غذائی قلت ایک سنگین مسئلہ

December 06, 2020

گزشتہ کئی ماہ سے جاری آٹے اور چینی کا بحران تمام تر حکومتی دعوئوں کے باوجود ختم ہونے کو نہیں آ رہا۔ یہ حقیقت ہے کہ ملک کی بیشتر آبادی دیہاتوں میں رہتی ہے اور فصل کی کٹائی پر اپنی ضروریات کے مطابق سال بھر کا غلہ سٹاک کرلیتی ہے مگر اس کے باوجود کروڑوں غریب اور متوسط طبقے کے لوگ اشیائے خورونوش کی کمیابی اور گرانی سے سخت پریشان ہیں۔ آٹے، چینی، سبزیوں، دالوں، مرغی کے گوشت اور انڈوں کی قیمتیں آسمانوں کو چھو رہی ہیں اور یہ سب عوام کی بنیادی ضروریات ہیں۔ کورونا اور بعض دوسرے عوامل کی وجہ سے ملک کے معاشی حالات ابتر ہیں۔ کاروبار اور صنعتی پیداوار مندی کا شکار ہے جس کی وجہ سے لوگوں کی قوتِ خرید میں کمی اور بیروزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے جب کہ مہنگائی کا عفریت عام آدمی کی زندگی کو شدید متاثر کر رہا ہے۔

حکومت اپنی مقدور بھر کوشش کر رہی ہے کہ گرانی پر قابو پایا جائے خصوصاً آٹے اور چینی کے بحران کے خاتمے کیلئے بیرون ملک سے گندم اور چینی درآمد کی گئی ہے مگر قیمتوں میں استحکام ابھی تک نہیں آسکا۔ بعض فلور مل مالکان معیاری آٹے کے نام پر پندرہ کلو آٹے کا تھیلہ بیس کلو تھیلے کی قیمت میں فروخت کر رہے ہیں۔ امپورٹڈ چینی تمام دوکانوں پر کنٹرول ریٹ پر دستیاب ہے مگر لوگوں کی اکثریت مقامی گنے سے تیار شدہ چینی مہنگے داموں خرید رہی ہے۔ مرغی اور انڈے کا ریٹ ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے جس کی وجہ پیدواری لاگت میں اضافہ اور گزشتہ دو سالوں کے مندے کی وجہ سے پیداوار میں کمی بتائی جاتی ہے۔ انٹرنیشنل مارکیٹ میں جب تک سویا بین کی قیمتوں میں کمی اور ملک میں مکئی کی نئی فصل نہیں آ جاتی‘ پولٹری کی قیمتوں میں کمی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ گزشتہ برس گندم کا کچھ پرانا اسٹاک فیڈ ملوں کو دے دیا گیا تھا جس کی وجہ سے گندم کے ریزرو اسٹاک میں کمی واقع ہو گئی تھی۔ کئی سبزیوں کی قیمتوں میں حالیہ کچھ دنوں میں کمی آئی ہے جبکہ ٹماٹر، پیاز، ادرک، لہسن کی قیمتوں میں کمی کا امکان نہیں ہے کیونکہ یہ باہر سے آتی ہیں۔ آلو جو پوری دنیا میں بڑے شوق سے کھایا جاتا ہے، نئی فصل کے آنے کے بعد اس کی قیمتوں میں کافی حد تک کمی آ سکتی ہے۔

پرائس مجسٹریٹ اور ضلعی حکومتوں کے اہلکار قیمتوں میں کمی کیلئے کوشاں ہیں مگر حقیقی معنوں میں عوام کو ریلیف نہیں مل رہا۔ گزشتہ دور حکومت میں سابقہ وزیر اعلیٰ شہباز شریف کے نزدیک تصور کئے جانے والے تمام افسران موجودہ حکومت میں بھی اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں مگر ان کی کارکردگی مایوس کن رہی ہے۔ سابق وزیر اعلیٰ سختی سے پیش آتے تھے جبکہ موجودہ وزیر اعلیٰ ایک شریف اور سادہ منش انسان ہیں جس کی وجہ سے گھاگ افسر اور متعدد وزیر کنٹرول سے باہر ہو رہے ہیں اور حکومت پوری طرح ڈیلیور نہیں کر پا رہی۔ موسمی تغیریات اور ناموافق حالات اپنی جگہ، حکومت کے پالیسی سازوں میں اتنی قابلیت اور صلاحیت ہونی چاہئے کہ طلب و رسد کے عدم توازن کو بھانپتے ہوئے فوری فیصلے کریں اور کسی قسم کے لالچ، ذاتی فائدے یا دبائو کو خاطر میں نہ لائیں ۔

دنیا بھر میں غذائی قلت کا شکار لوگوں کی تعداد بڑھ رہی ہے، افریقہ اور ایشیا کے متعدد ممالک اس فہرست میں شامل ہیں جہاں لوگوں کی بڑی تعداد کو غذا کی کمی کا سامنا ہے۔ پاکستان اگرچہ ایک زرعی ملک ہے مگر بڑھتی ہوئی بے ہنگم آبادی، پانی کی قلت، موسمی تبدیلی، زرخیز زمینوں پر بے دریغ تعمیرات اور ناقص حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے یہ خطرہ پیدا ہو گیا ہے کہ ملک کی آبادی کا بڑا حصہ آنے والے سالوں میں غربت، افلاس، بھوک اور بیماری کا شکار ہو سکتا ہے۔ اس خوفناک صورتحال سے بچنے کیلئے نہ صرف حکومتی بلکہ عوامی سطح پر ہنگامی اقدامات کی ضرورت ہے۔ ملک بھر میں پانی کے ذخائر کی تعمیر کے علاوہ ڈسٹری بیوشن سسٹم بہتر کرنا ہوگا۔ ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ پر توجہ دینا ہوگی۔ زمینوں، فصلوں اور بیجوں کی کوالٹی کو بہتر بنانا ہو گا تاکہ زیادہ پیدوار حاصل ہو سکے۔ زراعت، خوراک اور دوسرے اداروں کو فعال بنانا ہوگا، ڈیری اور فش فارمنگ پر توجہ دینا ہوگی۔ بنجر زمینوں کو آباد اور زرخیز زمینوں کو تعمیرات سے بچانا ہوگا، سب سے بڑھ کر آبادی میں اضافے کو روکنا ہوگا تاکہ ایک صحت مند اور خوشحال معاشرہ وجود ہیں آسکے۔

(صاحب مضمون سابق وزیر اطلاعات پنجاب ہیں)