برسلز: جالب چیئر کے زیر اہتمام ورچوئل مذاکرہ’سخنِ جالبؔ‘

October 20, 2020

پروگریسیو تھاٹس انٹرنیشنل یورپی یونین برسلز سے منسلک جالب چیئر کے زیر اہتمام ورچوئل مذاکرے’سخنِ جالبؔ‘ کو سوشل میڈیا پر دنیا بھر سے ہزاروں افراد نے براہ راست پانچ گھنٹوں تک دیکھ کرتاریخ رقم کردی۔

مذاکرے میں پاکستان سمیت دنیا کے دیگر ممالک سے ممتاز شعراء، دا نش ور، ادبا، فنکاروں اور صحافیوں نے شرکت کی۔ مذاکرے کے پہلے حصے کی صدارت انسانی حقوق کے علم بردار آئی اے رحمان اور دوسرے حصے کی صدارت ڈاکٹر شاہ محمد مری نے کی۔ مہمان خصوصی معروف صحافی اور کالم نویس حامد میر تھے۔

نظامت کے فرائض چیئرمین ”جالب چیئر“ سیف اللّٰہ سیفی نے انجام دئیے۔ جالب چیئر کے صدر ملک محمد اجمل، جنرل سیکرٹری عمر میمن اور جالب چیئر کینیڈا کے صدر ابراہیم دانیال نے افتتاحی و خیر مقدمی کلمات کے ساتھ تمام شرکاء کو خوش آمدید کہا۔


تقریب کا آغاز ریسکیو کشمیر موومنٹ کے صدر اور مزدور رہنما احمد ندیم بٹ کی تلاوت کلام پاک سے ہوا، جس کے بعد حبیب جالب اور گذشتہ ماہ انتقال کرجانے والے ان کے صاحب زادے ناصر عباس جالب، 18 اکتوبر2007ء میں سانحہ کارساز میں جان کی بازی ہارنے والے اور پورے ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں شہید ہونے والوں کے ایصال ثواب کے لیے بھی فاتحہ خوانی کی گئی۔

مہمان خصوصی حامد میر نے اپنے خطاب میں کہا کہ جالب صاحب کی ذات کا ایک صوفیانہ پہلو بھی ہے۔ ایک صوفی سوائے اللّٰہ کے کسی سے نہیں ڈرتا اور اسی صوفیانہ طبیعت کی وجہ سے وہ کسی بھی بڑی سے بڑی شخصیت کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔

صدرِ مذاکرہ آئی اے رحمان نے کہا کہ یہ حقیقت ہے کہ حبیب جالب نے کسی بھی آمر کے سامنے سر نہیں جھکایا اور نہ ہی دوست نما دشمنوں کے سامنے جھکے۔ انھوں نے کہا کہ جالبؔ کی آواز اُن کے دل سے نکل کر لوگوں کے دل میں اُتر جاتی تھی۔ انھوں نے مزید کہا کہ جب تک دنیا میں استحصال ہے، جب تک غریب پِس رہا ہے، جب تک لوگ جمہوری حقوق سے محروم ہیں، جب تک نو دولتیوں کی حکومت ہے، جب تک دھوکے بازوں کی حکومت ہے جالب کا پیغام ایک امر صداقت کے طور پر عوام کی رہنمائی کرے گا۔

ممتاز دانشور اور شاعر افتخار عارف نے کہا کہ حبیب جالب میں ایک کشادہ ظرفی تھی، وہ ہمارے طبقے کے آدمی تھے۔ انھوں نے کہا کہ ملک اور عوام کی تاریخ ایک وہ ہوتی ہے جو مورخ لکھ رہے ہوتے ہیں، ایک وہ ہوتی ہے جو صحافی لکھ رہے ہوتے ہیں، ایک وہ ہوتی ہے جو درباری وقائع نگار لکھ رہے ہوتے ہیں۔ مگر ایک تاریخ وہ بھی ہوتی ہے جو اہلِ ادب اور شاعر لکھ رہے ہوتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ تیسری دنیا میں جو شاعر ہیں وہ اُس طرح کا شاعر نہیں ہے جیسے دنیا کے دوسرے ملکوں میں ہوتے ہیں۔ اس کی ایک ذمے داری ہوتی ہے اور اس کا ایک فرض ہوتا ہے۔

تقریب کے دوسرے حصے کے صدر ڈاکٹر شاہ محمد مری نے کہا کہ جالب صاحب اسٹیج کے آدمی تھے اور وہ لاکھوں آدمیوں کے سامنے اپنی بات کرتے تھے۔

اداکار مصطفیٰ قریشی نے جالب چیئر کے قیام کی پذیرائی کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے دیارِ غیر میں رہتے ہوئے اتنا بڑا قدم اٹھایا جب کہ یہ ہمارے کرنے کا کام تھا کہ جالب کی یاد میں کوئی انسٹیٹیوٹ یا اکیڈمی قائم کرتے۔

محقق اور شاعر ڈاکٹر فاطمہ حسن نے جالب کے بارے میں اپنا تحقیقی مقالہ پڑھ کر سنایا۔ جس میں انھوں نے بہت سی تاریخی باتوں کا ذکر کیا۔

تقریب کے دوران محترمہ زہرا نگاہ، معروف قانون دان عابد حسن منٹو، انور شعور اور مزدور رہنما عبدالعزیز میمن کے خصوصی پیغامات بھی دکھائے گئے، جو ناسازی طبع کی وجہ سے شرکت نہ کرسکے۔

جن دیگر مقررین اور مہمانوں نے جالب صاحب کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا ان میں ممتاز شاعر جاوید صبا، معروف کالم نویس ڈاکٹر توصیف احمد، معروف صحافی فرخ سہیل گوئندی، معروف ترقی پسند شاعر محترمہ عشرت آفرین شامل تھیں۔

دیگر شرکاء میں مرحومہ عاصمہ جہانگیر کی صاحب زادی منیزے جہانگیر، آنریبل آلڈرمین اور CBE تھرڈ ورلڈ سالیڈیریٹی کے چیئرمین مشتاق لاشاری، معروف صحافی خالد حمید فاروقی، مزدور رہنما اور جالبؔ مرحوم کے دیرینہ ساتھی منظور احمد رضی، معروف ناول نگار و شاعر ابنِ صفی مرحوم کے صاحب زادے احمد صفی، انسانی حقوق کے علم بردار فصیح سید، فیض کلچرل فاؤنڈیشن برطانیہ کے صدر ڈاکٹر عمر دراز خان، جنرل سیکرٹری علی خاقان مرزا، معروف صحافی منصور عالم کے علاوہ پیپلز پارٹی برطانیہ کے صدر محسن باری بھی شامل تھے۔