کشیدہ صورتحال

October 23, 2020

ملک کی اندرونی صورتحال روز بروز کشیدہ ہوتی جا رہی ہے۔ ایک طرف ملک کے مختلف حصوں خصوصاً بلوچستان اور کے پی میں دہشت گردی کے واقعات ہو رہے ہیں۔ اور اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ دہشت گردی کے واقعات کے پیچھے بھارت ہے۔ دوسری طرف تمام تر حکومتی دعوئوں اور نت نئے نوٹسز اور اعلانات کے باوجود مہنگائی بڑھتی جا رہی ہے۔ بے روزگاری کا گراف اوپر جا رہا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ حکمرانوں اور اپوزیشن کے درمیان محاز آرائی میں اب اداروں کو بھی ملوث کیا جانے لگاہے۔ یہ تمام صورتحال انتہائی تشویشناک ہے۔ دہشت گردی کے واقعات میں سیکورٹی فورسز کے افسران اور جوان ملک کے لئے جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں۔ ملکی دفاع اور امن و امان برقرار رکھنا بلاشبہ ان کی ذمہ داری ہے۔ لیکن کیا انہی کو اپنی ذاتی انا، مفادات اور انتقامی سیاست و اقتدار کی خاطر الزامات کے نشانے پر رکھنا مناسب ہے؟ حکومت بیڈ گورننس کو گڈ گورننس میں تبدیل کرنے، مہنگائی اور بے روزگاری پر قابو پانے کے بجائے اپوزیشن کو انتقام کا نشانہ بنانے اور مخالفین کو نیچا دکھانے پر لگی ہوئی ہے۔

جبکہ اپوزیشن عوامی مسائل کے حل کے لئے حکومت پر زور دینے کے بجائے حکمرانوں سے کرسی کھینچنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ یعنی سارا نظام الٹا چل پڑا ہے۔ سرحدوں اور خطے کے حالات غیر تسلی بخش ہیں۔ لیکن نہ حکمرانوں کو اس تمام صورتحال کی فکر ہے نہ ہی اپوزیشن کو احساس ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ اب تو یہ پتہ نہیں چل رہا کہ حکومت کونسی ہے اور اپوزیشن کونسی ہے؟ جنگل کا قانون نظر آرہا ہے۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا معاملہ لگ رہا ہے۔ جن کے ہاتھ میں لاٹھی ہے وہ اپنے منصبی تقاضوں اور آداب کو بالائے طاق رکھ کر منہ پر ہاتھ پھیر کر مخالفین کو للکار رہے ہیں۔ وزراء جلتی پر تیل ڈال رہے ہیں کہ آگ بجھنے نہ پائے۔ اب حکومت اور اپوزیشن کی لڑائی میں اداروں کو بھی گھسیٹنا چاہتے ہیں بلکہ گھسیٹ رہے ہیں اور یوں اداروں کو بے توقیر کرنے اور بد اعتمادی کی فضا بنانے کی کوششیں جاری ہیں۔ بیانات تو ایک طرف کراچی میں کیپٹن (ر) صفدر کے خلاف پرچہ درج کروانے کا منظر تو ہر چینل پر لوگوں نے براہ راست دیکھا ہے کہ کس طرح وفاقی وزیر اور پی ٹی آئی کے بعض اراکین صوبائی اسمبلی تھانے کے باہر دھرنا دے کر بیٹھ گئے تھے۔ وفاقی وزیر نے کس طرح بیانات دیے تھے؟ اور آخر کار صبح سویرے پرچہ درج کرایا گیا ۔ پھر کس طرح کیپٹن(ر) صفدر کے کمرے پر دھاوا بول دیا گیا جہاں وہ اور ان کی اہلیہ موجود تھیں۔ یہ نہ تو ہمارے معاشرے کی روایات ہیں نہ آئین کے مطابق ہے۔ دوسری طرف سندھ حکومت نے آئی جی پولیس کے اغوا اور زبردستی پرچہ کرانے کا الزام ایک ادارے پر لگادیا۔ یہ کوئی طریقہ ہے؟ اس کی وضاحت تو آئی جی سندھ ہی کر سکتے ہیں کہ اس رات کیا ہوا تھا اور ان کے گھر آنیوالے اور ان پر دبائو ڈالنے والے کون تھے؟ لیکن اس طرف کسی نے توجہ ہی نہیں دی۔

یہ تو اچھا ہوا کہ آرمی چیف نے اس واقعے کا نوٹس لیا اور کور کمانڈر کو جلد رپورٹ پیش کرنے کی ہدایات جاری کیں۔ رپورٹ آنے کے بعد ہی حقائق منظر عام پر آئیں گے لیکن وزراء اور پی ٹی آئی کے اراکین پارلیمنٹ ایک بار پھر آگ پر پانی ڈالنے کے بجائے تیل ڈال رہے ہیں۔ اور سندھ پولیس کے اعلیٰ افسران کی چھٹیوں کی درخواستوں کا معاملہ بلاول ہائوس سے جوڑنے لگے ہیں کہ ان اعلیٰ افسران نے چھٹیوں کی درخواستیں بلاول ہائوس کے اشارے پر دی ہیں۔ اس طرح یہ سنگین معاملہ سلجھانے کے بجائے روز بروز الجھایا جا رہا ہے۔ اس تمام صورتحال کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو کہیں تو دال میں کالا ضرور ہے۔ ورنہ حکومتی وزراء کیوں اتنے بے چین ہو رہے ہیں۔ آرمی چیف کی ہدایات پر انکوائری رپورٹ کا انتظار کیوں نہیں کیا جا رہا؟ ایک طرف پولیس کے اعلیٰ افسران کی بات سنے بغیر ان پر الزامات لگائے جا رہے ہیں ، طعنے دیئے جا رہے ہیں اور دوسری طرف اہم ترین اداروں کو ہر معاملے میں گھسیٹ کر ان کو کمزور کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ پی ڈی ایم کے جلسوں میں جرنیلوں پر الزامات لگائے جا رہے ہیں۔

کوئی یہ تو بتائے کہ حکومت اور اپوزیشن کیاحاصل کرنا چاہتے ہیں؟ جرنیلوں پر الزامات لگانے کے بجائے اس وقت کیوں بات نہیں کی گئی، معاملہ عوام کے سامنے کیوں نہیں لایا گیاجب یہ لوگ بر سر اقتدار تھے؟ اور موجودہ حکومت ہر معاملہ میں ناکامی پر اہم اداروں کو سامنے کھڑا کرنے کی کوششیں کیوں کرتی ہے؟ لگتا تو یہ ہے کہ یہ سب لوگ اپنے اپنے مفادات کے لئےاب اس حد پر پہنچ گئے ہیں کہ اہم ترین ملکی اداروں کو بھی دائو پر لگانے سے گریز نہیں کررہے۔ اگر ملک و قوم کے لئے نہیں سوچتے تو کم از کم اہم ترین ملکی اداروں کو تو بدنام کرنے کی کوششیں نہ کی جائیں، ملک کی معاشرتی روایات کو تو پامال نہ کیا جائے۔ سیاسی رہنما اگر گالم گلوچ پر اتر آئیں، صرف چند دن کی کرسی کے لئے ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالتے رہیں اور خوف خدا دل سے نکال کر جھوٹے الزامات لگاتے رہیں۔ اور پھر ان الزامات کی بنیاد پر انتقامی کارروائیاں ہوتی رہیں تو یہ کیسے رہنما ہوں گے؟

یہ بڑا ظلم ہے۔ خدا را آنیوالی نسل کو اس دلدل سے بچائیں۔ کم از کم اندازِ گفتگو میں احتیاط کریں۔ جھوٹے الزامات نہ لگائیں۔ اس وقت سے ڈریں جب جواب دینا ہوگا۔ ملک وقوم کی بہتری کے لئے کچھ کریں۔ یاد رکھنا چاہئے کہ صاحبِ اقتدار اور صاحبِ اختیار لوگوں کا حساب کتاب زیادہ سخت ہوگا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)