فضلو اور نصیبن کی کہانی

November 19, 2020

بچوں کے لئے شائع ہونے والے ایک جریدے میں ایک کہانی میری نظر سے گزری بظاہر یہ ایک سبق آموز کہانی ہے ۔کہانی کچھ یوں ہے۔

فضلو ایک غریب لکڑہارا تھا سارا دن لکڑیاں کاٹ کاٹ کر مشکل سے تیس چالیس روپیہ کماتا، مگر کہانی کے مطابق اس کی بیوی نصیبن بہت فضول خرچ نافرمان، ضدی اوربدزبان تھی، اس لئے ان کا گزارہ مشکل سے ہوتا تھا۔نصیبن ہمیشہ فضلو سے لڑتی جھگڑتی رہتی، ذرا ذرا سی بات پر اسے ڈانٹتی اور تقریباً ہر وقت شوروغل سے گھر سر پر اٹھائے رکھتی۔ ہمسائے اس سے تنگ اور محلے والے بیزار تھے اس کی زبان قینچی کی طرح چلتی تھی۔خاوند کی ہر بات سے انکار کرنا اس کی عادت میں داخل ہو چکا تھا، جب کبھی وہ کوئی بات کہتا تو وہ ہمیشہ اس کا الٹ کرتی اگر وہ روٹی مانگتا تو اس کو روٹی نہ دیتی ہاں اگر وہ کہتا کہ مجھے بھوک نہیں اور میں روٹی نہیں کھائوں گا تو وہ اسے زبردستی روٹی کھلاتی۔لہٰذا اسے جس چیز کی خواہش ہوتی وہ ہمیشہ اس سے الٹ کہتا تب کہیں جاکر اسے وہ شے ملتی چنانچہ فضلو اس سے بہت تنگ آ چکا تھا آخر کار اسے ایک بات سوجھ ہی گئی اور وہ اسے کہنے لگا دیکھو نصیبن ہم باہر کہیں نہیں جائیں گے کیونکہ جو آرام گھر میں ہے وہ باہر نہیں مل سکتا۔یہ سن کر وہ ضدی عورت باہر جانے کے لئے تیار ہو گئی اور وہ دونوں باہر چل پڑے، راستے میں ایک تالاب پڑتا تھا فضلو تالاب دیکھ کر کہنے لگا ہم اس وقت بالکل نہیں نہائیں گے۔نصیبن ایک دم نہانے کو تیار ہو گئی جب وہ تالاب میں اتری تو فضلو نے آواز دی نصیبن آگے مت جانا پانی گہرا ہے ڈوب جائو گی مگر نصیبن اپنی ضد پر اڑی رہی وہ جونہی آگے بڑھی گہرے پانی میںغوطے کھانے لگی اور ڈوب گئی۔

رائٹر کہانی کا نتیجہ یہ بیان کرتا ہے کہ پیارے بچو!بے جا ضد کرنا ٹھیک نہیں اس سے انسان نقصان اٹھاتا ہے ۔دیکھا میں نے آپ کو کیسی خوبصورت اور سبق آموز کہانی سنائی ہے چونکہ یہ کہانی بچوں کے لئے ہے لہٰذا ممکن ہے بڑوں کو اس کی سمجھ نہ آئی ہو چنانچہ میں اس کی تھوڑی سی تشریح کر دیتا ہوں ۔اس کہانی میں دو کردار ہیں ایک ظالم ہے ایک مظلوم ہے، ظالم نصیبن ہے جسے اس کا خاوند گھر کے خرچ کے لئے سارے دن کے انتہائی محنت سےکمائے ہوئے روپے پیسے اس کے حوالے کر دیتا ہے مگر اس کے باوجود اس کا مزاج ہر وقت بگڑا رہتا اور وہ انتہائی ضدی بھی بن گئی تھی۔

کہانی کا مظلوم کردار بے چارہ فضلو ہےجو ایک روز اس ظالم عورت سے اتنا تنگ آ جاتا ہے کہ ایک روز اسے بہلا پھسلا کر تالاب پر لے جاتا ہے اور یہ جانتے ہوئے کہ وہ جو کہے گا یہ ظالم عورت اس سے الٹ کرے گی چنانچہ وہ اسے اس تکنیک سے گہرے پانی میں لے جاتا ہے جہاں وہ ڈوب جاتی ہے جس پر یہ ’’مظلوم‘‘ سکھ کا سانس لیتا ہے۔ اس ’’فضول خرچ‘‘ اور ’’نافرمان عورت ‘‘کی لاش دو تین دن بعد تالاب سے برآمد ہو ئی ہو گی اور گائوں کی دوسری ’’فضول خرچ ‘‘اور ’’نافرمان‘‘ عورتوں نے اس کے انجام سے عبرت پکڑی ہو گی اس کہانی سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ بے جا ضدکرنا ٹھیک نہیں اس سے انسان نقصان اٹھاتا ہے مگر اس کہانی سے کچھ نتیجے اس کے علاوہ بھی نکلتے ہیں مثلاً یہ کہ نافرمانوں کو قتل کرنا ہو تو اس طرح کہ جس طرح کہانی میں بتایا گیا ہے ۔یعنی

دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ

تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو

والے شعر پر عمل کیا جائے !چنانچہ فضلو کی جگہ کوئی اور ہوتا تو سارے شہر میں اس کے ظلم کی ڈھنڈیا پٹ جاتی مگر یہ اس کے صبر،برداشت اور پلاننگ کا نتیجہ تھا کہ اس نے راستے کے پتھر کو بھی ہٹا دیا اور اس کی نیک نامی پر کوئی حرف بھی نہیں آیا، اس کہانی میں ایک سبق اور پوشیدہ ہے اور وہ یہ کہ اگر کم آمدن یا کسی وجہ سے افراد انتشار کا شکار ہو جائیں تو نظام زر کے درپے ہو جانے کی بجائے ہمیں ایک دوسرے کے درپے ہونا چاہئے کبھی زبان کے مسئلے پر اور کبھی مسلک کے نام پر جھگڑا کھڑا کرنا چاہئے اور کبھی ملک توڑ دینے کی باتیںکرنا چاہئیں کیونکہ نظام زر کا خاتمہ مشکل کام ہے جبکہ ایک دوسرے کا خاتمہ بہت آسان ہے چنانچہ مسئلے کا فوری حل ہونے کی وجہ سے ہمارے ہاں اس طریق کار کو خاصی مقبولیت بھی حاصل ہے !