تعلیم میں سرمایہ کاری

October 25, 2020

تعلیم آج بحران کا شکار ہے۔ یہاں تک کہ کورونا وائرس جیسے وبائی امراض پھیلنے سے پہلے ہی دنیا کے بہت سارے حصوں میں ، جہاں بچوں کو اسکول میں ہونا چاہیے تھا، وہ اسکول نہیں جاپارہے تھے، اور جو اسکول جارہے تھے، ان اسکولوں میں اکثر تعلیم کی فراہمی کے وسائل کی کمی ہوتی ہے۔ ایسے وقت میں جب معیاری تعلیم پہلے کے مقابلے میں کسی کی بھی زندگی کے لیے زیادہ اہم ہے ، یہ بچےجب بڑے ہوکر عملی زندگی میں داخل ہوں گے، وہ عالمی معیشت میں حصہ لینے اور اس میں حصہ ڈالنے کے لیے درکار تعلیم سے محروم رہیں گے۔

تاریخی طور پر ، تعلیم ’صاحبِ حیثیت‘ اور ’محروم‘ طبقات کے مابین مختصر ترین پل کا کردار ادا کرتی رہی ہے، جس سے افراد اور ممالک دونوں میں ترقی اور خوشحالی آتی ہے۔ لیکن موجودہ تعلیمی نظام سے اب یہ بات عیاں ہورہی ہے کہ یہ اپنی زندگی کے آخری ہچکولے رہا ہے۔ موجودہ نظام تعلیم کی بنیاد ایک ایسے وقت میں رکھی گئی تھی، جب صنعتوں کو ایک مخصوص مہارت اور علم کی حامل افرادی قوت درکار تھی۔ یہ نظام اب جدت اور مستقل تبدیلی کے نئے دور میں اپنی اہمیت کھو رہا ہے، جہاں موافقت اور ہر روز نیا سیکھنے کی جستجو سب سے زیادہ ضروری ہے۔

تیسرے صنعتی انقلاب کے ماڈل پر بننے والا ہمارا موجودہ تعلیمی نظام ، آئی کیو (ذہانت) پر خصوصی توجہ دیتا ہے ، جس میں مواد حفظ کرنے اور ایک معیارکو قائم رکھنے پر ہی ساری توانائیاں صرف کی جاتی ہیں۔ تاہم، آج کے دور میں یہ ایسی مہارتیں بن چکی ہیں جو بآسانی اور موثر انداز میں مصنوعی ذہانت اور آگمینٹڈ انٹلیجنس (AI) کے ذریعہ فراہم کی جائیں گی۔ اس دور میں کامیابی کے لیے صرف عقل ہی کافی نہیں ہے۔ آج کے دور میں IQ (ذہانت) + EQ (جذباتی ذہانت) +RQ (لچک) کا اچھا امتزاج ایک طالب علم کی صلاحیت کو پروان چڑھانے کے لیے اہم ہے۔

اگر موجودہ نظامِ تعلیم کو، ’نوکری کے لیے تیاری‘، ’نوکریوں کے لیے اسمارٹ مشینوں کا مقابلہ کرنا‘ اور ’طویل مدت میں معاشی اہمیت‘ کے پیمانے پر پَرکھا جائے تو درج ذیل نتائج برآمد ہوتے ہیں:

٭ 34فیصد طلبا کا خیال ہے کہ ان کے اسکول انہیں ملازمت کی منڈی میں کامیابی کے لیے تیار نہیں کررہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم تعلیم سے لے کر ملازمت تک کے درمیان موجود باہمی پُل کو ٹھیک کریں۔

٭ ورلڈ اکنامک فورم کی ’نوکریوں کا مستقبل‘ رپورٹ کے مطابق، مستقبل کی 60 فیصد ملازمتیں ابھی پیدا ہی نہیں ہوئی ہیں اور آج اسکولوں میں نرسری اور کنڈر گارٹن کی عمر کے 40فیصد بچے، بڑے ہوکر جب عملی زندگی میں داخل ہوں گے تو ان میں سے کم از کم 40فیصد افراد کو اپنی آمدنی کے وسائل خود پیدا کرنا پڑیں گے۔

امریکا میں طلبا کا 1.5ٹریلین ڈالر مالیت کا قرض، گھر کے رہن کے بعد دوسرا سب سے بڑا قرض ہے۔ توقع ہے کہ امریکا میں سالانہ ٹیوشن فیس ایک لاکھ ڈالر سے تجاوز کرجائے گی ، جس کے بعد ماہرین کہہ رہے ہیں کہ تعلیمی قرضے آنے والی نسلوں کو کچل دیں گے۔ امریکا میں یہ بات بھی مشہور ہے کہ سابق امریکی صدر براک اوباما مبینہ طور پر 40سال اور بعد کی عمر میں بھی اپنے تعلیمی قرضوں کی ادائیگی کر رہے تھے۔

امریکا میں کالج سے فارغ التحصیل گریجویٹ کی اوسط سالانہ آمدنی 48ہزار400ڈالر ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ بہت سارے افراد اپنی ریٹائرمنٹ کے وقت بھی تعلیمی قرضوں کی ادائیگی کر رہے ہوں گے، جس سے ان کی بچتیں کرنے، مکانات خریدنے، خاندان کی مدد اور انسان دوستی کی کوششوں میں حصہ ڈالنے کی صلاحیت کو نقصان پہنچے گا۔

ان حقائق کی روشنی میں ضرورت اس اَمرکی ہے کہ جب دنیا تعلیم کے موجودہ نظام کو بدلنے پر کام کرے، تو انھیں اس کو مزید قابل دسترس بنانے پر بھی کام کرنا چاہیے۔ یونیسیف کے مطابق، پرائمری تعلیم عمر کے 72 ملین سے زائد بچے اسکول میں نہیں ہیں جبکہ 750ملین بالغ افراد اَن پڑھ ہیں اور وہ اپنی اور اپنے بچوں کی زندگیوں کو بہتر بنانے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ نظامِ تعلیم کو دورِ جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرتے وقت یہ ضروری ہے کہ اسے تین پیمانوں ’رسائی‘، ’مساوات‘ اور ’معیار/اثرپذیری‘ میں ضرور پرکھا جائے، تاکہ دنیا تعلیم کے ممکنہ طور پر بہترین نتائج سے مستفید ہوسکے۔

رسائی کا مطلب یہ ہے کہ طلبا کو ہر جگہ ایسا ماحول میسر ہو جو انھیں اسکول میں رہنے اور تعلیم حاصل کرنے سے نہ روک سکے۔ بہت سارے ترقی پذیر ممالک میں تعلیم تک رسائی کم ہے ، لیکن ترقی پذیر ممالک میں بھی عدم مساوات موجود ہے۔ مساوات کا مطلب یہ ہے کہ ہر بچے کو اسکول جانے اور آگے بڑھنے کے لیے درکار وسائل مساوی طور پر دستیاب ہوں، چاہے حالات کچھ بھی ہوں۔ مساوات کا مطلب یہ بھی ہے کہ ہر طالب علم کے ساتھ ایک جیسا سلوک برتا جائے۔ مساوات کا مطلب، اس بات کو یقینی بنانا بھی ہے کہ ہر طالب علم کو وہ تمام ضروری وسائل دستیاب ہوں، جن کی اسے کامیاب ہونے کے لیے ضرورت ہے۔

معیار اور اثرپذیری کی تعریف کو معیاری جانچ کے اسکور سے آگے بڑھ کر زندگی میں بہتری اور معاشرتی اثرات سے منسلک کرنے کی ضرورت ہے۔ معیاری تعلیم، طلبا کو ان صلاحیتوں اور قابلیتوں سے لیس کرے گی، جو انہیں معاشی طور پر پیداواری بنانے، پائیدار معاش کو ترقی دینے، انفرادی بہبود میں اضافہ اور معاشرے میں مثبت کردار ادا کرنے کے لیے ضروری ہے۔

اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کا کہنا ہے کہ، ’’معاشی ترقی، نوجوان خواتین اور مردوں کے لیے مہارت اور مواقع کی بہتری ، اور پائیدار ترقی کے تمام 17اہداف پر پیشرفت حاصل کرنے کا سب سے کم خرچ طریقہ تعلیم میں سرمایہ کاری کرنا ہے‘‘۔