مغرب میں حلال اور حرام گوشت کی بحث

November 05, 2020

فرانس میں تبلیغِ اسلام، حجاب اور مسجد کے میناروں کے بعد اب حلال گوشت اور حلال کھانوں کے خلاف بھی مہم شروع ہو گئی ہے۔ گزشتہ دنوں ایک فرانسیسی ٹیلی ویژن چینل نے ایک دستاویزی فلم کے ذریعے یہ انکشاف کیا کہ پیرس میں لگ بھگ 95مذبح خانے بڑھتی ہوئی مانگ کے پیش نظر حلال گوشت بیچتے ہیں۔ اِس دستاویزی فلم کے نشر ہونے کے بعد بعض سیاسی جماعتیں، مذہبی ادارے، سوشل گروپ اور این جی اوز اِس رجحان پر مشتعل نظر آئیں۔ چند سیاسی جماعتیں اِس ’’حلال مسئلہ‘‘ کو مئی میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے لئے اپنے سیاسی منشور کا حصہ بنا رہی ہیں۔ پیرس کے میئر نے اِن حلال کھانوں اور گوشت کو متعصبانہ قرار دے دیا ہے اور اِس کی وجہ یہ بتائی ہے کہ فرانس کی ایک فاسٹ فوڈ کمپنی نے یہ اعلان کیا کہ اس کے ریستورانوں میں صرف حلال گوشت فراہم کیا جائے گا کہ اُن کے گاہکوں کی بڑی تعداد مسلمان ہے۔ اِس پر فرانس کے سیاسی رہنمائوں نے فوڈ کمپنی کے اِس اعلان کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اِسے ’’مذہبی تعصب‘‘ قرار دیا چونکہ یہ فاسٹ فوڈ کمپنی حلال گوشت فراہم کرنے کے لئے گاہکوں سے اضافی رقم بھی وصول کرے گی جس پر فرانسیسی سیاسی رہنمائوں کا کہنا ہے کہ یہ دہری ناانصافی ہے کیونکہ یہ ضروری نہیں کہ ہر شخص (مسلم و غیرمسلم) حلال غذا ہی کھانا چاہتا ہو۔ تاہم کمپنی نے اِس دلیل کو ’’احمقانہ‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اضافی رقم تو دینا ہی پڑے گی تاہم اگر کسی کو حلال گوشت پسند نہیں تو وہ کہیں اور جا سکتا ہے لیکن یہ بات اتنی سہل نہیں کہ مغربی معاشرہ اسے ہضم کر سکے۔ پیرس ہی سے تعلق رکھنے والےمویشیوں کی خرید و فروخت کرنے والی ایک کمپنی کے سربراہ ہال پی جین نے اپنے ایک انٹرویو میں نامہ نگار کو بتایا ہے کہ ان کے گروپ اور کمپنی کے ایک سروے کے مطابق، پیرس اور اس کے مضافاتی علاقوں میں 100 فیصد مذبح خانے اسلامی طریقے کے مطابق جانوروں کو ذبح کرتےہیں۔ اس اقدام کے نتیجے میں سارے فرانس میں موجود تمام افراد کو دانستہ یا غیر دانستہ طور پر حلال گوشت کھلایا جا رہا ہے۔ ادھر برطانیہ میں بھی ہزاروں لوگوں نے احتجاج کیا ہے کہ برطانیہ کے سینکڑوں ریستورانوں میں لوگوں کو بتائے بغیر حلال گوشت کھلایا جا رہا ہے۔ برطانوی اخبار دی سن کی ایک رپورٹ کے مطابق ریستورانوں کے علاوہ اسکولوں، کالجوں، اسپتالوں، تعلیمی اداروں اور کھیلوں کی جگہوں پر ہزاروں افراد کو ’’خبردار‘‘ کیے بغیر بڑی مقدار میں حلال گوشت کھلایا جا رہا ہے ۔ اخبار کے مطابق ایسے اقدام پر کئی مقامات پر گاہکوں نے شدید احتجاج بھی کیا ہے۔ لندن میں حلال فوڈ اتھارٹی کے صدر پاکستانی نژاد برطانوی مسعود خواجہ نے کہا ہے کہ لوگوں کو بتائے بغیر حلال گوشت کھلانا غیر اخلاقی حرکت ہے۔ مسعود خواجہ نے کہا ہے کہ جس طرح مسلمانوں کے پاس حلال گوشت کھانے کی چوائس موجود ہے اسی طرح غیر حلال کھانے والوں کے لئے بھی چوائس ہونی چاہئے۔

دوسری جانب برطانیہ میںانتہا پسند جماعت بی این پی کے مائیکل کول مین نے شہر میں حلال گوشت کے خلاف مہم چلا رکھی ہے۔ اسی عنوان کے تحت اس نے سیکرٹری آف اسٹیٹ کو ایک طویل خط بھی ارسال کیا ہے جس میں اس نے جانور کو ذبح کرنے کے اسلامی طریقہ کار پر شدید تنقید کی ہے ۔ مائیکل نے کونسل کے اجلاس کے دوران کہا ہے کہ ’’حلال رولز‘‘ کے اندر جانوروں کو ذبح کرنے سے قبل بجلی کے جھٹکے کے ذریعے بے ہوش نہیں کیا جاتا۔ مائیکل نےمزید کہا یہ بات کسی مذہب کے بارے میں نہیں بلکہ اس کا تعلق جانوروں کو غلط طریقے سے مارنےکے بارے میں ہے۔ لیبر کونسلر جوائے گارنر نے مائیکل کول مین کی مخالفت کرتے ہوئے اسے انتخابی اور سیاسی اسٹنٹ قرار دیا۔ اس نے کہا کہ یہ تاثر درست نہیں۔ جوائے گارنر نے اپنےبیان میں کہا کہ جانوروں کو ہلاک کرنے میں بہت معمولی فرق ہے۔ حلال جانوروں کی اکثریت کو پہلے بے ہوش کیاجاتا ہے، فرق صرف یہ ہے کہ ان پر مذہبی کلمات ادا کیے جاتے ہیں۔

یہاں میں ایک فرانسیسی سیاستدان کا حوالہ دینا ضروری سمجھتا ہوں جس نے کہا کہ ’’کوئیک فاسٹ فوڈ کمپنی‘‘، جس کی تین سو پچاس شاخیں فرانس میں فوڈ کا بزنس کر رہی ہیں،نے دراصل اضافی رقم کا مطالبہ کر کے اپنے گاہکوں پر ’’اسلامی ٹیکس‘‘ لگایا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ غیر مسلم یہ ٹیکس کیوں ادا کریں؟ اسی قسم کے واقعات کے باعث ان دنوں فرانس میں مسلمانوں اور غیر مسلم گروہوں میں کشیدگی بھی دیکھنےکو مل رہی ہے۔ میں نےکہیں پڑھا ہے کہ انسان اپنے ارادے کوعملی جامہ پہنانے میں آزاد ہے مگر ارادہ کرنے میں آزاد نہیں… اور کیا آپ بھی وہی سوچ رہے ہیں جو میں سوچ رہا ہوں…؟