اب کیا ہو گا؟

May 09, 2013

اس میں واقعی کوئی شبہ نہیں کہ ہر شر میں ایک خیر بھی چھپا ہوتا ہے، تحریک انصاف کے رہنما عمران خان کے اسٹیج سے گر کر زخمی ہونے کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیلی اور جس نے بھی یہ افسوسناک خبر سنی۔ وہ رنج و الم کی تصویر بنا نظر آیا، لیکن اس شر میں چھپا خیر اس صورت میں سامنے آیا کہ ملک بھر کی سیاسی قیادت اس حوالے سے مغموم نظر آئی۔ خصوصاً تحریک انصاف کی انتخابی حریف جماعت مسلم لیگ (ن) کی قیادت اور اس کے کارکنوں نے جس شدت سے اس حادثے کو لیا، وہ اس جماعت کے عمومی کلچر اور اس جماعت کی ذہنی بلوغت کی نشاندہی کرتا ہے۔ میاں نواز شریف اور مسلم لیگ ن کے دوسرے قائدین کے غم میں ڈوبے ہوئے جذبات، پیغامات کی صورت میں سامنے آئے۔ میاں شہباز شریف عمران خان کی عیادت کے لئے خود شوکت خانم ہسپتال پہنچے۔ جہاں بدقسمتی سے تحریک انصاف کے کچھ کارکنوں نے اس وسیع النظری کا جواب ان کے خلاف نعروں کی صورت میں دیا۔ مسلم لیگ ن نے اپنے دکھ کا صرف لفظی اظہار نہیں کیا بلکہ اس کے عملی اظہار کیلئے اپنی انتخابی مہم ایک دن کے لئے ختم کرنے کا اعلان بھی کیا اور یوں آج (8 مئی) مسلم لیگ (ن) کے جو انتخابی جلسے اور ریلیاں منعقد ہونا تھیں، وہ سب کی سب منسوخ کر دی گئیں۔ کتنا اچھا ہوتا اگر عمران خان بھی بستر عیادت سے اپنے کارکنوں کو دیئے گئے پیغام میں تمام سیاسی جماعتوں کے اس concern کا دوحرفی شکریہ ہی ادا کر دیتے جو ان جماعتوں کے قائدین اور ان کے کارکنوں کی طرف سے اس موقع پر سامنے آیا۔بہرحال عمران خان کو پیش آنے والے اس المناک حادثے کے کچھ اور المناک پہلو بھی ہیں۔ انتظامیہ کے عمران کے ساتھ ان کے جو محافظ بیس فٹ کی بلندی پر سے زمین پر آن گرے، کیا وہ کیڑے مکوڑے تھے یا انسان۔ اگر وہ انسان تھے تو ہمارے میڈیا نے ان کے بارے میں کوئی اطلاع کیوں نہیں دی کہ وہ زندہ ہیں یا مر گئے ہیں۔ اگر زندہ ہیں تو کس حالت میں ہیں، کیا انہیں بھی علاج معالجے کے لئے عمران خان کے ساتھ شوکت خانم ہسپتال لے جایا گیا یا وہ کسمپرسی کی حالت میں ہیں…؟ اگر خدانخواستہ ایسا ہی ہے تو خدارا ان کی خبر بھی لیجئے۔ اگر وہ انسان نہیں کیڑے مکوڑے ہیں تو بھی کچھ دیر کے لئے ہی سہی، انہیں انسان کا درجہ دے دیں۔
اس المناک حادثے کے حوالے سے دوسرا افسوسناک پہلو ایک ٹی وی چینل کے حوالے سے سامنے آیا جو اپنی نشریات میں مسلسل اس حادثے میں سازش کا پہلو تلاش کرتا رہا، جس کے دور دور تک کوئی آثار نہیں تھے، تقریباً سبھی لوگ اس حادثے کو انتظامات کے اناڑی پن اور لاپرواہی کا شاخسانہ قرار دے رہے ہیں جبکہ ایک نقطہ نظر اس کے برعکس بھی ہے۔ کہا گیا ہے کہ اس واقعہ کی ویڈیو سلوموشن میں چلا کر دیکھی جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ عمران خان کو مسلسل جاگنے کی وجہ سے چکر سا آیا ہے۔ اس کے محافظوں نے انہیں سنبھالنے کی کوشش کی لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکے اور یوں یہ حادثہ پیش آیا۔ اس سے پہلے بھی ایک جلسے میں عمران خان تھکاوٹ کی وجہ سے اسٹیج پر پڑے صوفے پر لیٹ گئے تھے، تاہم میں اس نقطہ نظر سے اتفاق نہ کرنے کے باوجود یہ ضروری سمجھتا ہوں کہ اس حادثے کی مکمل تحقیقات کی جائے اور اس کی جو وجوہ بھی سامنے آئیں، نہ صرف یہ کہ تحریک انصاف بلکہ تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین بھی ان کی روشنی میں حفاظتی تدابیر اختیار کریں۔ عمران خان سمیت ہمارے ملک کے تمام سیاستدانوں اور ان کے کارکنوں کی جانیں بہت قیمتی ہیں۔ اس ضمن میں کسی قسم کی لاپرواہی برتنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ عمران خان کو جلد سے جلد صحت کاملہ عطا کرے تاکہ وہ ایک دفعہ پھر پوری تندہی کے ساتھ ملک و قوم کی خدمت کے حوالے سے اپنا فرض ادا کر سکیں…!
عمران خان کو پیش آنے والے حادثے کے بعد سے یہ سوال بھی ایک دوسرے سے پوچھا جا رہا ہے کہ کیا اس سے تحریک انصاف کی انتخابی مہم متاثر ہو گی اور کیا عمران خان کو ہمدردی کے ووٹ ملیں گے؟ تو میرے خیال میں عمران خان کی انتخابی مہم تو واضح طور پر متاثر ہو گی، ڈاکٹروں نے انہیں تین ہفتے مکمل آرام کے لئے کہا ہے جبکہ میرے خیال میں انہیں اس سے زیادہ آرام کی ضرورت ہے۔ انتخابی مہم کے لئے صرف ایک دن باقی ہے اور یہ آخری دن بہت اہم ہوتا ہے۔ اگر عمران خان صحت مند ہوتے تو وہ اس دن کو بھرپور طور پر استعمال کر سکتے تھے جس کا انہیں فائدہ ہو سکتا تھا۔ اب یہ صورت نہیں ہے۔ باقی جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ کیا انہیں ہمدردی کے ووٹ ملیں گے تو مجھے یہ ”ہمدردی“ کا لفظ ہی اچھا نہیں لگتا۔ ووٹ کوئی خیرات نہیں ہے جو کسی کی جھولی میں ڈال دیا جائے، ووٹ ایک قومی امانت ہے جس کا استعمال سوچ سمجھ کر ہونا چاہئے۔ میرے نزدیک ”ہمدردی کے ووٹ“ کی گنجائش یوں بھی نہیں ہے کہ لوگ بہت پہلے سے اپنا ذہن بنا چکے ہوتے ہیں۔ عمومی طور پر بڑے سے بڑے حادثے کی صورت میں بھی ان کی سوچ میں تبدیلی نہیں آتی جس کی ایک بڑی مثال بے نظیر بھٹو کی شہادت کا سانحہ ہے۔ اس سانحہ کے بعد سوائے سندھ کے، پی پی پی کو ہمدردی کے ووٹ کہیں سے نہیں ملے۔ لہٰذا میں نہیں سمجھتا کہ عمران خان کے حادثے کے حوالے سے کوئی استثنائی صورت پیدا ہو گی۔ عوام اپنا ذہن بنا چکے ہیں اور میرے خیال میں انتخابی نتائج وہی ہوں گے جو مختلف سروؤں کی صورت میں سامنے آ چکے ہیں…
اور اب آخر میں عزیز خرم جمیل کا شکریہ کہ انہوں نے ایک شاعر عطاء الرحمن قاضی کی ایک خوبصورت غزل مجھے ارسال کی۔ آپ بھی میری اس مسرت میں شامل ہوں جو اس غزل کے مطالعہ سے مجھے حاصل ہوئی۔
اسیر دشت ہوں ریگ رواں ہے گھر میرا
میں رک بھی جاؤں تو جاری رہے سفر میرا
رواں دواں ہوں مثال ہوائے آوارہ
ازل سے گردش دوراں ہے مستقر میرا
یہ کس نے میرے لہو میں اتار دی خوشبو
یہ کس نے نام لکھا ہے گلاب پر میرا
بجز یقین یہاں کون قاطع منزل
بجز گمان یہاں کون ہم سفر میرا
یہ کون ہے جو برنگ طلسم خواب عطا
دکھا رہا ہے مجھے عالم دگر میرا