احسان مانی، وسیم خان کے 2 سال میں پاکستان کرکٹ ٹیم کی پرفارمنس کا جائزہ

November 30, 2020

پاکستان کرکٹ ٹیم کی گذشتہ دو سال کے عرصے میں بین الاقوامی کرکٹ میں کارکردگی کا معیار دیکھ کر آسان الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس میں بہتری کی اشد ضرورت ہے، ایک جانب بورڈ میں بھاری معاوضوں پر تقرریاں عمل میں آرہی ہیں، تبدیلیوں کا سلسلہ ختم ہونے کا سفر جاری ہے۔

دوسری جانب کارکردگی کے پیمانے کو اگر جانچنے کی کوشش کی جائے، تو یہاں خاصے سوالات اور تحفظات دکھائی دیتے ہیں۔

نتائج کا معاملہ یہ ہے کہ ٹیسٹ، ون ڈے اور ٹی 20 کسی فارمیٹ میں قومی کرکٹ ٹیم نے غیر ملکی سرزمین پر گذشتہ دو سال کے عرصے میں جو سیریز کھیلیں، وہاں قومی ٹیم کے ہاتھ ماسوائے ناکامی کے کچھ ہاتھ نہیں آسکا ہے۔

بین الاقوامی کرکٹ میں غیر ملکی سرزمین پر شکست پر جوابدہ موجودہ بورڈ کے لیے لمحہ فکریہ یہ بھی ہے کہ ہوم سیریز میں اہم کھلاڑیوں کے بناء پاکستان آنے والی سری لنکا کی ٹیم ہمیں ٹی 20 سیریز میں 3/0 اور اپنے مستقل کوچ کے بغیر پاکستان آنے والی زمبابوے کی ٹیم ون ڈے مقابلے میں ہوم گراؤنڈ پر ہمیں شکست دے کر آئی سی سی ورلڈکپ سپر لیگ میں ہمیں دس قیمتی پوائنٹس سے محروم کر چکی ہے۔

ستمبر 2018ء میں احسان مانی بطور چئیرمین پاکستان کرکٹ بورڈ کیساتھ منسلک ہوئے، جبکہ وسیم خان نے بورڈ کیساتھ بھاری معاوضے پر اپنی اننگز کی شروعات بطور مینجنگ ڈائریکڑ فروری 2019ء میں کی، تاہم اب ان دو اہم عہدیداروں کی بورڈ کیساتھ وابستگی کو اب جب کہ دو سال ہو چکے ہیں، پاکستان کی بین الاقوامی کرکٹ میں پرفارمنس کا خلاصہ کچھ یہ ہے۔

پاکستان کرکٹ ٹیم نے احسان مانی کے چئیرمین بننے کے بعد 16 ٹیسٹ کھیلے، صرف چار جیتے، آٹھ میں قومی ٹیم کو شکست ہوئی، جبکہ چار ٹیسٹ ڈرا ہوئے۔

38 ون ڈے میچوں میں پاکستان ٹیم 13ون ڈے جیت سکی، 21 میں شکست سے دوچار ہوئی، چار میچ بلا نتیجہ رہے۔

البتہ ٹی 20 مقابلوں میں ٹیسٹ اور ون ڈے کی کارکردگی کو قدرے بہتر کہا جا سکتا ہی، جہاں پاکستان ٹیم نے 25 میچوں میں 13جیتے 9 ہارے جبکہ 3 میچ بے نتیجہ رہے ۔

وزیر اعظم عمران خان جن کی قیادت میں پاکستان نے آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں منعقدہ پانچواں عالمی کپ 1992ء میں جیتا تھا، اس وقت پاکستان کرکٹ بورڈ کے پیٹرن ہیں۔

ورلڈ کپ 2019ء میں جب ٹیم پاکستان آخری چار ٹیموں میں جگہ حاصل نہ کرسکی تو وزیر اعظم نے اپنے دورہ امریکا اور دیگر تقاریر میں ٹیم کو مضبوط بنانے کی بات کی۔

تاہم عمران خان کے ان بیانات کے برعکس احسان مانی کے بطور چئیرمین اور وسیم خان کے بطور چیف ایگزیکٹو قومی کرکٹ ٹیم کی کارکردگی بہتری کا تقاضہ کر رہی ہے اور اس بات کا اندازہ اس طرح کیا جا سکتا ہے کہ احسان مانی کے چئیر مین پی سی بی اور وسیم خان کے چیف ایگزیکٹو کا عہدہ سنبھالنے کے بعد قومی ٹیم دو سال کے عرصے میں غیر ملکی سرزمین پر منعقد ہونے والی کوئی ٹیسٹ، ون ڈے یا ٹی 20 سیریز نہیں جیت سکی ہے۔

احسان مانی کے چئیر مین پی سی بی بننے کے بعد پاکستان کوئی غیر ملکی سیریز نہیں جیت سکا ہے جبکہ وسیم خان کے بورڈ سے منسلک ہونے کے بعد ٹیم پاکستان غیر ملکی سیریز میں پہلی کامیابی کی منتظر ہے۔

انتظامی تبدیلیوں کے اعتبار سے بھی احسان مانی اور وسیم خان کے بطور عہدیدار بورڈ سے منسلک ہونے کے بعد اگر دیکھا جائے، تو ٹیسٹ ٹیم کے تین کپتان سامنے آچُکے ہیں، سرفراز احمد اور اظہر علی نے دو سال میں 16 ٹیسٹ میں قیادت کی ذمہ داری نبھائی، اب بابر اعظم موجودہ بورڈ کیساتھ کام کرنے والے تیسرے ٹیسٹ کپتان ہونگے۔

ون ڈے کی سطح پر اب ٹیسٹ کی طرح موجودہ بورڈ نے قیادت کی ذمہ داری بابر اعظم کے کندھوں پر رکھ دی ہے، البتہ دو سال کے دوران موجودہ بورڈ ون ڈے قیادت کے معاملے میں وکٹ کیپر سرفراز احمد، شعیب ملک اور عماد وسیم کو بھی آزما چکا ہے۔

ٹی 20 کے میدان میں بھی کپتانی کا تجربہ اس بورڈ نے ایک سے زیادہ مرتبہ کیا ہے، اور موجودہ کپتان بابر اعظم سے قبل موجودہ کرکٹ بورڈ وکٹ کیپر سرفراز احمد اور شعیب ملک کو موقع دے چکی ہے۔

ان تبدیلیوں اور تجربات کیساتھ احسان مانی اور وسیم خان کی موجودہ انتظامیہ کے کرکٹ بورڈ کی بین الاقوامی سطح پر درجہ بندی کے اعتبار سے اگر بات کی جائے، تو آئی سی سی ٹیسٹ رینکنگ میں پاکستان کا ساتواں نمبر ہے، آئی سی سی ون ڈے رینکنگ میں پاکستان کا موجودہ نمبر چھٹا ہے، جب کہ آئی سی سی ٹی 20 رینکنگ میں اس وقت پاکستان ٹیم چوتھے نمبر پر ہے۔