محفل میلاد اور عالمی میلاد کانفرنس

November 04, 2020

عید میلاد النبی ؐکے موقع پر خواتین ونگ کی خواتین کیک کاٹ رہی ہیں

اس وقت فرانس پوری دنیا کی نظروں میں ہے۔ ایک طرف گستاخانہ خاکو ں اور اسلام سے نفرت کے حالیہ واقعات کے بعد نفرت کی آگ مزید پھیل رہی ہےتو دوسری طرف عاشقان رسول مقبولؐ نے جشن عید میلاد بھر پور انداز میں منایا ۔ ادارہ منہاج القرآن انٹرنیشنل پیرس فرانس کی معروف سیاسی سماجی شخصیت سرگرم رہنماماہر محمد ارشداور ان کی اہلیہ جو کہ ادارہ منہاج القران انٹرنیشنل فرانس خواتین شعبہ کی صدر بھی ہیں اور ادارہ منہاج القران انٹرنیشنل فرانس کے صدر راجہ بابر حسین نےعیدمیلاد النبیؐ کے پروگرام اس طرح ترتیب دیئے کہ ہر طرف محفلوں کا بھرپور انعقاد ہوا ۔

علامہ حسن میر قادری اور حافظ اقبال اعظم کے موثر خطابات نے لوگوں کے ایمانوں کو تروتازہ کر دیا۔ علاوہ ازیں لوگوںنے ڈاکٹر طاہرالقادری کے خطابات اور مرکزی محفلوں میں آن لائن شرکت بھی کی۔ ایک تقریب سے خطاب میں ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا کہ دنیا کے تمام سربراہان مملکت بشمول یو این او اور یورپی یونین کو توہین آمیز خاکوں پر خط لکھوں گا۔ انہوں نے ہزاروں شرکاء کے ہمراہ ایک منٹ کھڑے ہو کر اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا

خواتین، نوجوانوں بچوں بوڑھوں ہر عمر کےافراد نے آقائے دوجہاں سے اپنے عشق و محبت کا والہانہ اظہار کیا۔ عالمی میلاد کانفرنس سے علامہ سید ریاض حسین شاہ،علامہ امین شہیدی، سید ضیاءاللہ شاہ بخاری ،خرم نواز گنڈا پور نے خطاب کیا۔ اس موقع پر ممتاز نعت خواں پروفیسر رؤف روفی، اختر حسین قریشی صاحبزادہ تسلیم صابری افضل نوشاہی، شہزاد برادران نے نعت رسول مقبول پیش کی۔

علامہ طاہر القادری کی کتابوں کی تقسیم

عالمی میلاد کانفرنس میں ڈاکٹر حسن محی الدین قادری، ڈاکٹر حسین محی الدین قادری،سید احمد دیوان مسعود نے شرکت کی۔ فرانس میں مقیم مسلمانوں کو پرنور محفلوں میں شرکت کا موقع ملا، حالانکہ پیرس کی ایک مسجد کے نمازیوں اور امام مسجد کو نامعلوم افراد کی طرف سے دھمکی آمیز پیغام بھی موصول ہوئے،جن میں کہا گیا کہ مسلمانوں کے لیے فرانس میں کوئی جگہ نہیں،مسلمانوں کو فرانس سے نکال باہر کیا جائے گا۔ شمالی فرانس کے شہر فیرنون میں ڈاک کے ذریعے مسجد کی انتظامیہ اور کچھ نمازیوں کو نسل پرستانہ اور دھمکی آمیز پیغامات موصول ہوئے ، جن میں مسلمانوں سے نفرت، عربوں سے حقارت اور ترکوں کے خلاف نا مناسب الفاظ استعمال کیے گئے ۔ایک پیغام میں کہا گیا کہ یورپ بالخصوص فرانس میں مسلمانوں کے خلاف جنگ اب شروع ہوئی ہے۔

ہم اپنے ایک استاد کے قتل کا حساب چکائیں گے۔ مگر فرانسیسی کمیونٹی ان مٹھی بھر عناصر سے دور ہے، ان کا تعلق کسی بھی مذہب رنگ و نسل سے ہو، وہ ان کے ساتھ پرامن رہنے کے حامی ہیں۔ ان کا نعرہ ہے کہ، ہم سب کو مل کر زندگی بسر کرنی ہے۔ فرانس کے صدر ایمانول میکرون نے بڑھتی ہوئی کشیدگی دیکھتے ہوئے ایک عرب ٹی وی چینل کو انٹرویو دیا جس میں اپنے ساتھ منسوب باتوں کی وضاحت گی۔ فرانسیسی صدرکا کہنا ہے کہ گستاخانہ خاکوں کے حوالے سے مسلمانوں کے جذبات کو سمجھتا ہوں ۔یہ خاکے حکومت پروجیکٹ نہیں ہے اورنہ ہی ان کو سرکاری حمایت حاصل ہے۔ اشتعال کی وجہ میرے حوالے سے منسوب جھوٹی باتیں ہیں۔ گستاخانہ خاکوں سے متعلق میرے بیان کو توڑ مروڑ کر پھیلایا گیا ۔

علامہ حسن میر قادری خطاب کرتے ہوئے

ایمانول میکرون نے مزیدکہاکہ مقامی طور لوگ میرے بیان کو سمجھتے تھے اس لیے یہاں کوئی ردعمل نہیں ہوا۔میرے خیال میں یہ تاثر دیا گیا کہ میں گستاخانہ خاکوں کا حامی ہوں۔ یہ خاکے نجی صحافتی اداروں نے شائع کئے جو حکومتی اجارہ داری سے آزاد ہیں۔ کچھ لوگ اسلامی تعلیمات کو غلط طریقے سے پیش کرتے ہیں ۔اس کی غلط تشریح کر کے قتل و غارت ،تشدد اور اشتعال انگیزی پھیلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اسلام کے نام پر جو چیز پھیلانے کی کوشش کی جارہی ہے وہ خود مسلمانوں کے مفاد کے خلاف اور ان کےلئے وبال جان بن چکی ہے۔ فرانس میں ایک لاکھ 25 ہزار سے ڈیڑھ لاکھ تک پاکستانی مقیم ہیں، زیادہ تر پاکستانی تعمیر سے وابستہ ہیں۔ اس کےعلاوہ ریسٹورنٹ، کھانے پینے کی اشیاء کی فروخت کے کاروبار سے بھی منسلک ہیں۔

یہاں پر مقیم پاکستانیوں کو اپنے شناختی کارڈمیں ضروری ردوبدل ، کارڈ کی میعاد ختم ہونے پر تجدید کرانے میں مشکلات کا سامنا رہتا ہے کیونکہ آن لائن طریقہ کار انتہائی پیچیدہ ہے ۔قبل ازیں یہ سہولت سفارت خانہ میں حاصل ہوتی تھی اوورسیز من جملہ پاکستانیوں کو قومی ایئر لائن" پی آئی اے" کی سروس کی بندش سے سخت پریشانی کا سامنا ہے۔ اگر کسی کا انتقال ہو جائے تو قومی ائیر لائن "پی آئی اے " اس کا جسدخاکی بلا معاوضہ لے جاتی تھی۔ اب وہ سہولت ختم ہو گئی ہے جس وجہ سے اوورسیز سطح پرمقیم پاکستانی سخت پریشانی اور شدید مشکلات میں مبتلا ہیں۔

ہر حکومت اوورسیز پاکستانیوں کو ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی تو قرار دیتی ہے، مگر ماسوائے اعلانات اور بلندبانگ دعووںکے عملی طور ان کے حل کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔ اس طرح وطن عزیز میں ان کی جائیدادوں پر قبضے ہو رہے ہیں۔ ان کی ملک سے عدم موجودگی کے دوران ان کو رہائشی گھروں سے بھی ہاتھ دھونے پڑ رہے ہیں۔ یہ صورت حال ختم ہونی چاہیے۔