اسموگ اور احتیاطی تدابیر

October 26, 2020

گزشتہ کچھ برس سے پنجاب کے بیشتر شہری و دیہی علاقے موسمِ سرما کی آمد سے قبل گرد آلود زہریلی دھند(اسموگ) کی لپیٹ میں آ جاتے ہیں جس کے باعث سانس، دمہ، نزلہ و زکام اور بلڈ پریشر کی بیماریاں پھیلنے کے ساتھ ساتھ حدِ نگاہ کم ہونے کی وجہ سے گاڑیوں کے حادثات میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔ اِس سال بھی لاہور شہر میں آلودگی خطرناک حد تک پہنچنے سے اسموگ شدت اختیار کر گئی ہے اور اوسط ائیر کوالٹی انڈیکس 193سے بھی تجاوز کر گیا ہے۔ گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں آلودگی پھیلانے کا سب سے بڑا ذریعہ قرار دیا جا رہا ہے جو 45فیصد ہے۔ فیکٹریوں اور بھٹوں سے نکلنے والا دھواں 23فیصد جبکہ فصلوں کی باقیات جلانے سے پیدا شدہ آلودگی کا تناسب 12فیصد قرار دیا گیا ہے۔ شہر کے دیگر علاقوں میں ریکارڈ کیا جانے والا ائیر کوالٹی انڈیکس اوسطاً 250سے زائد ہے۔ اسموگ سیزن میں لاہور چونکہ سب سے حساس شہر ہے اِس لئے یہاں پرانے اور روایتی ٹیکنالوجی پر چلنے والے بھٹوں کو نوٹس جاری کئے جا چکے ہیں لیکن ابھی تک 7532بھٹوں میں سے صرف 695زگ زیگ ٹیکنالوجی پر منتقل ہو سکے ہیں۔ اسموگ کے تدارک کیلئے فصلوں کی باقیات کو جلانے والے کسانوں کے خلاف بھی مقدمات درج کئے جا رہے ہیں لیکن دوسری طرف گزشتہ برس کی طرح اِس بار بھی بھارتی پنجاب میں کسانوں کی طرف سے دھان کی باقیات جلانے کی وجہ سے پاکستانی پنجاب بالخصوص لاہور اسموگ کی شدید لپیٹ میں آ سکتا ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ ملکی سطح پر اقدامات کرنے کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی قوانین کے مطابق بھارت کے خلاف پاکستان کی حدود میں آلودگی پھیلانے پر قانونی چارہ جوئی بھی کرے۔ لازم ہے کہ وفاقی و صوبائی سطح پر ایسی طویل المدت ٹھوس حکمت عملی اپنائی جائے جس سے ماحول کا تحفظ یقینی ہو اور جو بیماریوں سے پاک صحت مند معاشرے کی تشکیل میں بھی اہم کردار ادا کرے۔