گلگت بلتستان: جمہوری بقاکا راستہ

November 12, 2020

میرے ہاتھ ستر سال کی غلطیوں کے ازالے کا ایک ایسا آسان نسخہ لگا ہے کہ اگر صدق دل سے ہم سب یہ طے کرلیں کہ پاکستان کی نظریاتی، جغرافیائی، جمہوری، سیاسی بنیادیں مستقل طور پر سیدھی اور مضبوط کرنی ہیں تو پھر یہ منزل 15نومبر کو گلگت بلتستان میں ہونے والے عام انتخابات میں آزادانہ حقِ رائے دہی سے بلاقیمت بآسانی حاصل کی جا سکتی ہے، صرف پرہیز لازم ہے کہ یہ منزل کھوٹی نہ ہو جائے۔ کشمیر پاکستان کی نظریاتی و جغرافیائی شہ رگ ہے تو سی پیک ہماری معاشی ترقی کی شاہراہِ ریشم۔ یہ شاہراہ یقیناً قراقرم کے پہاڑوں سے گزر کر ہی گوادر سے پوری دنیا پر ترقی و خوشحالی کے راستے کھولنے کا واحد ذریعہ ہے۔ اِن راستوں کو روشن کرنے میں گلگت بلتستان کے باشعور، غیور عوام اور آئندہ منتخب حکمرانوں کا کردار 15نومبر کو ہونے والے عام انتخابات کے نتائج کی صورت میں ہی طے ہوگا۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ گلگت بلتستان کے انتخابات تمام بڑی سیاسی جماعتوں کی قیادت کے لئے ایک ٹیسٹ کیس بن چکے ہیں۔ فیصلے کی گھڑی آن پہنچی ہے۔ اب یہ گلگت بلتستان کے عوام نے طے کرنا ہے کہ وہ نئے پاکستان کی بنیادیں مضبوط کریں گے یا پھر پرانا پاکستان ہی اُنہیں پیارا ہے؟ گلگت بلتستان کی انتخابی مہم کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کی انتھک محنت کیا رنگ لائے گی اور تحریک انصاف کے وزراء کے عوام سے کئے گئے وعدے اُنہیں کہاں تک کامیابی دلائیں گے؟ یہ تو بیلٹ بکس سے نکلنے والے ووٹوں سے ہی فیصلہ ہوگا لیکن ایک بات طے شدہ ہے کہ مریم نواز نے (ن) لیگ کی انتخابی مہم انتہائی تاخیر سے شروع کی اور وہ اپنی پارٹی کے امیدواروں کے انتخاب میں بھی بُری طرح ناکام ہوئیں اور اُن کے ساتھ سیاسی المیہ یہ ہوا کہ بہت سارے لوٹے جو (ن) لیگ نے (ق) لیگ سے حاصل کئے تھے، پی ٹی آئی میں شامل ہو گئے۔ (ن) لیگ کی سابقہ حکومت میں شامل تقریباً دس کے قریب الیکٹ ایبل (چنتخب) عرفِ عام میں لوٹے تحریک انصاف میں شامل ہو کر یہ آس لگائے بیٹھے ہیں کہ آئندہ بھی وہی برسراقتدار رہیں گے۔ اب یہ عوام نے ہی فیصلہ کرنا ہے کہ اُنہیں چنتخب شدہ حکومت چاہئے یا اپنے ووٹ کی طاقت سے بننے والی حکومت؟ آخری اطلاعات تک لوٹوں کو مانجھنے کا سلسلہ جاری ہے، ماضی کے تجربات کی روشنی میں دیکھیں تو بظاہر گلگت بلتستان ہو یا آزاد کشمیر کے انتخابات، بڑی سیاسی جماعتوں اور پورے پاکستان کے عوام کو اُن کے نتائج میں کوئی خاص دلچسپی نظر نہیں آتی اور عام تاثر یہی پایا جاتا ہے کہ اِن دو خطوں میں ہونے والے انتخابات کے نتائج اسلام آبادسے کنٹرول کئے جاتے ہیں اور وہی جماعت برسراقتدار آتی ہے جس کا اسلام آباد میں اقتدار مضبوط ہو لیکن اِس بار پاکستان کی آئندہ سیاست گلگت بلتستان کے انتخابی نتائج سے جڑی ہے۔ بلاول بھٹو کسی بھی سیاسی جماعت کے پہلے قائد تھے جنہوں نے اِن انتخابات کو انتہائی سنجیدگی سے لیا اور پی ڈی ایم کی تحریک اور جلسوں کو چھوڑ کر انتخابی مہم میں مصروف ہو گئے اور اعلان کیا کہ وہ نتائج حاصل کئے بغیر یہاں سے نہیں جائیں گے جس سے یہ تاثر بڑا واضح ہے کہ وہ اِن نتائج کی بنیاد پر ہی پاکستان کی آئندہ سیاست، پی ڈی ایم کی حکومت مخالف تحریک میں اپنی جماعت کے حتمی کردار کا تعین کریں گے۔ غیرجانبدار حلقوں کی یہ حتمی رائے ہے کہ اگر کوئی انہونی نہ ہوئی تو تحریک انصاف کو حکومت بنانے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کسی حد تک یہ رائے بھی قائم کی جا سکتی ہے کہ فی الحال موجودہ سیاسی و معاشی بحران سے نکلنے کا یہ واحد راستہ تمام جمہوری قوتوں کو کسی حد تک فراہم کردیا گیا ہے اور وہ یہ چاہتے ہیں کہ گلگت بلتستان کے عوام آزادانہ حقِ رائے دہی سے اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں۔ ایسی صورت میں مقابلہ تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کے درمیان ہے اور (ن) لیگ تیسرے نمبر پر ہے جبکہ اسلامی تحریک اپنا بھرپور ووٹ بینک رکھتی ہے۔ گزشتہ انتخابات میں (ن) لیگ پندرہ عام نشستوں پر کامیابی کے بعد اکثریتی پارٹی کے طور پر حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی تھی لیکن اب حالات یکسر مختلف ہیں کہ اس جماعت میں شامل دس چنتخب امیدوار اب پینترا بدل کر پی ٹی آئی میں شامل ہو چکے ہیں۔ ایسے حالات میں (ن) لیگ کے پاس دو تین نشستوں پر کامیابی کے امکانات تو رکھے جا سکتے ہیں، کسی واضح کامیابی کے آثار نہیں۔ قوی امکان تو یہی ہے کہ گلگت بلتستان میں پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی میں گھمسان کا مقابلہ ہوگا اور آئندہ حکومت بنانے کے لئے دونوں جماعتوں کو کسی نہ کسی سہارے کی ضرورت پڑے گی جسے آپ مخلوط حکومت کہتے ہیں، ایسے میں چند آزاد امیدواروں کی کامیابی اور حکومت بنانے کے لئے جوڑ توڑ کے دوران شدید سیاسی تناؤ پیدا ہونے کے خدشات بھی موجود ہیں۔ ایسی صورت میں یہ سیاسی قوتوں پر منحصر ہوگا کہ وہ عوام کو انتشار سے کس طرح بچاتے ہیں؟ گلگت بلتستان کے انتخابی نتائج پاکستان میں جمہوریت اور پی ڈی ایم کی حکومت مخالف تحریک کا مستقبل طے کرنے میں بنیادی کردار ادا کریں گے۔ عوام کے پاس جمہوریت کی بقا کا یہی راستہ ہے کہ وہ آزادانہ حقِ رائے دہی استعمال کرکے ایک روشن مستقبل کی بنیاد رکھیں ورنہ یہ موقع پھر ہاتھ نہیں آئے گا۔