میری جان کہاں ہو تم؟

December 06, 2020

بہت ڈھونڈا تمہیں، میرا خیال تھا تم سائنس میں ملو گی، وہاں نہ ملی تو دانش گاہوں میں ملو گی۔ تمہارا اصل ٹھکانا تو مساوات، انصاف، مکالمہ اور پارلیمان نہیں تھا کیا؟ تم کیوں نہیں سمجھتی کم از کم میں تمہاری آغوش کا متمنی ان چار عشروں سے ہوں۔ میں تو سمجھتا تھا، بلکہ ہنوز سمجھتا ہوں اور منتظر بھی ہوں، بالکل اسی ارمان کے ساتھ، کہ تو ہے تو درخشاں ہے حیات!

سنا تھا، تیری صورت سے ہے عالم میں بہاروں کو ثبات، سو تب سے تیری راہ میں آنکھیں فرش کئے ہوئے ہیں۔ اب تو یہ عالم ہے کہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے صنم۔ بہرحال

اک طرز تغافل ہے سو وہ ان کو مبارک

اک عرض تمنا ہے سو ہم کرتے رہیں گے

یہ تمنا تو کئیوں کی ہوگی کہ 1956اور 1962 کی چاشنی و کڑواہٹ کا جمہوری آمیزہ 1973میں بھی ہوتا اور کامیاب و کامران ہوتا۔ احتساب و حساب کتاب ہر شخص کا ہوتا اور ہر شخص کو ایسے پرکھا جاتا جیسے سورہ عصر پرکھتی ہے۔ کوئی مقدس گائے نہ ہوتا، کچھ مقدس ہوتا تو صرف کردار ہوتا۔ آئین کی عملداری اور علمبرداری پر تجربے بارہا ہوئے لیکن اس کے نفاذ کا وہ تجربہ جو حق بنتا تھا، وہ دھندلا تھا اور دھندلا ہے۔ آئین کی 7تا 28دفعات انسانیت کا پرچار ہیں جن پر ،اسٹیٹس کو، کی محبت بھری نظر کبھی پڑی ہی نہیں۔ اور جب اقوام متحدہ کے یونیورسل ڈکلیئریشن کی 16 تا 30 دفعات کو دیکھتے ہیں تو وہاں بھی یہی نظر آتا ہے کہ عالمی اسٹیٹس کو کے مجاور بھی کشمیر تا فلسطین ان دفعات کو منصفانہ نظر سے نہیں دیکھتے ورنہ اقوام متحدہ کا قیام ہی عالمی امن اور انسانی حقوق کی پاسداری کیلئے تھا۔

ان پچھلے چالیس سالوں کو ہم نے اپنی گنہگار آنکھوں سے دیکھا۔ آئین کی بالادستی، اسلامی نفاذ کے اجرا اور انسانی حقوق کی فراہمی کے نام پر سب سے زیادہ جھوٹ بولا گیا۔ اور یہ جھوٹ عام آدمی سے خاص آدمی نے بولا، گویا جھوٹ بولنے والے مسلسل بااثر اور پراثر ہی رہے۔ اوپر والوں نے جب چاہا سیاسی اتحاد بنا لیا اور جب چاہا نفرت ترک کرکے محبت کو دوام بخشا مگر نیچے والے محبت اکھاڑتے اور نفرت پالتے ہی رہے۔ یہ بھی نہیں دیکھا کہ جب، ہر دلعزیز، مقتدر نے چاہا کوا سفید کرلیا۔ جب اشرافیہ نے چاہا کوا کالا کرلیا۔ایک چہرے پر کئی چہرے ہوں تو اصل شکل نکلتی ہے نہ نظر آتی ہے پس آمریت کا امرت واضح ہوا کبھی نہ زہر کو سمجھا کوئی۔ نظام کبھی بلینڈڈ ہوتے رہے تو کبھی ہائبرڈ مگر ہمارے ہاں یہ نظام نامی نظام کبھی نتیجہ خیز نہ ہوسکے۔

ریاست مدینہ کا عزم یا نعرہ خواب ہے نہ افسانہ، یہ عزم اور یہ ارادہ قابل عمل ہے اور درست بھی۔ سول سرونٹس کی تفویض اور کردار سے انسداد دہشت گردی اور قیام امن تک کے اسباق ریاست مدینہ میں موجود تھے۔جانے کیوں سیاست دانوں کی تمام تر خامیوں کے باوجود ان چار عشروں میں مجھے بیوروکریسی اور ’’معزز‘‘ بگاڑ کے زیادہ ذمہ دارکیوں لگے ہیں؟ بہرحال کل کے اسٹیٹس کو والوں سے لے کر آج کے تبدیلی والے بھی جونیئر بیوروکریٹ کو اٹھاتے ہیں اور اعلیٰ عہدے پر بٹھا دیتے ہیں۔ اس کے دو نقصان ہوتے ہیں۔1- بڑی سیٹ پر چھوٹا آدمی سول سرونٹ کے بجائے پرسنل سرونٹ بن جاتا ہے۔ 2- قبل از وقت بڑا عہدہ ملنے اور وزرائے اعلیٰ کے میرٹ کو بائی پاس کرنے کی پاداش میں اس افسر کا دماغ اس قدر فلک بوس ہوجاتا ہے کہ خادم کے بجائے حاکم بن بیٹھتا ہے مگر یہی مکالمہ جب ہم اپنے کانسٹیٹیوشنل قانون دان دوستوں سے کرتے ہیں تو میاں سہیل انور اور وقار نقوی سے دوست کہتے ہیں کہ، عدلیہ اگر ٹھان لے کہ تبدیلی کو منزل مراد پر لاکر چھوڑنا ہے تو سب راستے شارٹ ٹرم ارتقا کے بعد ہموار ہوجائیں گے تاہم اپنا یہ خیال ہے کہ عدالتی نظام کو بھی بیوروکریسی اپاہج کردیتی ہے۔ چلیں، ان سب باتوں کے باوجود ایسا کہیں اور قطعی نظر نہیں آرہا کہ ملت لاعلاج مرض کا شکار ہے۔ سب کچھ قابل علاج ہے اگر ہم احتساب کی روح کو سمجھ لیں۔ اور احتساب کی روح سمجھنا بھی کوئی راکٹ سائنس نہیں تاہم نیت کی درستی راکٹ سائنس ہوسکتی ہے۔

راقم نیب کے بڑے وکلاء کی خدمت میں ایک سوال لے کر حاضر ہوا کہ، آخر ہمارے ہاں بڑا مرض ہے کیا؟ ہم شفاف احتساب کی شاہراہ پر گامزن کیوں نہیں ہوسکتے؟ اس ضمن میں نیب کیسز میں 24 گھنٹے مصروف خاور شاہ، میاں سہیل انور ،حسنین رضا باروی اور متعدد وکلا کا یہی کہنا تھا کہ ہمارا تھیسس ہے کہ، ترقی یافتہ ممالک میں وائٹ کالر کرائم پر فوری گرفتاری نہیں ہوتی۔ پہلے مکمل تفتیش سے گزرا جاتا ہے اور جب ہاتھ ڈل جائے تو پھر جان نہیں چھوٹتی کیونکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی پہلے ہوچکا ہوتا ہے، بعد میں پانی میں مدھانی نہیں ڈالی جاتی۔ میرا سوال یہ تھا کہ اسٹیٹ کو نقصان بےشک پہنچتا رہے ؟ جواب یہ ملا کہ پہلے تو ٹرانزیکشن وغیرہ اسٹاپ کردی جاتی ہیں یا اکاؤنٹس منجمد ہوتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ وائٹ کالرڈ کرائم بہرحال کرائم ضرور ہے مگر یہ براہ راست نقصان پہنچانے والا کم اور فائدہ اٹھانے والا زیادہ ہوتا ہے پس عدم ثبوت کو جب تک ثبوت کی استقامت میسر نہ آجائے تب تک محنت رائیگاں رہتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہم انتقام کی راہ پر زیادہ گامزن رہتے ہیں قانون کی راہ پر کم، سو کیس دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں اور آخر کسی نتیجہ کے ہونے کے باوجود نتیجہ خیز نہیں ہو پاتے۔ ہم نے کیا کہنا ہے، پچھلی جمعرات بے جا ہراساں ، شواہد کی عدم دستیابی اور اختیارات کے غلط استعمال کے تناظر میں عزت مآب چیف جسٹس سپریم کورٹ نے فرمایا ہے کہ 90روزہ نیب ریمانڈ ظلم ہے!

گو لوگ پریشان ہیں اور پی ڈی ایم متحرک مگر پھر بھی عمران خان گر ارادہ کرکے ریاست مدینہ کی کوشش کا آغاز ریاست مدینہ سے احتساب اور خوداحتسابی کرتے ہیں تو راستے کی سب رکاوٹیں دور ہوجائیں گی۔یہ جان جمہوریت ہی تو ہے جس کی آغوش ہی انسانی حقوق اور احتساب کی ضمانت ہے۔ ورنہ تو 4 دہائیاں ہمیں بھی ہوگئیں جانِ جاناں کی تلاش میں، جو بہاروں کی ثبات ہے اور سماجی و سیاسی درخشاں حیات بھی!