لاہور قلندر کی کراچی اور آزاد کشمیر میں ہائی پرفارمنس سینٹر بنانے کی منصوبہ بندی

October 27, 2020

پاکستان میں کرکٹ سے دلچسپی رکھنے والے عام شائقین سے پاکستان سپر لیگ کی ٹیموں کے بارے میں بات کریں تو فوری طور پر لوگ لاہور قلندرز کا ذکر کرتے ہیں اور پھر اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ یہ بدقسمت فرنچائز ہے جو ابتدائی چار سال ٹائیٹل نہ جیت سکی۔پی ایس ایل کے ابتدائی چاروں سال توقعات کے برعکس کارکردگی دکھانے والی لاہور قلندرز کی ٹیم اس سال ٹائیٹل کی دوڑ میں موجود ہے اور امکان ہے کہ اس ٹیم کا مشکل وقت ختم ہورہا ہے۔17نومبر کو یہ ٹرافی لاہور کے کپتان سہیل اختر کے ہاتھ میں ہوگی۔

اسی تصویر کا دوسرا رخ دیکھیں تو پاکستان سپر لیگ سے شہ سرخیوں میں آنے والی لاہور قلندرز کی فرنچائز پورے سال پلیئرز ڈیولپمنٹ پروگرام اور اپنے ہائی پرفارمنس سینٹر کی وجہ سے خبروں میں رہتی ہے۔اس فرنچائز کے چار ستون ہیں جن کی سوچ نے آج لاہور قلندرز کو مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچا دیا ہے۔قلندرز کے چیئرمین فواد رانا۔سی ای او رعاطف رانا ،سی او او ثمین رانا اور ڈائریکٹر عاقب جاوید پر مشتمل ان ستونوں نے اس فرنچائز کو سب سے آگے پہنچا دیا ہے۔ایک وقت تھا جب عاطف رانا کی باتوں کو دیوانے کا خواب کہا جاتا تھا۔ عاطف راناکرکٹ کے حلقوں میں مسٹر نو پرابلم کے نام سے مشہور ہیں۔ان کی مسلسل محنت،سوچ اور ٹیم ورک نے مشن ایمپوسیبل کو پوسیبل کردکھایا ہے۔

لاہور قلندرز کے پلیئرز ڈیولپمنٹ پروگرام سے شاہین شاہ آفریدی ،فخر زمان ،حارث روف جیسے کھلاڑی پاکستانی ٹیم کا حصہ ہیں اور کئی اور کھلاڑی پاکستان کرکٹ ٹیم میں جگہ بنانے کے لئے کوشش میں مصروف ہیں۔لاہور میں جدید ہائی پرفارمنس سینٹر کے بعد اب کراچی اورآزاد کشمیر میں بھی ہائی پرفارمنس سینٹر بنانے کی منصوبہ بندی جاری ہے۔پاکستان کرکٹ بورڈ آئی سی سی کی فنڈنگ سے چلنے والا ادارہ ہے لیکن پرائیویٹ سیکٹر میں شائد اس کی کوئی اور مثال نہیں ملتی ہے۔رانا عاطف اور عاقب جاوید دن بھر نت نئے منصوبوں کے بارے میں سوچتے ہیں انہیں عملی جامع پہنانے کی کوشش کرتے ہیں۔اس سوچ کے پیچھے رانا ثمین کا بھی بڑا کردار ہے۔

سب سے بڑھ کر فواد راناکی شخصیت اس پوری فرنچائز کے لئے رول ماڈل ہیں۔لاہور قلندرز ایک نمایاں ٹیم کے طور پر سامنے آ ئی ہے۔ گذشتہ چار سیزنز میں زیادہ کامیابی حاصل نہ کر پانے کے باوجود ایک طرف لاہور قلندرز کا پلیئر ڈویلپمنٹ پروگرام اور اس نکلنے والے کھلاڑی اس کو سرخیوں میں رکھتے ہیں۔ان کھلاڑیوں میں شاہین شاہ آفریدی، فخر زمان اور حارث رؤف پاکستان کی ٹیم میں آکر اپنی کارکردگی کا لوہا منواچکے ہیں۔

دوسری جانب پاکستان سپر لیگ کے دوران لاہور قلندرز میں شائقین کی دلچسپی کی ایک وجہ ٹیم کے چیئرمین فواد رانا بھی ہیں۔گراؤنڈ میں کھیل کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ ان کا رد عمل دینے اور جشن منانے کا منفرد انداز ہو یا پھر میچ ہار جانے کے بعد بھی مسکراتا ہوا چہرہ اور اس کے بعد ان کی آواز میں قلندرز کا تھیم سونگ، شائقین ان کی ہر ادا کو توجہ سے دیکھتے ہیں۔

اس سال وہ ٹورنامنٹ کے دوران جب پاکستان نہ آئے تو پاکستانی میڈیا میں فواد راناکو لے کر ایک بحث چھڑ گئی لیکن رانا فواد کا کہنا ہے کہ وہ کورونا کی وجہ سے سفر نہ کرسکے تھے لیکن انہیں احساس ہے کہ شائقین نے مجھے مس کیا ہوگا میں بھی لیگ سے دور رہ کر بے چین رہا۔سوشل میڈیا پر ان کا ایسا چرچہ رہا کہ ایک پرستار نے لکھا کہ ایسے ہی مواقع پر میں فواد راناکی کمی محسوس کرتا ہوں، وہ بہت پیارے ہیں۔ پتہ نہیں اب وہ اسٹیڈیم کیوں نہیں آتے۔لیکن گذشتہ دنوں رانا فواد نے تمام قیاس آرائیوں کا خاتمہ کردیا اور بتایا کہ کورونا کی سفری پابندی کی وجہ سے وہ پاکستان نہیں آسکے تھے۔

فواد رانا کی غیر حاضری کے حوالے سے لاہور قلندرز کے سی ای او عاطف رانا نے بتایا کہ فواد رانا اپنی دیگر مصروفیات کے سلسلے میں سفر میں تھے اور توقع ہے کہ وہ نومبر میں ٹیم کے حوصلے بلند کرنے کے لئے موجود ہوں گے۔

زیادہ پرانی بات نہیں، پاکستان میں کرکٹ کے بڑے کہہ چکے تھے کہ ملک میں کرکٹ کا ٹیلنٹ یعنی قدرتی باصلاحیت کھلاڑی نہیں ہیں یا پھر اتنی تعداد میں تو یقیناً نہیں ہیں جتنا عام طور پر کہا جاتا ہے۔ان بڑوں میں سابق کپتان انضمام الحق اور شاہد آفریدی کے علاوہ سابق چیئرمین کرکٹ بورڈ نجم سیٹھی جیسے نام شامل تھے۔

پھر 2016 میں فرنچائز کرکٹ یعنی پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کی آمد ہوئی تو اس میں شامل لاہور قلندرز کی ٹیم نے ٹیلنٹ تلاش کرنے کا آغاز کیا۔چار برس کے بعد اب لاہور قلندرز کا منصوبہ باقاعدہ پلیئر زڈویولپمنٹ پروگرام میں تبدیل ہو چکا ہے اور ایک عارضی اکیڈمی سے وہ ہائی پرفارمنس سینٹر تک کا سفر طے کر چکے ہیں۔

اسی پروگرام کی دریافت دائیں ہاتھ کے تیز رفتار بولر حارث رؤف نے حال ہی میں آسٹریلیا کی ٹی 20 لیگ بِگ بیش میں میلبورن ا سٹارز کی نمائندگی کرتے ہوئے تباہ کن بولنگ کی۔

اس کارکردگی کی بنا پر حارث نے بنگلہ دیش کے خلاف حالیہ ٹی 20 سیریز میں پاکستانی ٹیم میں جگہ بنائی۔جب وہ یہاں تھے تو واپس آسٹریلیا میں ان کے متبادل کے طور پر دلبر حسین کو ٹیم میں شامل کیا گیا جو خود بھی لاہور قلندرز کے اسی پروگرام کے ذریعے سامنے آئے تھے۔

اس سال کے شروع میں اکستان کے دورے پر آنے والے برطانیہ کی مشہور میریلیبون کرکٹ کلب (ایم سی سی) کی ٹیم کے خلاف میچ میں لاہور قلندرز کے لیگ سپنر معاذ خان نے اوپننگ بیٹسمین کی وکٹ حاصل کی۔ وہ بھی لاہور قلندرز کے ڈیولپمنٹ پروگرام کی ہی دریافت ہیں۔ فخر زمان بھی لاہور قلندرز کے راستے قومی کرکٹ ٹیم کا حصہ بن چکے ہیں۔

عاطف رانا لاہور قلندرز کے چیف ایگزیکیٹو آفیسر ہیں۔ وہ ٹیم کے ڈیولپمنٹ پروگرام کے مقاصد اور اہداف کے حوالے سے انتہائی واضح اور جامع منصوبہ بندی رکھتے ہیں۔ عاطف رانا نے بتایا کہ ان کے 'اس پروگرام میں سفارش اور ذاتی پسند یا ناپسند کی کوئی جگہ نہیں اور نہ ہی وہ اس میں کھلاڑیوں سے کوئی فیس وصول کرتے ہیں۔اس پروگرام کے تحت لاہور قلندرز ملک کے مختلف شہروں میں دو روزہ کیمپ لگاتے ہیں جہاں سے ٹرائلز کے ذریعے کھلاڑیوں کا انتخاب کیا جاتا ہے۔

اسی پروگرام نے اس فرنچائز سے شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا ہے۔عاطف رانا حارث رؤف اور دلبر حسین کی مثالیں دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’حارث رؤف کی مثال ہمارے ڈویلپمنٹ پروگرام کی بہترین عکاسی ہے۔وہ نہ تو سسٹم کا حصہ تھا اور نہ ہی اسے پاکستان کرکٹ نے اپنایا تھا۔

دلبر حسین کی بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ دلبر نے تو کبھی کلب کرکٹ بھی نہیں کھیلی تھی۔ان کے مطابق ایسے کھلاڑیوں کا آسٹریلیا کے بِگ بیش میں کھیل جانا ان کے پروگرام کی افادیت اور اہمیت کا ثبوت ہے۔صوبہ خیبر پختونخواہ کے علاقے باجوڑ کے رہائشی معاذ خان نے بھی کبھی بڑے لیول پر کرکٹ نہیں کھیلی تھی۔ انہوں نے یوں ہی ٹہلتے ٹہلتے ایک روز خیبر ایجنسی کے لیے لاہور قلندرز کے ٹرائلز د ئیے، منتخب ہوئے اور ٹورنامنٹ کے ایک میچ میں لیگ ا سپن کراتے ہوئے ہیٹ ٹرک بنائی۔

عاطف رانا کہتے ہیں کہ لیگ کرکٹ میں برانڈ بنائے بغیر آپ دیر تک نہیں چل سکتے اور برانڈ 20 دنوں میں نہیں بن جاتے۔ ساتھ ہی ہم پاکستان کو ایسے باصلاحیت کھلاڑی دے رہے ہیں جو جب بھی قومی ٹیم کے لیے کھیلیں گے تو ان کی پہچان پاکستان سے ہو گی، قلندرز سے نہیں۔

عاطف رانا کے خیال میں برانڈ بلڈنگ کی طرف ان کے تمام تر اہداف تقریباً مکمل ہیں، صرف ایک ٹورنامنٹ جیتنے کی کمی رہ گئی ہے۔ پاکستان سپر لیگ کے اب تک ہونے والے چاروں سیزنز میں ابتدائی مرحلے سے آگے نہیں جا پائی۔عاطف راناکا کہنا تھا کسی بھی کاروباری منصوبہ بندی کو نتائج دینے میں وقت درکار ہوتا ہے۔ہم ایک مشن کو لے کر آگے بڑھ رہے ہیں ہمارا کسی سے مقابلہ نہیں ہے ہمارا کام ہی ہماری پہچان ہے ایک ایسا مشن جو شائد اب ایمپوسیبل نہیں رہا۔