مولانا خادم رضوی کے بعد بریلوی سیاست کا مستقبل کیا ہوگا؟

November 26, 2020

پاکستان کی مذہبی سیاست میںبریلوی مکتبہ فکر کو سواد اعظم اہلسنت و الجماعت کے نام سے جانا پہنچانا جاتا ہے، اس مکتبہ فکر نے ملکی سیاست میں ہمیشہ اہم کردار ادا کیا ، ایک زمانے تک جمعیت علما پاکستان کا ڈنکا بجتا رہا، جے یو پی پہلے دھڑہبندیوں کا شکار ہوئی پھر مجاہد ملت مولانا عبدالستار خان نیازی،قائد اہلسنت مولانا شاہ احمد نورانی،صاحبزداہ فضل کریم اور دیگر بزرگ رہنما یکے بعد دیگرے انتقال کرگئے جس سے جے یو پی کا سیاسی عہد ختم ہو گیا۔
پیپلزپارٹی حکومت کے دوران آسیہ بی بی کیس نے سر اٹھایا ، توہین رسالت کے متعلق آئینی شق 295سی پر بحث ہوئی ، اس دوران سابق گورنر سلمان تاثیر کی شیخوپورہ جیل میںنظر بند آسیہ بی بی سے ملاقات کا تنازع پیدا ہو گیا جس پر جنوری 2011میں سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو اسلام آباد میںریسٹورنٹ سے باہر نکلتے ہوئے ان کے پولیس گارڈ ممتاز حسین قادری نے گولیاں مار کر قتل کردیا، جماعت اہلسنت پاکستان کے ناظم اعلیٰ علامہ سید ریاض حسین شاہ نے ممتاز قادری کی حمایت میں سلمان تاثیر کے جنازہ کے خلاف فتوی دیا جس پر مجبوری گورنر ہائوس کے اندر سخت سکیورٹی میں پیپلزپارٹی کے ایک عالم دین نے نماز جنازہ پڑھائی۔

سپریم کورٹ میں ممتاز قادری کیس کی سماعت کے دوران اہلسنت رہنمائوں نے ممتاز قادری رہائی کمیٹی قائم کر کے چیئرمین ڈاکٹر اشرف جلالی، سرپرست پیر افضل قادری اورر مولانا خادم حسین رضوی کو امیر چن لیا تاہم ممتاز قادری اقبال جرم کر کے پھانسی کے پھندے پر جھول گئے، 29فروری 2016کو لیاقت باغ راولپنڈی میںممتاز قادری کی نماز جنازہ ادا ہوئی۔

جڑواں شہروں کی تاریخ میں یہ سب سے بڑا نماز جنازہکا اجتماع تھا، بریلوی رہنمائوں نے مبینہ طور پر ممتاز قادری کی شہادت کا ذمہ دار حکومت وقت کو ٹھہرایا اور تحریک لبیک یا رسو ل اللہ قائم کرنے کا اعلان کر دیا۔ نواز شریف حکومت کےخلاف دھرنوں میں زبردست پذیرائی ملنے کے بعد اس تحریک کو 2018میں الیکشن کمیشن میں تحریک لبیک پاکستان کی رجسٹریشن کر کے مولانا خادم رضوی باقاعدہ سیاسی میدان میںکود پڑے اوردیرینہ ساتھی ڈاکٹر اشرف جلالی کو بھی اختلافات کے بعد فارغ کر کے خود امیرجماعت بن گئے۔

انھوں نے گزشتہ الیکشن میں لاہور میںنواز شریف کے آبائی حلقہ میں کلثوم نواز کے مقابلے میںحصہ لیا ، تحریک لبیک سندھ اسمبلی میںکراچی سے دوصوبائی نشستیں جیت گئی لیکن پنجاب میں کوئی نشست نہ لے سکی البتہ مسلم لیگ ن کو زبردست نقصان پہنچا اور متعدد حلقوں میں تحریک لبیک کی وجہ سےن لیگ کے امیدوار ہار گئے جس کا برارہ راست فائدہ تحریک انصاف کو ملا اور پنجاب میںحکومت سازی میںکامیاب ہوگئی۔ تحریک انصاف حکومت میں مولانا خادم رضوی، پیر افضل قادری اورڈاکٹر اشرف جلالی تینوںزیر عتاب رہے ، قید و بند کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جس کے نتیجہ میںپیر افضل قادری اعلانیہ معافی مانگ کر تحریک لبیک اور سیاست سے دستبردار ہو چکے ہیں۔

مولانا خادم رضوی رواں ماہ فیض آباد چوک راولپنڈی میں فرانسیسی صدر کے خلاف متنازع خاکوں کے خلافدھرنا ختم کر کے لاہور پہنچے جہاںسانس اور سینہ میںتکلیف اور تیز بخار کے بعد خالک حقیقی سے جا ملے ، شبہ ہے کہ وہ کورونا میںمبتلا تھے لیکن ان کے لواحقین کا کہنا ہے کہ انھیں دل کا دورہ پڑا جو جان لیوا ثابت ہوا، مولانا خادم رضوی کی وفات کے موقع پر ڈاکٹر اشرف جلالی بھی ضمانت منظور ہونے کے بعد رہا ہو گئے ۔ مولانا خادم رضوی طویل عرصہ مذہبی شعبہ سے منسلک رہے لیکن ان کی سیاسی زندگی صرف تین برسوںپر محیط تھی۔

سکیم موڑ ملتان روڈ لاہور میں واقع گھر میں موت واقع ہونے کے بعد ان کی ایک دن وقفے کے بعد تدفین کی گئی تاکہ ملک کے طول وعرض میںپھیلے ان کے عقیدتمند نماز جنازہ میں شریک ہو سکیں، تحریک لبیک پاکستان کے نئے امیر حافظ سعدحسین رضوی نے مینارِ پاکستان کے گراؤنڈ میں نئے امیر کا حلف اٹھایا، وہ اس سے پہلے ڈپٹی سیکریٹری جنرل کے عہدے پر فائز رہے ہیں، اہلسنت والجماعت بریلوی مکتبہ فکر میںمولانا خادم رضوی کی وفات کے بعد سیاسی خلا پیدا ہو چکا ہے، اہلنست کی سیاست میں مولانا عبدالستار نیازی، مولانا شاہ احمد نورانی جمعیت علما پاکستان میںاپنے الگ الگ دھڑوںکے سربراہ رہے۔

ان دونوںبزرگوں کے بعد حاجی فضل کریم سنی اتحاد کونسل کے پلیٹ فارم سے سرگرم ہوئے لیکن گزشتہ الیکشن کے قریب کینسر کی وجہ سے خالق حقیقی سے جا ملے جس کے بعد ان کے بیٹے صاحبزادہ حامد رضا خود سربراہ بن گئے ، الیکشن میںتحریک انصاف کی حمایت نہ ملنے پر الیکشن ہار گئے اور ان دنوںقران بورڈ پنجاب کے چیئرمین اور سیاست سے عملی دستبردار ہیں، الیکشن کے دوران مولانا خادم رضوی نے اہلسنت کے خلا کو پر کیا ، لانگ مارچ، دھرنوں ،جوشیلے خطابات ، پولیس تشدد، کارکنوں کی شہادتوں ، قید و بند کی صعوبتوں کی وجہ سے انھیں ، اہلسنت حلقوں کا کہنا ہے کہ مولانا خادم رضوی کی حیات تک تحریک لبیک اہلسنت کی سب سے بڑی جماعت ضرور تھی لیکن پارٹی تنظیم اور مشاورت سے چلتی ہے۔

مولانا خادم رضوی کو اپنی پارٹی تنظیمی طور پر مضبوط کرنی چاہئے تھی، بدقسمی ہے کہ ان کی وفات کے بعد بھی تنظیم اور مشاورت کا فقدان ہے جس وجہ سے ان کے بیٹے سعد رضوی جو درس نظامی کے آخری سال میں طالبعلم ہیں انھیں نیا امیر بنا دیا گیا، سعد رضوی اپنے والد کے فرما نبردار ہو گے لیکن انھیں سیاسی کام سیکھنے کی ضرورت تھی۔

تحریک لبیک مشاورتی کمیٹی قائم کر تی تو اچھا ہوتا، تحریک لبیک کے سابق چیئرمین پیر افضل قادری بھی یہی موقف رکھتے ہیںکہ والد کے بعد بیٹے کو امیر نہیں بننا چاہئے تھا اس سے تحریک لبیک میںمشکلات پیدا ہو گی، یہ صورتحال اہلسنت کے لئے امید افزاں نظر نہیںآتی۔