پاکستان سفارتکاری پر نظرثانی کرے

November 28, 2020

تحریر۔راجہ بشارت علی خان۔برسٹل
کشمیر کیلئے دنیا بھر میں پاکستان کو اپنی سفارتکاری پر نظر ثانی کر ناہوگی، او آئی سی مظلوم مسلمانوں خاص طور پر کشمیرو فلسطین کی ترجمانی کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہا ہے۔انڈیا اور سعودی عرب کے وسیع تر مشترکہ مفادات ہیں اور سعودی عرب کشمیر کے بارے میں انڈیا کے خلاف بولنے سے گریز کرتارہا ہے۔ انڈیا کی جانب سے کشمیر کو دی جانے والی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد بھی سعودی عرب نے انڈیا کے خلاف کوئی بیان جاری نہیں کیا تھا۔ ایک اہم خلیجی ملک متحدہ عرب امارات نے تو یہاں تک کہا کہ یہ انڈیا کا داخلی مسئلہ ہے۔ ترک صدر رجب طیب ایردوان، ایران کے صدر حسن روحانی، ملائشیا کے اس وقت کے وزیر اعظم مہاتیرمحمد اور پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے کوالالمپور سربراہی کانفرنس میں اتحاد قائم کرنے کا منصوبہ بنایا تھالیکن سعودی عرب کی ناراضگی کی وجہ سے پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے اجلاس میں شرکت نہیں کی تھی اور اپنے وزیر خارجہ کو ملائیشیا نہیںبھیجا تھا۔ بہرحال ترکی اور ملائیشیا کو کشمیر کے معاملے پر پاکستان کے ساتھ کھڑے دیکھا گیا ہے جبکہ باقی اسلامی ممالک عام طور پر غیر جانبداررہے۔ حالیہ دنوں میں او آئی سی کے رکن مالدیپ نے انڈیا کی حمایت کی ہے۔ او آئی سی کا اجلاس ایک ایسے وقت میں منعقد کیا جارہا ہے جب انڈیا اور دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت چین کے درمیان کشیدگی جاری ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان سرحدی علاقے لداخ میں ہونے والی جھڑپ میں انڈیا کے کئی فوجی ہلاک ہوگئےتھے۔ دوسری جانب انڈیا کے لیے نیپال کی سرحد پر بھی نیا تنازع پیدا ہو گیا ہے اور پاکستان کے ساتھ تو پہلے سے ہی انڈیا کا تعلق کشید ہ ہے۔ ایسی صورتحال میں او آئی سی کا اجلاس بہت اہم سمجھا جا رہا ہے۔ جموں و کشمیر پر او آئی سی کے اس رابطہ گروپ میں سعودی عرب بھی شامل ہے۔سعودی عرب کے بغیر او آئی سی کو ئی قدم نہیں اٹھاتی ،سعودی عرب کی او آئی سی میں مکمل اجارہ داری قائم ہے۔متحدہ عرب امارات اور سعودی حکومت کا جھکاؤ مکمل طور پر بھارت کی طرف ہے۔ کشمیر کے لیے دنیا بھر میں پاکستان کو اپنی سفارتکاری پر نظر ثانی کرنا ہوگی، میں ہمیشہ سے اس بات پر زور دیتا رہا ہوں کہ ایک مضبوط معاشی طور پر پاکستان ہی کشمیر کی بات دنیا میں کرتے ہوئے اچھا لگتاہے پاکستان کو پہلے اپنے معاشی اور تجارتی تعلقات کو درست سمت دینا ہو گی دنیا بھر میں موجود کشمیری پاکستانیوں کو خارجہ پالیسی کا حصہ بنانے کی ضرورت ہے دنیا بھر میں کشمیری لیڈر شپ کشمیر کی صحیح ترجمانی کرتے ہیں ۔کشمیر کمیٹی کو وسعت دی جائے اورکشمیری رہنماؤں کو کشمیر کی خارجہ پالیسی میں شراکت داری میں شامل کیا جائے۔ نائیجریا کے دارالحکومت نیامی میں منعقدہ اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے وزرائے خارجہ کا دو روزہ اجلاس جاری ہے، او آئی سی کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر یوسف الاثمین کے سرکاری بیان میں کہا گیا ہے کہ اس اجلاس میں فلسطینی کاز ، تشدد ، انتہاپسندی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ ، اسلامو فوبیا اور مذہب کی بدنامی ، غیر اقلیتوں میں مسلم اقلیتوں اور معاشروں کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔ -ممبر ریاستیں ، بین الاقوامی عدالت انصاف میں روہنگیا کیس کے لئے فنڈ جمع کرنے کےساتھ ساتھ تہذیبوں ، ثقافتوں اور مذاہب کے درمیان مکالمہ کو فروغ دینے اور دیگر ابھرتے ہوئے معاملات کو فروغ دینے کے لئے بات ہوگی۔اجلاس کے ایجنڈے میں سیاسی ، انسان دوست ، معاشی ، معاشرتی اور ثقافتی اور سائنس اور ٹکنالوجی ، میڈیا اور او آئی سی2025: پلان آف ایکشن دستاویز کے نفاذ میں ہونے والی پیشرفت سے متعلق دیگر امور پر تبادلہ خیال بھی شامل ہےمزید یہ کہ اس میںسلامتی اور انسانیت سوز چیلنجوں کا مقابلہ کرنے والے افریقی ساحل ریاستوں کے ممبروں کو او آئی سی کے ممبروں سےمقابلہ کرنے کے سلسلے میں ایک ذہن سازی سیشن منعقد کیا جائے گا۔ میزبانوں نےکوویڈ 19 کے وبائی امراض کے بہانے اجلاس کی پاکستانی درخواست مسترد کردی۔سلامتی کونسل پر زور دیا گیا کہ وہ بھارت کو مجرم نوآبادیاتی منصوبے کو تبدیل کرنے سے روکنے کے لئے اپنی براہ راست ذمہ داری کااستعمال کرے۔ متنازع علاقے کا آبادیاتی ڈھانچہ،خط میں اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد کو بھی یقینی بنانے کا مطالبہ کیا گیا ہے جو اقوام متحدہ کے زیر اہتمام آزادانہ اورغیرجانبدارانہ رائے شماری کے ذریعے کشمیریوں کے حق خود ارادیت کے جائز حق کو تسلیم کرتی ہیں۔