ہندوستان کا مکروہ چہرہ اور اقبالؒ کے شاہین

November 17, 2020

پاکستان نے مقدمہ دنیا کے سامنے رکھ دیا ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ مہذب دنیا کیا کرتی ہے؟ دنیا کی انصاف پسندی کیا گل کھلاتی ہے؟ کیونکہ پاکستان نے پورے مقدمے کے سارے شواہد پیش کر دیے ہیں۔ ہندوستان نے ہمیشہ اپنے ہمسایوں کے خلاف سازشیں کیں، خاص طور پر پاکستان کے خلاف تو اُس نے ہمیشہ گھنائونا کھیل کھیلنے کی کوشش کی۔

چند روز قبل افواجِ پاکستان کے ترجمان اور وزیر خارجہ نے کچھ ایسے ناقابلِ تردید ثبوت پیش کئے جن سے ہندوستان کا مکروہ چہرہ بےنقاب ہو گیا، خیر یہ مکروہ چہرہ تو بہت پہلے بےنقاب ہو گیا تھا پھر ابھی چند برس پہلے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اقرار کیا تھا کہ اُنہوں نے بنگلہ دیش بنانے میں کردار ادا کیا، وہ مکتی باہنی میں متحرک تھے۔

اُس وقت اگر پاکستانی حکومت یہ مقدمہ اقوامِ عالم کے سامنے لے جاتی تو دنیا مودی اور ہندوستان کو دہشت گرد قرار دے دیتی مگر بدقسمتی سے اُس وقت پاکستان پر نواز شریف کی حکومت تھی اور نواز شریف تو مودی سے ساڑھیوں اور پگڑیوں کے تبادلے کر رہے تھے، اپنی شادیوں پر بلا رہے تھے، اِس سے پیشتر وہ مودی کی حلف برداری کی تقریب میں شریک بھی ہو چکے تھے، اُنہوں نے اپنے ملک کا مقدمہ نہ لڑ کر قوم کو مایوس کیا۔

حالیہ پریس کانفرنس میں پاکستان نے دہشت گردی کے جو ثبوت پیش کئے ہیں وہ ہندوستان کو دہشت گرد ملک قرار دینے کے لئے کافی ہیں، کس طرح را کے افسران آپریشن کرتے ہیں، کس طرح دہشت گردی کا جال بچھاتے ہیں، کس طرح لین دین کرتے ہیں، یہ سب کچھ بےنقاب کر دیا گیاہے، ہندوستان اور افغانستان کے اندر کونسے تربیتی مراکز ہیں، جہاں دہشت گردوں کی تربیت کے لئے ہندوستانی عہدیدار سرگرم رہتے ہیں، پاکستان کو غیرمستحکم کرنے کے لئے را دہشت گردوں کو کن ذرائع سے فنڈنگ کرتی ہے، حالیہ پریس کانفرنس میں ہندوستانی جاسوسوں، ان کے افغانی اور پاکستانی ایجنٹوں کا پردہ فاش کر دیا گیا ہے۔

بتایا گیا ہے کہ کراچی کی ایک تنظیم کا رکن محمود صدیق بھارت میں موجود ہے، پاکستان کو مطلوب یہ دہشت گرد وہاں کیا کر رہا ہے، اس کا مطلب ہے کہ ہندوستان سرکاری سطح پر دہشت گردوں کی سرپرستی کر رہا ہے۔ کلبھوشن یادیو تو پکڑا گیا تھا، کرنل راجیش کی کارروائیاں دنیا کے سامنے رکھ دی گئی ہیں۔

واہگہ سے اٹاری جانے والی ٹرین میں ہونے والے بم دھماکے کا اعتراف انڈین سرکاری ایجنسیاں کر چکی ہیں کہ اِس میں ہندوستانی ملوث تھے۔ دنیا اجیت کمار دوول کی تقریروں پر بھی غور کرے، ایک انڈین میجر جو دہشت گردوں کو پیسہ دینے کی باتیں کرتا ہے اُس پر بھی غور ہونا چاہئے۔

پاکستان کی جانب سے دکھائے گئے ثبوتوں کے بعد ایف اے ٹی ایف کا امتحان بھی شروع ہو گیا ہے، ناقابلِ تردید ثبوت اُس کے سامنے ہیں، بینکوں کی ٹرانزیکشن سامنے رکھ دی ہے اور پھر آپ کو یہ بھی پتا ہونا چاہئے کہ بھارت کے 44بینک منی لانڈرنگ میں ملوث ہیں۔

اب دہشت گردی کا یہ مقدمہ ایک طرف عالمی مالیاتی اداروں کے سامنے ہے تو دوسری طرف اقوامِ متحدہ کے سامنے بھی ہے۔ ایک طرف یہ مقدمہ عالمی عدالت انصاف کے سامنے ہے تو دوسری طرف یہ مقدمہ او آئی سی کے لئے بھی امتحان ہے کہ کس طرح ایک ملک دوسرے آزاد ملک میں دہشت گردی کو پروان چڑھاتا ہے۔ پاکستان نے ایک متاثرہ فریق کے طور پر ثبوت دے دیئے، اب یہ دنیا کے اداروں کا امتحان ہے کہ وہ ایک دہشت گرد ملک کو دہشت گرد ملک کہتے یا نہیں؟

ہمیں بطور پاکستانی پرانی باتوں کو بھی یاد رکھنا چاہئے ہمیں یاد ہونا چاہئے کہ کس طرح بھارت کے سابق آرمی چیف مانک شاہ نے ایک جونیئر افسر شاہ بیگ سنگھ کو مکتی باہنی کی ٹریننگ کے لئے بنگال بھیجا، کامیاب آپریشن کے بعد کیسے مشرقی پاکستان الگ ہوا، وہ افسر بعد میں جرنیل بنا، جنرل شاہ بیگ سنگھ، ممتاز سکھ رہنما سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ سے ملاقات کے بعد انکوائریوں کا سامنا کرتا رہا اور بالآخر آپریشن بلیو اسٹار گولڈن ٹیمپل میں موت کے منہ میں چلا گیا، جنرل شاہ بیگ سنگھ نے ہندوستان کی کارستانیوں پر کتاب لکھی، اس کی کتاب پر ہندوستان میں کیوں پابندی لگائی گئی؟

اس میں تو یہ بھی تھا کہ وہ بنگال سے جب امرتسر خط لکھتا تھا تو ایس بیگ کے نام سے لکھتا تھا کیونکہ اس نے خود کو بنگال میں مسلمان ظاہر کر رکھا تھا۔ جیسے کلبھوشن یادیو، مبارک حسین بنا ہوا تھا، کون نہیں جانتا کہ سری لنکا میں دہشت گردی بھی ہندوستان کرواتا رہا، سو اب تو دنیا کو مان لینا چاہئے کہ ہندوستان ایک دہشت گرد ملک ہے اگر ایسا نہ ہوا تو پھر دنیا کے انصاف سے ساڑھے سات ارب انسانوں کا یقین اٹھ جائے گا۔

پاکستانی قوم نومبر میں عظیم فلاسفر شاعر مشرق حکیم الامت علامہ اقبالؒ کا دن مناتی ہے۔ پچھلے سال ہمارے شاہینوں نے بھارتی آرمی چیف جنرل بین راوت کو ایئر لاک کر کے چھوڑ دیا تھا، صرف بتایا تھا کہ ہم تمہیں مار سکتے ہیں۔ ہمارے شاہینوں کی پروازیں ہمیشہ بلند رہی ہیں۔

اقبالؒ اس قوم کے ہر جوان کو شاہین کی طرح دیکھنا چاہتا ہے مگر حکومتی سطح پر شاید اس کا ادراک نہیں۔ اس سال اقبالؒ کے حوالے سے سرکاری سطح پر ایوان صدر میں ایک تقریب ہوئی، اس تقریب میں غیرملکی سفیروں، دانشوروں اور اساتذہ نے شرکت کی۔ غیر ملکی سفیروں کی وجہ سے تقریب انگریزی میں کی گئی، صدر مملکت عارف علوی اور وزیر تعلیم شفقت محمود سمیت مقررین نے اچھی تقریریں کیں مگر دو جگہوں پر خامیاں صاف دکھائی دیں۔

ایک تو پروگرام کی میزبانی ایک ادارے کے سربراہ کی بیوی سے نہیں کروانی چاہئے تھی ۔ دوسرا تقریب کے آخر میں کلام اقبالؒ پر جو رقص پیش کیا گیا، اسے دیکھ کر اساتذہ اور دانشوروں سمیت ولید اقبالؒ کی آنکھیں بھی جھک گئیں۔ ایسا کیوں ہوا، اس کی بھی تحقیق ہونی چاہئے، اقبالؒ نے نگاہیں بلند کرنے کا کہا تھا، آنکھیں جھکانے کا نہیں، اقبالؒ کی شاعری بلندی کا سبق دیتی ہے پستی کا نہیں کہ؎

کرگس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور