پاکستان اور بنگلہ دیش: ٹیکسٹائل ایکسپورٹس کاتقابل

November 02, 2020

پاکستان کے ٹیکسٹائل سیکٹر پر میں بے شمار کالم لکھ چکا ہوں۔ ٹیکسٹائل سے میرا گہرا تعلق ہے اور یہ ہماری معیشت کا ایک اہم سیکٹر ہے جس کا ملکی مجموعی 23ارب ڈالر کی ایکسپورٹ میں تقریباً 55فیصد (14ارب ڈالر) حصہ ہے۔ ٹیکسٹائل کا شعبہ مینوفیکچرنگ سیکٹر میں 38فیصد ملازمتیں فراہم کرتا ہے اور اس کا ہماری مجموعی جی ڈی پی میں 8سے 9فیصد حصہ ہے۔ پاکستان دنیا کا چوتھا بڑا کاٹن پیدا کرنے والا ملک ہے جس کی سالانہ پیداوار 13سے 14ملین بیلز تک پہنچ گئی تھی لیکن اس سال فصل خراب ہونے کی وجہ سے کاٹن کی پیداوار بمشکل 8ملین بیلز رہی۔ پاکستان کا شمار ٹیکسٹائل مصنوعات ایکسپورٹ کرنے والے 10سرفہرست ممالک میں ہوتا ہے لیکن عالمی ٹیکسٹائل مارکیٹ میں پاکستان کا شیئر 2.2 فیصد سے کم ہوکر 1.7فیصد رہ گیا جو ایک لمحہ فکریہ ہے۔

میں نے ٹی وی انٹرویوز، وزیراعظم، مشیر خزانہ اور مشیر تجارت سے متعدد ملاقاتوں میں اُنہیں بتایا کہ ایکسپورٹ میں کمی ہماری پیداواری لاگت میں اضافے کی وجہ سے ہے جس کی وجہ سے ہم عالمی مارکیٹ میں غیر مسابقتی بن گئے ہیں اور مسابقتی حریف کم پیداواری لاگت ہونے کی وجہ سے ہمارا مارکیٹ شیئر چھین رہے ہیں۔ بنگلہ دیش اس کی اہم مثال ہے جہاں ٹیکسٹائل کا خام مال مثلاً کاٹن، یارن اور فیبرک پیدا نہیں ہوتا بلکہ بنگلہ دیش اسے پاکستان اور دیگر ممالک سے امپورٹ کرتا ہے لیکن ویلیو ایڈیشن کرکے آج اس کی ایکسپورٹ ہم سے زیادہ ہے۔ بنگلہ دیش میں بجلی، گیس کی قیمتیں اور مزدوروں کی اجرتیں پاکستان کے مقابلے میں نہایت کم ہیں۔ اسی طرح ویت نام، کمبوڈیا میں پیداواری لاگت کم ہونے کی وجہ سے ٹیکسٹائل مصنوعات کے بڑے آرڈرز ان ممالک کو دیئے جاتے ہیں۔ بنگلہ دیش طویل عرصے تک کم ترقی یافتہ ملکوں کی فہرست میں شامل تھا جس کی وجہ سے پوری دنیا میں اِسے ڈیوٹی فری ایکسپورٹ کی مراعات حاصل تھیں اور بنگلہ دیش، یورپی یونین، کینیڈا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ جیسی بڑی مارکیٹوں میں ٹیکسٹائل مصنوعات ڈیوٹی فری ایکسپورٹ کررہا تھا جبکہ پاکستان پر ان ممالک میں ٹیکسٹائل ایکسپورٹ پر اضافی ڈیوٹیاں عائد تھیں جس کے باعث ہماری مصنوعات بیرونی خریداروں کو مہنگی پڑتی تھیں۔ بنگلہ دیش میں امن و امان کی بہتر صورتحال اور سیاسی استحکام کی وجہ سے دنیا کے بڑے اسٹور وال مارٹ، کے مارٹ، جیسی پینی، ایچ اینڈ ایم، مارک اسپنسر اور دیگر ٹیکسٹائل مصنوعات کے خریداروں نے بنگلہ دیش میں اپنے خریداری دفاتر کھول رکھے ہیں جہاں وہ اپنے آرڈرز کی مانیٹرنگ کرتے ہیں۔ ایک وقت تھا جب یہ تمام خریداری دفاتر کراچی اور پاکستان کے دیگر بڑے شہروں میں قائم تھے لیکن امن و امان کی خراب صورتحال کے باعث یہ آفسز اب بنگلہ دیش اور خطے کے دوسرے ممالک میں منتقل ہوگئے ہیں جو بنگلہ دیش کے ٹیکسٹائل سیکٹر کی ترقی کا سبب بنا۔

بنگلہ دیش کم ترقی یافتہ ملک سے ترقی پذیر ملک کی حیثیت حاصل کرچکا ہے جس کی وجہ سے بنگلہ دیش کم ترقی یافتہ ملک کی ڈیوٹی فری مراعات سے محروم ہوچکا ہے لیکن بنگلہ دیش کو اپنی ترقی پر فخر ہے۔ گزشتہ دنوں بنگلہ دیش کے ہائی کمشنر اور ڈپٹی ہائی کمشنر نے کراچی میں ایک سیمینار منعقد کیا جس کا عنوان ’’بنگلہ دیش ایکسپورٹ اور سرمایہ کاری کیلئے بہتر ملک‘‘ تھا۔ سیمینار میں مجھ سمیت کراچی کے ممتاز سرمایہ کاروں کو پریزنٹیشن دی گئی جس میں بتایا گیا کہ بنگلہ دیش 2041تک ترقی پذیر سے ترقی یافتہ ملک کی حیثیت حاصل کرلے گا۔ بنگلہ دیش کی موجودہ ایکسپورٹ 40ارب ڈالر سالانہ ہے جس میں زیادہ تر ٹیکسٹائل اور گارمنٹس کی ایکسپورٹس شامل ہے جبکہ پاکستان کی ایکسپورٹ صرف 23ارب ڈالر ہے۔ اس طرح چین کے بعد بنگلہ دیش دنیا کا دوسرا بڑا گارمنٹس ایکسپورٹر بن گیا ہے۔ بنگلہ دیش کے ڈپٹی ہائی کمشنر نے بتایا کہ بنگلہ دیش کی مجموعی جی ڈی پی 275ارب ڈالر ہے جبکہ 2021ءتک بنگلہ دیش 50ارب ڈالر سالانہ ایکسپورٹ کا ہدف حاصل کرلے گا۔ قارئین! پاکستان کی گزشتہ سال جی ڈی پی 278ارب ڈالر تھی اور اس سال 270ارب ڈالر ہے۔ ڈپٹی ہائی کمشنر نے بتایا کہ بنگلہ دیش میں 9ایکسپورٹ پروسیسنگ زونز قائم کئے گئے ہیں جن سے مجموعی طور پر 7.2ارب ڈالر کی ایکسپورٹس کی جارہی ہے۔ اس کے علاوہ بنگلہ دیش میں بیرونی سرمایہ کاروں کیلئے 100سے زائد اسپیشل اکنامک زونز قائم کئے گئے ہیں جہاں ٹیکسٹائل کے علاوہ ٹائلز، میڈیسن، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور شپ بلڈنگ کے شعبوں میں سرمایہ کاری کی جاسکتی ہے۔ انہوں نے بنگلہ دیش کی یوٹیلیٹی قیمتوں کو خطے میں سب سے کم قرار دیتے ہوئے پاکستان کے کچھ ٹیکسٹائل گروپس کی بنگلہ دیش میں سرمایہ کاری کا حوالہ بھی دیا جہاں وہ 6ہزار سے زائد افراد کو ملازمتیں فراہم کررہے ہیں اور اُن کی تمام ٹیکسٹائل مصنوعات بیرون ملک ایکسپورٹ کی جارہی ہیں۔

گزشتہ دنوں وزیراعظم کے مشیر برائے خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ اور گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقرسے ملاقات میں، میں نے اُنہیں بتایا کہ پاکستان کی گروتھ صرف ایکسپورٹ کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ انہوں نے بتایا کہ حکومت نے ایکسپورٹ سیکٹرز کو بجلی ،گیس رعایتی نرخوں اور فنانسنگ کی مالی لاگت کم کرنے کیلئے ایکسپورٹ ری فنانسنگ اور طویل المدت فنانسنگ کی اسکیموں میں دگنا اضافہ کیا ہے اور ایکسپورٹرز کے سیلز ٹیکس ریفنڈ بھی جلد ادا کئے جارہے ہیں۔ بنگلہ دیش کی ٹیکسٹائل سیکٹر کی حیرت انگیز ترقی ہمارے پالیسی میکرز کیلئے ایک پیغام ہے کہ ہم 70سال سے زیادہ تجربے اور خام مال کی دستیابی کے باوجود بنگلہ دیش سے ٹیکسٹائل ایکسپورٹ میں پیچھے کیوں رہ گئےہیں؟