خوشبو

May 12, 2013

یہ غالباً ساتویں جماعت کی بات ہے، اسکول میں امتحانات ہورہے تھے، اس روز ریاضی کا پرچہ تھا۔ اچھے بچوں کی طرح میں نے بھی امتحا ن کی خوب تیاری کر رکھی تھی، جونہی پرچہ شروع ہوا مجھے چھینکیں آ نی شروع ہو گئیں۔ دو چار چھینکوں کو میں نے کوئی لفٹ نہیں کروائی مگر جب ان کی شدت میں اضافہ ہو گیا تو میں نے ادھر ادھر نظر دوڑائی، پتہ چلا کہ امتحان کی نگرانی پر مامور ”مس“ جونہی پاس سے گزرتیں میری چھینکیں شروع ہو جاتیں اور جب وہ ذرا پرے ہوتیں تو چھینکیں ختم ہو جاتیں ۔میں نے ریاضی کا پرچہ سائیڈ پر رکھا اور اس گھمبیر مسئلے پر غور شروع کر دیا، بالآخر میں اس نتیجے پر پہنچا کہ نگران میڈم نے جو پرفیوم لگا رکھا تھا اس کی مہک جونہی میری ناک کو چھوتی مجھے چھینکیں شروع ہو جاتیں ۔گھر آ کر میں نے قبلہ والد صاحب سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے حسب عادت قہقہہ لگاتے ہوئے کہا ”تمہاری میڈم نے یقینا کوئی سستا پرفیوم لگایا ہوگا جس کی وجہ سے تمہارا چھینک چھینک کر یہ حال ہو گیا ۔“اس دو نمبر پرفیوم کی بدولت ریاضی میں پہلی مرتبہ میرے اسّی فیصد سے بھی کم نمبر آئے!
صبح صبح دفتر جانے کیلئے تیارہوتے وقت جب ہم خوشبو لگاتے ہیں تو ہمیں ایک عجیب طرح کے مہذب پن کا احساس ہوتا ہے ،شاید اسکی وجہ یہ ہے کہ کوئی بھی جانور صبح اٹھ کر شیو نہیں کرتا ،آفٹر شیو لوشن نہیں لگاتا اور پھر اپنے بدن پر خوشبو چھڑک کر شکار کیلئے نہیں نکلتا جبکہ ہم انسان اپنی تراش خراش اور وضع قطع خوبصورت بنانے کے بعد ”شکار“ کیلئے نکلتے ہیں ۔ چہرے پر ایک خوبصورت سی مسکراہٹ سجا کر، جب ہم لوگوں سے ملتے ہیں تو اس وقت ہم تہذیب اور شائستگی کے قطب مینار پر کھڑے ہوتے ہیں لیکن حقیقت میں ہم سے بہتر کوئی نہیں جانتا کہ اندر سے ہم انسان کس قدر سفاک اور بے رحم واقع ہوئے ہیں ۔ہماری محبتوں کے پیچھے نفرتوں کا سمندر ٹھاٹھیں مارتا ہے ،ہمارے پیار کا جذبہ درحقیقت ہمارے تکبر کے تابع ہوتا ہے ،ہماری رحم دلی کے پس منظر میں ہماری انا کی تسکین چھپی ہوتی ہے اور اپنے اندر کی بدبو کو ہم پرفیوم سے معطر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ وہی خوشبو ہے جسے انسان سفاکانہ طریقے سے کشید کرتا ہے اور پھر منافقت میں لتھڑے ہوئے اپنے بدن پر مل کر خود کو مہذب خیال کرتا ہے ۔ہماری اس خوشبو کے پیچھے کس قدر سفاکی چھپی ہوئی ہے اسکا اندازہ مجھے اس وقت تک نہیں ہوا جب تک میں نے ساتویں جماعت کی اردو کی کتاب میں پرفیوم کی تیاری سے متعلق یہ مضمون نہیں پڑھا تھا:
”فرانس میں تیار ہونے والا پرفیوم نہایت قیمتی اور لاجواب ہوتا ہے ۔اس میں ہزاروں قسم کے پھول پتیوں کے علاوہ جانوروں کے وہ اجزا ء بھی ملائے جاتے ہیں جنہیں عام حالات میں کوئی انسان دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتا۔ ان میں جنگلی بلی کے گردن کے غدود شامل کئے جاتے ہیں۔ یہ خوشبو کو دیر تک برقرار رکھنے کیلئے ڈالے جاتے ہیں تاہم ان میں کوئی ایسی کیمیاوی چیز ملا دی جاتی ہے جو ان کی بدبو ختم کر دیتی ہے ۔پرفیوم کا ایک لازمی جزو امکسٹوریم بھی ہوتا ہے جو روسی سائبیریا میں خرگوش کے برابر ایک جانور امکسٹر کی چربی سے تیار کیا جاتا ہے ۔بہت زیادہ قیمتی خوشبو بنانے کے لئے ایک دوسرا مادہ حبشہ میں پائے جانے والے سیفٹ نام کے جانور سے حاصل کیا جاتا ہے ۔اس کے حصول کا طریقہ نہایت ظالمانہ ہے ۔بلی کے برابر اس ننھے جانور کو زندہ پکڑ کر اس کے جسم کو چھری سے گود دیا جاتا ہے ۔اپنے زخموں کو مندل کرنے کے لئے یہ جانور ایک خاص قسم کا مادہ خارج کرتا ہے جسے بڑی احتیاط سے علیحدہ کیا جاتا ہے ۔یہی مادہ پرفیوم سازی میں سب سے زیادہ قیمتی ہوتا ہے اور ہزاروں پاؤنڈ فی کلو تک فروخت کیا جاتا ہے۔پرفیوم میں دوسرا قیمتی مادہ مشک ہے جو ایک خاص قسم کے ہرن کی ناف سے حا صل ہوتا ہے ۔عطر کا ایک لازمی عنصر عنبر ہوتا ہے جو شارک مچھلی سے حاصل کیا جاتا ہے ۔کہتے ہیں کہ جب مچھلی جہاز کے پیچھے چلتی ہے تو رستے میں جو کچھ ملتا ہے اسے ہڑپ کرتی جاتی ہے ،یہاں تک کہ جہاز کے چھوڑے ہوئے تیل کو بھی چٹ کر جاتی ہے جس کی وجہ سے اس کے جسم میں زخم ہو جاتے ہیں ۔زخموں کو مندل کرنے کے لئے یہ ایک مادہ خارج کرتی ہے یہ مادہ دس دس ،پندرہ پندرہ کلو تک ہوتا ہے اور جس شکاری کے ہاتھ لگ جائے وہ پلک جھپکتے میں لکھ پتی بن جاتا ہے ۔“
یہ انسان کی بے رحمی کی ایک معمولی سی جھلک ہے اور یہ جھلک اس دنیا سے آئی ہے جہاں کا انسان ہم سے زیادہ مہذب مانا جاتا ہے ،جہاں ادویات کے لیبل پر درج ہوتا ہے کہ اس کی تیاری میں کسی جانور کو تکلیف نہیں پہنچائی گئی۔ یہ اور بات ہے کہ وہاں کے ڈاکٹر اکثر ادویات کا تجربہ کرنے کے لئے ہم جیسے غریب ملکوں کے انسانوں کو جانوروں پر ترجیح دیتے ہیں کیونکہ ان کا جرمن شیپرڈ کی جان ہمارے جمّن خان سے زیادہ قیمتی ہے ۔لیکن ہم بھی کسی سے کم نہیں، جس دنیا میں ہم رہتے ہیں وہاں انسان ایک دوسرے کو ذبح کرتے ہیں اور ان ذبح کرنے والے قصائیوں کے حامی سوٹ بوٹ پہن کر یا شرعی وضع قطع میں آپ کے اور میرے درمیان پھرتے ہیں اور ہم انہیں پہچاننے کے باوجود ان کی حمایت پر آمادہ نظر آتے ہیں، کیا ایسی دنیا میں مہذب کہلانا لطیفہ نہیں؟ہم انسانوں کے چہروں پر اگر نقاب اوڑھ دیا جائے اور پھر ایک ایسے جزیرے پر چھوڑ دیا جائے جہاں کوئی ایک دوسرے کو نہ جانتا ہو تو بے شک ہم درندوں کو بھی مات دے ڈالیں گے ۔ روز مرہ زندگی میں چونکہ ہم نقاب نہیں اوڑھ سکتے لہٰذا روزانہ مختلف قسم کی خوشبوئیں اپنے بدن پر مل کر گھر سے نکلتے ہیں ۔کوئی اپنے گناہوں کے جسم پر پارسائی کا پرفیوم ملتا ہے، کوئی اپنی نفرت کو چھپانے کیلئے محبت کا دو نمبر عطر لگا لیتا ہے اورکسی کے جسم سے تکبر کی خوشبو آتی ہے۔ پارسائی، محبت اور عاجزی کے دعویدار اگر ان منافقانہ خوشبوؤں کے بغیر کہیں مل جائیں تو انکے پاس کھڑا ہونا مشکل ہو جائے۔ بے شک انسانی نفسیات کو سمجھنا مشکل ترین کام ہے۔ میں نے کہیں پڑھا تھا کہ ”اگر تم کسی انسان کا اصلی چہرہ دیکھنا چاہتے ہو تو اسے نقاب پہنا دو!“ یہ کسی عظیم فلسفی کا قول ہے جس کا نام مجھ نالائق ”فلسفی“ کو یاد نہیں رہاتاہم انسانوں کی منافقت کی اس سے بہتر تشریح ممکن نہیں ۔
پس تحریر: جیو کی الیکشن ٹرانسمیشن اس وقت اپنے عروج پر ہے ،مجھے بھی اس میں شرکت کی دعوت تھی مگر چندذاتی وجوہات کی بناء پر نہ جا سکا۔اب تک جو نتیجہ آنا تھا آ چکا اور جو ہونا تھا ہو چکا لیکن سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ تمام بزرجمہر جنہوں نے سازشی تھیوریوں کے پیش نظر انتخابات کے نہ ہونے کے خدشات کا بار ہا اظہار کیا تھا ، اس وقت وہ سارے جیوتشی کسی نئی سازش کے منتظر ہوں گے، خدا ان کے اور ہمارے حال پر رحم کرے ،آمین!