وفاق اور سندھ آمنے سامنے

October 28, 2020

تحریر:ہارون مرزا،راچڈیل
اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کے گوجرانوالہ اور کراچی کے جلسوں کی بازگشت ابھی تھمی نہ تھی کہ مسلم لیگ ن کی مرکزی رہنما مریم نواز کے شوہر سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے داماد کیپٹن (ر)صفدر اعوان کی سندھ پولیس کے ہاتھوں گرفتاری کے بعد وفاق اور صوبائی حکومت آمنے سامنے آ کھڑے ہوئے ہیں، ایک دوسرے پر الزا م تراشی کا سلسلہ تیز ہوتا جا رہا ہے، پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی درخواست پر معاملے کی تحقیقات کا حکم دیا جا چکا ہے، وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے اپنی توپوں کا رخ بلاول بھٹو کی طرف کر دیا ہے ان کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی شبہ ہی نہیں کہ سندھ پولیس کے افسران بلاول ہاؤس کے اشارے پر چھٹی پر گئے اداروں کو نیچا دکھانے کی کوششیں اور سازشیں ناکام بنانا ہوں گی۔یہ خبریں بھی گردش کرتی رہیں کہ ایسا کرنے کے لیے آئی جی سندھ اور کراچی پولیس کے چیف کو مبینہ طور پر ہراساں کیا گیا واقعہ کے بعد سندھ پولیس کی اعلیٰ ترین قیادت نے چھٹیوں کی درخواست دے دی تھی تاہم آرمی چیف کے نوٹس لینے اور بلاول بھٹو زرداری سے ملاقات کے بعد آئی جی سندھ سمیت دیگر نے یہ فیصلہ موخر کردیا، اب معاملات کی تحقیقات شروع کرائی گئی ہیں کہ آیا گرفتاری کس کے حکم پر ہوئی اور اس میں کون کون ملوث ہے، وفاقی ہو یا صوبہ حکومت چاہے کسی بھی جماعت کی ہو اپوزیشن کو بزور طاقت دبانے کا فارمولہ ہر بار آزمایا گیا کبھی اپوزیشن کو بند گلی میں دھکیلا گیا تو کبھی یہی دبائو انہیں سڑکوں پر لے آیا موجودہ پی ڈی ایم کا اتحاد جس میں کئی سیاسی جماعتیں شامل ہیں حکومت کیخلاف برسر پیکار ہے، گوجرانوالہ اور کراچی میں جلسوں کے بعد مستقبل کے لائحہ عمل کیلئے منظم طریقے سے پیش قدمی جاری ہے ۔سیاسی پنڈتوں کا کہنا ہے کہ سیاسی رواداری اور جمہوری کشادہ نظری کا تقاضا یہی ہے کہ پر امن مظاہرین کی گرفتاریوں اور پکڑ دھکڑ سے گریز کیا جائے موجودہ حالات میں حکومت اور اپوزیشن دونوں کو دور اندیشی کا مظاہرہ کرنا ہوگا طاقت کے مظاہرے سیاسی کشمکش کا فطری نتیجہ ہی ہیں، ملک میں سیاسی موسم گرم ضرور ہے لیکن حکومت کا کھلے دل کے ساتھ اپوزیشن کو جلسہ کرنے کے لیے کھلا سیاسی میدان دینا بھی ایک بہترین سیاسی مصلحت ہے، جمہوریت کو فنکشنل، نتیجہ خیز سیاسی نظام بنانے اور ڈلیور کرنے کے لیے لازم ہے کہ ووٹرز کو جمہوری ثمرات سے فیض یاب کیا جائے جس سے تاحال وہ محروم ہیں، مہنگائی ‘ بیروزگاری نے لوگوں کو بے حال کر رکھا ہے،اس میں دو رائے نہیں کہ ملک کو ہمہ جہتی چیلنجز درپیش ہیں، ملکی سیاسی تاریخ میں پہلی بار جلسے نہیں ہو رہے نہ پی ٹی آئی کی سیاست اور حکومت کے لیے ان میں کوئی انوکھی بات ہونی چاہیے، اپوزیشن کے جلسوں میں رکاوٹ انہیں پر تشدد بنا سکتی ہے، عمران خان اپوزیشن کے جلسوں پر مسلسل اپنا موقف دہرارہے ہیں کہ کچھ بھی ہوجائے اپوزیشن سے مفاہمت نہیں ہوگی، مہنگائی جلد ختم، اپوزیشن کی تحریک بے اثر ہوگی، جھگڑا این آر او کا ہے جو نہیں دونگاایسے حالات میں اپوزیشن اور حکومت کے درمیان مفاہمت کا راستہ نکلتا دکھائی نہیں دیتا۔ مولانا فضل الرحمان ماضی میں مختلف سیاسی جماعتوں کے درمیان پل کا کردار ادا کرتے رہے مگر اب وہ خود اپوزیشن کا حصہ ہیں اور حکومت مخالف تحریک میں شامل ہیں، دیکھنا یہ ہے کہ اپنے سیاسی تدبر کو کیسے استعمال کرتے ہیں،جہاں تک جمہوری عمل اور سیاسی روایات و وراثت کا تعلق ہے جلسے جلوس ہر دور حکومت میں ملکی سیاسی روایت سے مربوط رہے ہیں، آئندہ بھی جلسے ہوتے رہیں گے جوحکومت کی دوراندیشی اور مدبرانہ طرز عمل کا امتحان ہوگا۔