جاپانی قوم کی مضبوط بنیاد

November 21, 2020

بیگم صاحبہ کے اصرار پر پورا دن مجھے بچوں کے ساتھ ان کے اسکول میں گزارنا پڑا تاکہ دیکھ سکوں کہ بچوں کا دن اسکول میں کس طرح گزرتا ہے ۔ ویسےبھی ہر تین ماہ میںوالدین کو پورا دن اسکول میں گزارنا پڑتا ہے تاکہ وہ دیکھ سکیں کہ ان کے بچوں کی تعلیم و تربیت کس طرح کی جارہی ہے ،اس اصرار پر عمل کرنے کیلئے ضروری تھا کہ اگلی صبح چھ بجے تیار ہوکر میں گھر کے باہر کھڑا ہوجائوں تاکہ اپنے بچوں سمیت محلے کے کئی اور بچوں کو بیس منٹ کی پیدل مسافت پر واقع ان کے اسکول تک پہنچا سکوں ،ہر گھر کے باہر قیمتی گاڑیاں موجود تھیں لیکن قانون یہ ہے کہ بچے پیدل اسکول آئیں تاکہ ایک دوسرے کے ماں باپ کی قیمتی گاڑیاں دیکھ کر بچوں میں احساس کمتری پیدا نہ ہو ، بیس منٹ بعد اسکول پہنچے جہاں اساتذہ بچوں کو خوش آمدید کہنے کے لئے موجود تھے ،پڑھائی شروع ہوئی تو گیارہ بجے تک پڑھائی جاری رہی، جس کے بعد تیز رفتاری سے بچے باہر نکلے ایک اسٹور روم میں داخل ہوگئے اور پھر جب واپس آئے تو کسی کے ہاتھ میں جھاڑ و تھی تو کسی کے ہاتھ میں پوچھا تو کسی کے ہاتھ میں پانی کی بالٹی، چار چار کے گروپ میں بچے اسکول کی صفائی میں مصروف ہوگئے،بچے بڑی محنت سے اسکول کی صفائی کرنے میں مصروف تھے جیسے وہ اسکول پڑھنے نہیں بلکہ صفائی کرنے ہی آتے ہوں، میں سوچ رہا تھا کہ اگرپاکستان میں اسکولوں میں ننھے منے بچوں سے اس طرح صفائی کروائی جائے تو ماں باپ کی جانب سے احتجاج شروع ہوجائے لیکن یہ بھی قوم کے معماروں کی تربیت کی نشانی ہے جو زندگی بھر ان کے مزاج کا حصہ رہے گی اور جاپانی قوم میں ہمیں جو صفائی ستھرائی نظر آتی ہے وہ اسی تربیت کا نتیجہ ہے جبکہ دین اسلام میں تو صفائی نصف ایمان ہے لیکن بحیثیت قوم ہم اس پر عمل نہیں کرتے۔ پھر پڑھائی، پھر کھیل کود اور پھر لنچ بھی اسکول کی جانب سے فراہم کیا جاتا ہے، مسلمان بچوں کو گوشت کی تمام اشیا سے پرہیز کرایا جاتا ہے جبکہ سی فوڈ کی اجازت ہوتی ہے ، دن بھر مصروف رہنے کے بعد گھر واپسی ہوئی ۔شام کو ایک ڈنر پر اہل خانہ کے ساتھ جانا تھا پاکستان سے نئی نئی واپسی ہوئی تھی لہٰذا گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے سیٹ بیلٹ لگانے کی طرف دھیان ہی نہ گیا دوسری جانب جاپان کا سرد ہوتا ہوا موسم بھی کچھ سہانا تھا کچھ سڑکیں بھی بہترین تھیں اہلِ خانہ کے ساتھ تیز رفتار لیکن قانون کی حد میں ڈرائیونگ کرتے ہوئےرواں دواں تھا کہ اچانک مجھے احساس ہوا کہ سڑک کے ایک کنارے کھڑا پولیس اہلکار مجھے سیٹ بیلٹ کے بغیر دیکھ چکا ہے اور لازمی طور پر اس نے وائرلیس کے ذریعے اگلے سگنل پر موجود پولیس چوکی کو میری گاڑی کی شناخت سے آگاہ کردیا ہوگا کہ میں بغیر سیٹ بیلٹ کے گاڑی ڈرائیو کررہا ہوں اب چند سو میٹر کے پاس مجھے سگنل بھی نظر آرہا تھااور متحرک ہوتے ہوئے پولیس اہلکار بھی مجھے روکنے کی تیاری کرتے ہوئے نظر آرہے تھے ، مجھے بھی اندازہ تھا کہ مجھ سے غلطی ہوچکی ہے لہٰذا دس ہزار ین کا جرمانہ اور لائسنس کے کچھ پوائنٹس کٹنے لازمی تھے میرے ساتھ بیٹھی اہلیہ اور بچوں نے بھی صورتحال بھانپ لی تھی اگلے لمحے ایک گاڑی میرے برابر سے گزری اور پولیس والوں سے میری نظر اوجھل ہوئی اور ایک لمحے سے بھی کم لگا میں نے سیٹ بیلٹ لگا لی ، پولیس اہلکاروں نے مجھے رکنے کا اشارہ کیا اور میں نے اطمینان سے پولیس والوں کے سامنے گاڑی روک لی ،اس سے پہلے پولیس اہلکار میری قریب پہنچ کر مجھ سے سوال جواب کرتے میں نےاپنے اہلِخانہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں ڈنر میں پہنچنے میں دیر ہورہی ہے لہٰذا میں پولیس والوں کو یہ بتائوں گا کہ میں نے بیلٹ لگائی ہوئی تھی پیچھے پولیس والوں کو غلط فہمی ہوئی ہوگی ، یہ سننا تھا کہ جیسے گاڑی میں بھونچال آگیا انہوں نے زبردست احتجاج شروع کردیا کہ یہ غلط بیانی ہے آپ ایسا نہیں کرسکتے ،آپ کو سچ بولنا ہوگا کہ آپ سے غلطی ہوئی ہے جبکہ پیچھے بیٹھی میری آٹھ سالہ بیٹی نے تو باقاعدہ رونا شروع کردیا کہ پاپا جھوٹ بولنا بری بات ہے آپ پولیس والوںکو بتادیں کہ آپ سے غلطی ہوئی ہے یہ کچھ نہیں کہیں گے ، میں کچھ دیر کے لئے سناٹے میں آگیا کہ میں ایسا کون سے اتنا بڑا گناہ کرنے جارہا تھا یا جرم کرنے جارہا تھا کہ اہل ِخانہ اتنے زبردست احتجاج پر اتر آئے ہیں لیکن دوسرے ہی لمحے مجھے اس قدر اطمینان اور خوشی محسوس ہوئی کہ جاپانی معاشرے میں بچوں کی تربیت کتنی شاندار ہورہی ہے کہ ایک چھوٹا سے جھوٹ بھی برداشت نہیں ہے ۔ اتنے میںپولیس اہلکار بھی مجھ تک پہنچ چکا تھا اور میری لگی ہوئی سیٹ بیلٹ دیکھ کر اس نے کہا کہ ہمیں اطلاع ملی تھی کہ آپ بغیر سیٹ بیلٹ سفر کررہے ہیں لیکن شاید پیچھے ہمارے افسر کو غلط فہمی ہوئی ہوگی و ہ شاید مجھ سے معذرت ہی کرنے جارہا تھا لیکن میں نے خود اس سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ میں نے ابھی ابھی سیٹ بیلٹ لگائی ہے جس کےلئے معذرت خواہ ہوں مجھ سے غلطی ہوئی ہے میر ےاہلِ خانہ بھی پولیس اہلکار سے میری غلطی پر معذرت کررہے تھے پولیس اہلکار ہم سب کو دیکھ کر مسکرایا اور وارننگ دےکر جانے کی اجازت دے دی لیکن مجھے اندازہ ہوچکا تھا کہ جاپانی قوم کی بنیادسچ اور ایمانداری پر رکھی جاتی ہے اور یہ بنیاد الحمد اللہ میرے اہل خانہ میں قائم ہوچکی ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ پاکستان میں بھی ملک سے محبت، سچ، ایمانداری اور والدین اور اساتذہ کرام کا احترام جیسی تعلیم و تربیت ہماری قوم کے معماروں کو فراہم ہوسکے تاکہ پاکستانی قوم بھی دنیا کی ایک کامیاب قوم بن سکے۔