مجرموں کو نامرد بنانے کا کیمیائی عمل متعارف کرایا جائے گا، انسداد ریپ، دی کریمنل لاء آرڈیننس منظور

November 27, 2020

اسلام آباد (جنگ رپورٹر) کابینہ کمیٹی برائے قانون سازی کے اجلاس میں جنسی زیادتی سے متعلق اینٹی ریپ(انویسٹی گیشن و ٹرائل) آرڈیننس 2020اوردی کریمنل لاء (ترمیمی) آرڈیننس 2020 کی منظوری دے دی گئی ہے۔

نئیقانون سازی کے ذریعے جنسی زیادتی کے مجرموں کیخلاف مقدمات چلانے کیلئے خصوصی عدالتیں قائم کی جائیں گی اور جنسی زیادتی کے عادی مجرموں کو نامرد بنانے کیلئے ادویات کے ذریعے خصی کرنے کا کیمیائی عمل متعارف کروایا جائے گا۔

جنسی زیادتی کا شکار خواتین کیلئے عمر کی حدختم ، مردکیلئے زیادہ سے زیادہ 18 سال تصور کی جائیگی،مقدمات کیلئے خصوصی عدالتیں قائم ہونگی،FIR اندراج ، طبی معائنے، فرانزک تجزیئے کیلئے کمشنر/ڈپٹی کمشنرز کی سربراہی میں اینٹی ریپ کرائسز سیل قائم کئے جائیں گے۔

تعزیرات پاکستان کی دفعہ 375 کی تشریح متبادل لفظ ریپ کیساتھ کی گئی ہے جس میں جنسی زیادتی کا شکار ہونے والی خواتین کیلئے عمر کی حدختم جبکہ مردکیلئے زیادہ سے زیادہ عمر 18 سال تصور کی جائے گی، عدالتی کارروائی بند کمرے کے اندر ہوگی جبکہ زیادتی کا شکار افراد کے گواہ اور مقدمہ کے گواہان کو مکمل تحفظ فراہم کیا جائے گا۔

وزارت قانون وانصاف کی پریس ریلیز کے مطابق اس حوالے سے وفاقی وزیر قانون وانصاف، فروغ نسیم کی زیرصدارت کابینہ کمیٹی برائے قانون سازی کا اجلاس ہوا جس میں مذکورہ بالا 2 آرڈیننسز کی منظوری دی گئی ہے جبکہ وفاقی کابینہ پہلے ہی ان آرڈیننسز کی اصولی منظوری دے چکی ہے۔

یہ دونوں قوانین خواتین اور بچوں کیساتھ ہونے والے ریپ اور جنسی استحصال جیسے ظالمانہ جرائم کی روک تھام کیلئے طریقہ کار وضع کرتے ہیں۔

اینٹی ریپ(انویسٹی گیشن و ٹرائل) آرڈیننس 2020کی چیدہ چیدہ خصوصیات کے مطابق خصوصی عدالتوں کا قیام۔

(ii)ایف آئی آر کے اندراج ، طبی معائنے اور فرانزک تجزیئے کیلئے کمشنر/ڈپٹی کمشنرز کی سربراہی میں اینٹی ریپ کرائسز سیل قائم کئے جائیں گے۔

(iii)طبی معائنہ کے دوران عصمت دری کا شکار افراد کے کنوار پن کی غیرانسانی طریقے سے جانچ پڑتال یا متاثرہ کا کسی بھی قسم کے امکانی تعلق ظاہر ہونے کی شرائط کا خاتمہ۔

(iv)ملزم کی جانب سے زیادتی کا نشانہ بننے والے شخص کی جرح پر پابندی ہوگی، اس طرح جرح کی اجازت صرف متعلقہ جج یا ملزم کے وکیل کو ہوگی۔

(v)عدالتی کارروائی ان کیمرہ ہوگی۔

(vi)زیادتی کا شکار افراد کے گواہ اور مقدمہ کے گواہان کو مکمل تحفظ فراہم کیا جائے گا۔

(vii)مقدمے کی تفتیش اور کارروائی کے دوران جدید ٹیکنالوجی کا استعمال یقینی بنایا جائے گا۔

(viii)متاثرہ شخص کو مجاز حکام کے ذریعے قانونی معاونت اور اعانت کی فراہمی یقینی بنائی جائے گی۔

(v)متاثرین کی مدد کیلئے خودمختار مشیروں کی تشکیل۔

(vi)خصوصی عدالتوں کیلئے خصوصی پراسیکیوٹرز کی تعیناتی۔

(vii) ڈسٹرکٹ پولیس افسران کی سربراہی میں مشترکہ تحقیقاتی کمیٹیوں (جے آئی ٹی) کی تشکیل۔

(viii)مقدمے پر آئین کی مکمل عملداری کی دیکھ بھال کیلئے خصوصی کمیٹی کی تشکیل۔

(ix)وزیراعظم کے احکامات کی روشنی میں خصوصی کمیٹی کی جانب سے طبی و قانونی جانچ پڑتال، تفتیش اور استغاثہ کیلئے رہنمائی فراہم کرنے کے عمل میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال یقینی بنایا جائے گا۔

(x)جنسی زیادتی کرنے والے مجرموں کے ڈیٹا کا اندراج نادرا کے ذریعے کروایا جائے گا۔

(xi)خواتین اور بچوں کیخلاف جنسی جرائم جیسی لعنت کی روک تھام کیلئے عوامی حمایت کے حصول کیلئے پبلک رپورٹنگ میکنزم کا قیام کیا جائے گا ،دی کریمنل لاء (ترمیمی)آرڈیننس 2020کی چیدہ چیدہ خصوصیات یہ ہیں:

(i)تعزیرات پاکستان کی دفعہ 375 کی تشریح متبادل لفظ ریپ کے ساتھ کی گئی ہے جس میں جنسی زیادتی کا شکار ہونے والی خواتین کے لئے عمر کی حدختم جبکہ مردکیلئے زیادہ سے زیادہ عمر 18 سال تصور کی جائے گی۔

(ii)جنسی زیادتی کے علاوہ اجتماعی جنسی زیادتی کو بھی جرم تصور کیا جائے گا۔

(iii)پہلی بار یا عادی مجرموں کو نامرد بنانے کیلئے ایک کیمیائی کاسٹریشن کا عمل متعارف کروایا جا رہا ہے، یہ عمل رضامندی سے مشروط ہوگا۔