ۔انسان آزاد ہرگز نہیں ۔جب گناہ کا خیال انسان کے دماغ پہ نازل ہوتاہے تو یہ اسی طرح ہوتا ہے ، جیسے تیل کے قریب سے آگ گزرتی ہے ۔ وہ آگ نہ پکڑے تو اور کیا کرے ؟اگر اس نے تقوے کا دامن تھام نہ رکھا ہو تو لازماً آگ پکڑ لے گا۔ انسان مال و دولتِ دنیا کی خاطرخوار ہوتارہا۔ وہ کبھی سمجھ نہیں سکا کہ حقیقی مسرت حاصل کرنے کے لیے اسے اپنے دماغ پہ برستے ہوئے دو طرح کے خیالا ت کو سمجھنا ہوگا ۔ نفسانی خواہشات کو سمجھنا ہوگا، جن کے مجموعے کو ’’نفس ‘‘کہتے ہیں ۔صرف وسائل اکھٹے کر لینے سے انسان دائمی سکون پا نہیں سکتا۔سب سے بڑھ کر تعلیم ضروری ہے ۔حضرت خضر ؑ نے حضرت موسیٰ ؑ سے یہ کہا تھا : تو اس چیز پہ کس طرح صبر کرے گا، جس کا تو علم ہی نہیں رکھتا۔ (سورۃ کہف 68)

انسان نے یہ سمجھ لیا کہ اپنا مستقبل محفوظ بنانے کے لیے زیادہ سے زیادہ دولت اکھٹی کی جائے ۔ وہ یہ نہیں سمجھ سکا کہ اگر وہ اپنے من کی دنیا میں اتر کر ،اپنے دماغ کے اندر موجود اضطراب اور خوف سے نہ لڑ سکا ، اپنی نفسیاتی گرہیں کھول نہ سکا تو سکون کبھی حاصل نہ کر سکے گا۔دائمی مسرت تک پہنچنے کیلئےبہت سے سوالات کے جواب درکار تھے ۔ علم سے تہی آدمی اس دائمی اضطراب سے کیا لڑیگا؟ اقبالؔ نے بے سبب نہ کہا تھا

اپنے من میں ڈوب کر پاجا سراغِ زندگی

تو اگر میرا نہیں بنتا، نہ بن، اپنا تو بن

جب انسان ایک گناہ کرتاہے تو اس کی روحانی صحت کو نقصان پہنچتا ہے اور دماغ میں خوف پیدا ہوتاہے ۔اس موقع پر شیطان کی چاندی ہو جاتی ہے اور وہ مسلسل انسان کو یہ یقین دلانے کی کوشش کرتاہے کہ وہ اب انسانیت کے مرتبے سے گر چکا ہے،لہٰذا اسے خودکشی کر لینی چاہیے ۔ پر مسرت زندگی کے لیے وسائل جمع کرنا جتنا ضروری تھا، اتنا ہی اپنی روحانی اور ذہنی صحت کا خیال رکھنا ضروری تھا۔ اب تو خیر دولت اکھٹی کرتے انسان نے اپنی جسمانی صحت کا خیال رکھنا بھی چھوڑ دیا ہے ۔ انسانوں کی اکثریت اب کھا کھا کر فربہ اندام ہوتی جا رہی ہے ۔