مہنگائی: عوام وزیراعظم کے دعوؤں پر عملدرآمد کے منتظر

October 29, 2020

وزیراعظم عمران خان نے ملک میںاشیائے ضروریہ بالخصوص جس کا براہ راست تعلق غریب طبقات کی بنیادی ضروریات سے ہے کی قلت اور مہنگی ہونے کا نوٹس لیتے ہوئے اپنے اس احساس اور تکلیف کا بھی اظہار کیا ہے کہ مہنگائی کے باعث دو سال سے ان کی راتوںکی نیند اڑ گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مجھے بڑی تکلیف ہوئی کیونکہ عام لوگوںکو تکلیف پہنچتی ہے اس کے ساتھ ساتھ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اب ہم ایکشن لیں گے اور دنوں میںمہنگائی نیچے آنی شروع ہوجائیگی۔

قوم ساتھ دے ملک میں گرانی نہیں آنے دوں گا۔ وزیراعظم کے یہ فرمودات دو سال سے مہنگائی کی چکی میں پسے ہوئے عوام کی شاید وقتی طور پر تو ڈھارس بن جائیں اور دعا ہے کہ وہ اپنے اس پرعزم لہجے کی استقامت پر پورے اتریں لیکن بہر حال عوام کے ذہنوں میںوزیراعظم کے اس خوش کن اعلان سے یہ سوال بھی اٹھتے ہیں کہ دو سال سے وزیراعظم بڑے بڑے اعلانات اور اقدامات کر کے خارجی سطح پر بھی داد وستائش حاصل کر رہے ہیں۔ ان کی پذیرائی بھی ہورہی ہے اور انھیں ایک’’ ویژنری شخصیت ‘‘ قرار دیا جارہا ہے۔

ان کے بارے میںان کے وزرا، رفقا اور حامی انھیں دوررس نتائج کے حامل اقدامات کرنے والے راہنما کے طور پر پیش کرتے ہیں لیکن ان کے ملک کا جو بنیادی مسئلہ ہے یعنی پسے ہوئے عوام کی روزی روٹی کے حصول کی مشکلات بقول ان کے وہ دوسال سے اس قدر پریشان ہیںکہ ان کی نیندیںاڑ گئی ہیں اس کا مطلب یہ ہوا کہ محترم وزیراعظم اس صورتحال سے بخوبی آگاہ تھے اور انھیں عوام کی مشکلات سے آگہی ہی نہیںبلکہ مہنگائی کے سبب ان کے مصائب کا بھی خوب علم تھا لیکن حیرت ہے کہ دو سال سے یہ بنیادی نوعیت کا انتہائی سنگین مسئلہ ان کی ترجیحات میں شامل نہیں تھا اب اگر وہ یہ فرماتے ہیں کہ آنے والے چند دنوںمیں صورتحال میں بہتری آجائیگی اور لوگ مہنگائی کے خلاف حکومت کے سخت اقدامات دیکھیں گے تو لوگ یہ جاننے میں ضرور تجسس رکھتے ہونگے کہ حکومتی اقدامات کے یہ چند دن دو سال کی ابتدا میں کیوںنہیں آئے ۔ امرواقعہ ہے کہ آج بھی ایک ایسے حالات میں جب اپوزیشن یکجا ہوکربڑے بڑے جلسے کر رہی ہے حکومت کی اصل پوزیشن مہنگائی ہی ہے۔

یہ مہنگائی ہی ہے جس کی وجہ سے انتخابات کے موقعہ پر لوگ اپنے فیصلے پر پچھتا رہے ہیں۔ خود حکومتی وزیرکابینہ کے اجلاسوں میں وزیراعظم کے سامنے احتجاج کر رہے ہیںکہ انھوںنے اپنے حلقوںمیں جن لوگوںکو ووٹ دینے کیلئے جو وعدے کیے تھے۔ وہ سب ایک خواب نکلے اور اب وہ مہنگائی کی صورتحال کے باعث اپنے حلقے کے لوگوںکا سامنا بھی نہیںکرسکتے۔ ٹی۔ وی ٹاک شوز میں بھی وزرا اور اراکین اسمبلی اس ایشو پر اپنی حکومت اور وزیراعظم کا دفاع نہیں کرپاتے اور اگرچہ یہ حقیقت ابھی دھندلی ہے کہ اپوزیشن کے جلسوں میںپی ٹی آئی کو ووٹ دینے والے لوگ بھی شامل ہوتےہیں لیکن اگر مہنگائی کے عفریت پرقابو نہ پایا گیا تو شاید یہ حقیقت واضح بھی ہوسکتی ہے۔

ویسے بھی متقاضی صورتحال کے پیش نظر اپوزیشن کے جلسوںمیںبھی اب مرکزی قائدین دیگر امور کے علاوہ مہنگائی اور غریب عوام کی حالت زار کو ہی اپنا موضوع بنا رہے ہیں اور ملک کے لاکھوںمتاثرین ان کی اس بات کو اپنے دل کی آواز سمجھ کر توجہ کے ساتھ سن بھی رہے ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ مہنگائی کے باعث خود حکومتی حلقوں میں پیدا ہونے والی اضطرابی حالت کے پیش نظر وزیراعظم اپنی معاشی ٹیم میںایک بار پھر کچھ تبدیلیاں اور غیر روایتی اقدامات کرنے کیلئے غوروفکر کر رہے ہیں۔ بہر حال عوام وزیراعظم کے دعوئوں اور یقین دھانیوں پرعملدرآمد کے بے چینی سے منتظر ہیں۔

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے تین جلسوںنے ملک میں سیاسی سرگرمیوں کا عروج پیدا کردیا ہے۔ گوجرانوالہ (پنجاب) کراچی (سندھ) کوئٹہ (بلوچستان) اور اب چوتھا جلسہ پشاور(کے پی کے) میں ہوگا۔جسکی میزبانی عوامی نیشنل پارٹی کرینگی اور یقینی طور پر اس جلسے سے پارٹی کے سربراہ اسفند یار ولی خان بھی خطاب کرینگے اس طرحچاروں صوبوں میں اپنے جلسوںسے پی۔ڈی۔ایم نے ایسا ماحول پیدا کردیا ہے جس پرـــ’’انتخابی سرگرمیوں ‘‘ کا گماںہوتا ہے اور پھر پانچویں ’’مجوزہ صوبے‘‘ گلگت بلتستان میںپاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری خود موجود ہیںجہاں 15 نومبر کو انتخابات ہورہے ہیں تاہم جس طرحسابق وزیراعظم میاںنواز شریف نے بذریعہ ویڈیو لنک کوئٹہ کے جلسے میں عوام سے خطاب کیا ، بلاول بھٹو جو گلگت بلتستان میں ہونے والے انتخابات کو بہت سنجیدگی سے لے رہے ہیں انھوںنے بھی بصری رابطے کے ذریعے بلوچستان کے عوام سے خطاب کیا۔

یہاںیہ بات بھی قابلِذکر ہے کہ کوئٹہ میں اصل شو مولانا فضل الرحمن کا تھا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ مریم نواز کی اہمیت اپنی جگہ لیکن جس جلسے سے میاںنواز شریف خطاب کرتے ہیں پورے ملک میں عوام اور ـ’’خواص‘‘ کی دلچسپی ان کے خطاب میںہی ہوتی ہے اور برسبیل تذکرہ ایک دلچسپ حوالہ۔ سابق وزیراعظم میاںنواز شریف کا کوئٹہ کے جلسہ عام میںویڈیو لنک پرخطاب دوسرا موقعہ تھا جب حکومت مخالف اجتماع میںعدم شرکت کے باوجود انھوںنے بلوچستان کے عوام سے خطاب کیا ۔

اس سے قبل جب جنرل(ر)پرویز مشرف نے انھیں اقتدار سے محروم کر کے جلاوطنی پر مجبور کردیا تھا اور 2007 میں ان کے خلاف اپوزیشن کی مہم چلی تھی اس وقت بھی آل پارٹیز ڈیمو کریٹک موومنٹ (اے۔پی۔ڈی۔ایم) سے میاںنواز شریف نے کوئٹہ کے صادق شہید گرائونڈ میںلندن سے ہی ٹیلیفونک خطاب کیا تھا اور گذشتہ اتوار کو 13 سال بعد اس مرتبہ بھی نامساعد سیاسی حالات اور علالت کے باعث انھوںنے لندن سے خطاب کیا۔

بعضحلقوںکا دعویٰ اور کچھ کا یہ خیال تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی موجودہ حکومت کے بعض معاملات میں ریلیف لینے کےلیے بعضعلامتی اشارے اور پیغامات حکومت کو دے رہی ہے۔ جس میںبلاول بھٹو کی کوئٹہ جلسے میںغیرحاضری اور اس موقعہ پر گلگت بلتستان میں انتخابی مہم کو جواز بنا کروہاں ان کا طویل قیام بھی اس سلسلے کی کڑی ہے لیکن کوئٹہ کے جلسہ عام میں ویڈیو لنک سے خطاب کرنے سے اس تاثر کی تردید ہوئی تاہم 15 نومبر کو گلگت بلتستان میں ہونے والے انتخابات جہاںیقیناً گھمسان کا رن پڑنے کی توقع ہے وہاںانتخابات میں حصہ لینے والی اہم جماعتوںمیں پاکستان پیپلز پارٹی سرفہرست ہے۔

جبکہ سیاسی اور انتخابی روایات کا پس منظریہ ہے کہ آزاد کشمیر کی طرحگلگت بلتستان میں بھی وہی جماعت حکومت بناتی ہے جسکی وفاق میں حکومت ہو۔ جس کیلئے پاکستان تحریک انصاف بھی ماضی کی ان انتخابی روایات کو برقرار رکھنے کیلئے پوری طرحسرگرم عمل ہے لیکن یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اپوزیشن کے ہاتھوںمشکلات کا شکار وفاقی حکومت گلگت بلتستان کے انتخابات میںپاکستان پیپلز پارٹی کو ’’بڑا ریلیف‘‘ دے سکتی ہے۔