اسرائیل، سعودی تعلقات دال میں کچھ کالا …

November 27, 2020

ڈیٹ لائن لندن … آصف ڈار
گزشتہ برس اگست میں جب انڈیا نے ساری سیاسی، اخلاقی اور انسانی حدود عبور کرتے ہوئے نہ صرف مقبوضہ کشمیر کی حیثیت ختم کرنے کی بھونڈی کوشش کی بلکہ کشمیریوں پر عرصہ حیات بھی تنگ کیا۔ اس وقت ساری نام نہاد مسلم امہ امریکہ کے سرچڑھ کر بولنے والے جادو کے نشے میں چور ہوکر سوگئی تھی۔ ماسوائے پاکستان، ترکی، ملائشیا اور ایران کےکسی مسلمان ملک نے نہ کشمیریوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز بلند کی اور نہ ہی انڈیا سے یہ کہا کہ اس نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں قراردادوں کے باوجود مقبوضہ کشمیر کی حیثیت کو تبدیل کرنے کی سازش کیوں کی، کسی نے نہیں کہا کہ انڈیا نے اپنے ملک کے کروڑوں مسلمانوں کی شہریت کو ختم کرنے کی قانون سازی کیوں کی، گزشتہ برس اس قسم کے سوالات کے حوالے سے بہت ساری باتیں کھل کر سامنے نہیں آسکی تھیں کیونکہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے اندر مسلم امہ کا ’’بھرم‘‘ کسی نہ کسی شکل میں قائم تھا۔ مگر اب دھند چھٹتی ہوئی نظر آرہی ہے اور عالمی منظر نامہ واضح ہوتا جارہا ہے۔ معلوم ہو رہا ہے کہ کون کدھر جارہا ہے، اب یہ بات بھی سمجھ میں آرہی ہے کہ سعودی شہزادے نے پاکستان کا دورہ کیوں کیا اور 20 ارب ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کا لارا کیوں لگایا، موجودہ صورتحال میں یہ بات بھی واضح ہورہی ہے کہ آخر اب سعودی عرب نے پاکستان کو دیئے گئے پیسوں میں سے ایک ارب ڈالر فوری طور پر وصول کیوں کرلئے اور اب باقی ماندہ کا بھی تقاضا کررہا ہے، اب یہ بھی معلوم ہورہا ہے کہ سعودی عرب نے پاکستان پر ’’خاص‘‘ مہربانی اس لئے کی تھی کہ وہ انڈیا کی اگست 2019ء والی سازش پر خاموشی اختیار کرے کیونکہ انڈیا اور سعودی عرب کے درمیان دوستی کی پینگیں بہت زیادہ بڑھ چکی تھیں اور دونوں کے معاشی مفادات ایک ہوچکے تھے۔ انڈیا نے کشمیر کے حوالے سے نہ صرف امریکہ اور سعودی عرب بلکہ دوسرے قابل ذکر ممالک کو بھی پہلے ہی بریف کر رکھا تھا تاکہ عالمی سطح پر زیادہ شور شرابا نہ ہو۔ سو اس میں بھی وہ ’’مسلم امہ‘‘ اور امریکہ کی ’’مہربانیوں‘‘ کی وجہ سے کامیاب رہا۔ اب یہ بات بھی سمجھ میں آرہی ہے کہ امریکی صدر نے وزیراعظم عمران خان کو اپنا ’’دوست‘‘ کیوں قرار دیا اور انڈیا کے ساتھ مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کیوں کی؟ سب کچھ طے شدہ تھا۔ پہلے مقبوضہ کشمیر کو ’’ٹھکانے‘‘ لگانا مقصود تھا اور اب بعد میں ’’مسلم امہ‘‘ سے اسرائیل کو تسلیم کرانے کی سازش کی گئی تھی۔ دونوں کام کردیئے گئے۔ امریکہ نے نہ صرف پاکستان پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لئے خود دبائو ڈالا بلکہ سعودی عرب کو بھی اس مقصد کے لئے استعمال کیا۔ ایسا لگتا ہے کہ جب پاکستان نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے دونوں ملکوں کے دبائو کو قبول کرنے سے انکار کردیا تو پھر وزیراعظم عمران خان کی ’’دوستی‘‘ صدر ٹرمپ کے ساتھ رہی نہ پرنس سلیمان کے ساتھ، چنانچہ اب سنا یہ گیا ہے کہ سعودی عرب اپنی باقی رقم کا بھی تقاضہ کررہا ہے اور اس مقصد کے لئے ایک مرتبہ پھر پاکستان کو چین کی جانب دیکھنا پڑ رہا ہے اگرچہ امریکہ اب تک بحرین، متحدہ عرب امارات اور سوڈان سے اسرائیل کو تسلیم کراچکا ہے۔ تاہم وہ چاہتا ہے کہ سعودی عرب بھی فوری طور پر یہ کام کردے تاکہ امریکہ، اسرائیل اور انڈیا کا ایجنڈا مکمل ہوسکے۔ اسی مقصد کے تحت گزشتہ اتوار کو سعودی عرب میں امریکی وزیر خارجہ، سعودی شہزادہ سلیمان اور غالباً اسرائیلی وزیراعظم کی ملاقات بھی ہوئی۔ اگرچہ شہزادہ سلیمان نے اس ملاقات کی تردید کی ہے تاہم عالمی مبصرین یہ سمجھتے ہیں کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔ وگر نہ عالمی میڈیا اتنا غافل بھی نہیں ہوسکتا ہے کہ اس ملاقات کی تصدیق کچھ عرصہ بعد ہوجائے اور امریکی صدر ٹرمپ جانے سے پہلے پہلے سعودی عرب سے کوئی اعلان بھی کرا دیں تاہم سوچنے کی بات یہ ہے کہ ’’مسلم امہ‘‘ کہاں ہے۔ اگرچہ انڈیا، اسرائیل اور سعودی عرب ایک ہوجائیں گے تو پھر کشمیر اور فلسطین کے مسئلوں کا کیا بنے گا۔