سچ تو یہ ہے کہ

May 12, 2013

”یہ اسلام پسندوں کی سر زمین ہے۔ بانیانِ پاکستان نے پاکستان کو لبرل ازم کیلئے نہیں بنایا تھا۔ لبرل ہونے کا مطلب امریکہ ویورپ کی غلامی ہے۔ جو اپنے آپ کو لبرل کہتے ہیں، وہ اپنا نام اقلیتوں میں درج کرالیں۔“ یہ الفاظ سید منور حسن کے ہیں جو انہوں نے مزارِ قائد پر کہے۔ قارئین! ان دنوں یہ بحث زوروں پر ہے اور اس میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے پاکستان بنانے کا مقصد کیا تھا؟ اور اس میں نظام کیا ہونا چاہیے؟ سیکولر طبقات اس بات کی ترویج کررہے ہیں پاکستان میں مذہب کا کوئی عمل دخل نہیں ہونا چاہیے، صرف اسی طرح یہ ملک ترقی کرسکتا ہے اور وہ اس کے لئے بطورِ دلیل مغرب کو پیش کرتا ہے۔ ان طبقات کو یہ مشکل اس لیے پیش آرہی ہے کہ مغرب ایک طویل عرصے تک ”مذہبی“ تھا، لیکن وہاں پاپائیت نے ہی اعتدال پسندوں کو باغی بنادیا۔ پندرہویں صدی کے ماہر فلکیات اور نامور فلسفی ”گیلیلو“ (Galileo) نے یہ نظریہ کہ ”زمین سورج کے گرد گھومتی ہے نہ کہ سورج زمین کے گرد چکر لگاتا ہے۔“ اس وقت پیش کیا تھا جب کہا جاتا تھا زمین ساکت ہے اور زمین ہی مرکزِ کائنات ہے۔ اس وقت وہاں پاپائیت کا غلبہ تھا۔ اس نظرئیے کو کوئی قبول کرنے کے لئے تیا ر نہ تھا۔اس کی پاداش میں گیلیلیو کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ قید تنہائی میں ڈالا گیا۔ جب عدالت میں پیش کیا گیا تو گیلیلیو نے جج کے سامنے ذومعنی الفاظ استعمال کرتے ہوئے اپنی غلطی کا اعتراف تو کرلیا لیکن جب احاطے سے باہر نکلے تو بے ساختہ زبان سے نکلا: ”سچ تو یہ ہے کہ زمین گھومتی ہے۔ اس سے انکار کوئی مجنون ہی کرسکتا ہے۔“
مغربی ممالک میں ساری قوت اور طاقت کا سرچشمہ مذہبی طبقہ تصور ہوتا تھا اور یہ مذہبی طبقہ ترقی کا مخالف تھا۔ یہ مذہبی طبقہ اتنا مضبوط تھا کہ یہ چاہتا تو حلال کو حرام قرار دیتا اور حرام کو حلال گردان دیتا۔ یہ لوگوں میں بخشش کے پروانے جاری کرتا۔ اس نے لوگوں کو استحصال کیا تھا۔ یہ عیسائی مذہبی طبقہ اپنی من مانی سے مذہب کی خوفناک تشریح کرتا تھا۔ جو ان کی مرضی میں آتا تھا، اسے مذہب کا نام دے کر لوگوں کا استحصال کرتے تھے۔ انہوں نے ترقی اور خوشحالی کے تمام راستے بند کررکھے تھے۔
”مذہب“ کے نام پر عیسائی مذہبی طبقے نے اپنی قوم کا استحصال کررکھا تھا، لیکن اس کے مقابلے میں آپ اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ دیکھ لیں۔ اسلام جامد مذہب نہیں ہے۔ یہ ہر زمانے اور ہر دور کے لئے قابل قبول ہے۔ جب بھی مسلمانوں کی حکومت آئی، مسلمان دنیا کی ترقی یافتہ قوم بن گئی۔ خلافت راشدہ اسلامی نظام کی عمل مثال تھی۔ اس میں جتنی ترقی ہوئی، اس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ وہ جدید قوانین جو آج کے یورپ میں ”عمر لاز“ کے نام سے موجود ہیں، مسلمان خلیفہ ہی کا کارنامہ تھا۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ دین اسلام کی تمام تعلیمات آج بھی ویسے ہی ہیں، جس طرح آج سے 14 سو سال پہلے تھیں۔ کوئی اسلامی مذہبی طبقہ ایسا نہیں کرسکتا کہ مذہب کی اپنی من مانی تشریح کرے۔ اگر کوئی ایسا کرتا ہے اس کے مقابلے میں علمائے حق میدان میں نکل آتے ہیں۔ یہ اس دین پر اللہ کی خاص مہربانی ہے کہ کوئی اسے اپنی مرضی کے مطابق، اپنے مفاد کے لئے استعمال نہیں کرسکتا۔
اصل یہی وہ فرق ہے جو سیکولر قوتوں کو سمجھ نہیں آرہی۔ جس دن انہیں معلوم ہوجائے گا کہ مغربی مذہبی طبقے اور مشرقی مذہبی طبقے میں زمین آسمان کا فرق ہے، تب ان کی ذہنی کی پراگندگی خود بخود ختم ہوجائے گی۔ پھر یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ آخر سیکولر طبقہ کیوں اس بات پر تُلا ہوا ہے کہ یہاں کا نظام سیکولرازم ہونا چاہیے، جبکہ ہمارے پاس ایک متفقہ آئین موجود ہے۔ ایسا آئین جسے دنیا کا بہترین آئین کہا جاسکتا ہے۔ پاکستان کے سیکولر طبقات کو آخر پاکستان کے اسلامی تشخص سے کیا مشکلات درپیش ہیں؟ کیا پاکستان کے تمام مسائل کا سبب دین اسلام ہے؟ پاکستان کے ان طبقات کو معلوم ہے کہ پاکستان میں 65 سالوں میں اکثر حکمرانی سیکولر ذہن کے حکمرانوں نے ہی کی ہے۔ اگر صرف سیکولرازم سے ہی ممالک چلتے تو پاکستان دنیا کے بہترین ممالک میں سے ہوتا۔ ہم پہلے بھی کئی بار یہ عرض کرچکے ہیں کہ پاکستان اور مغرب کا تقابل کرنا اس لئے بھی مناسب نہیں کہ ہماری اور ان کی بنیاد میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ان کے پاس کوئی نظام نہیں، جبکہ ہم ایک درخشندہ ماضی رکھنے والے نظام کے علمبردار ہیں۔ اسی طرح اگر پاکستان کے آئین کو نہ ماننے کی پاداش میں صوفی محمد مطعون قرار پاتے ہیں تو پھر یہ سیکولرطبقات پاکستان کے آئین کی موجودگی میں دیگر نظاموں کی بات کیوں کرتے ہیں؟
ان ذہنوں کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے اسلام کا مطالعہ نہیں کیا۔ وہ سمجھتے ہیں اسلامی نظام کی آمد سے سب کچھ تلپٹ ہوجائے گا۔ اقلیتوں پر ظلم وستم ہوگا۔ انہیں دیوار سے لگادیا جائے گا۔ انہیں زبردستی ڈاڑھیاں رکھوائی جائیں گی۔ انہیں مسجدوں کی طرف زبردستی جانے پر مجبور کیا جائے گا۔ حالانکہ ان کو معلوم نہیں کہ اسلام میں کوئی زبردستی نہیں۔ خصوصاً غیرمسلموں کے لئے اسلام کے قوانین ہیں۔ انہیں اپنے دین پر عمل پیرا ہونے کی مکمل آزادی ہے۔ ہاں! اگر کوئی مسلمان اپنے آپ کو ”مسلمان“ کہہ کر بھی اسلام کے اصول وضوابط کے مطابق نہ چلے اس کے لئے ضرور کچھ ضابطے مقرر ہیں اور اس کی مثال بالکل ایسی ہے جس طرح کسی ملک کی فوج ہوتی ہے۔ اس کا ڈسپلن ہوتا ہے۔ اب اگر کوئی شخص اُٹھ کھڑا ہو اور کہنا شروع کردے کہ یہ فوج اپنے سپاہیوں اور افسروں پر ظلم کرتی ہے۔ کیوں صبح سویرے انہیں اُٹھاکر ان سے کئی کلومیٹر دوڑ لگوائی جاتی ہے؟ کیوں انہیں شدید گرمی اور سردی میں مارچ کرایا جاتا ہے؟ کیوں انہیں ان کی غلطیوں پر سزا دی جاتی ہے؟ کیوں انہیں بڑی غلطی پر کورٹ مارشل کیا جاتا ہے؟ کیوں کسی اور ملک کے ساتھ وفاداری کی صورت میں انہیں موت کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟ کیونکہ فوج میں داخل ہونے کے لئے کسی پر زبردستی نہیں کی جاتی۔ جو خود اپنی مرضی سے جاتا ہے، اسے ان سب باتوں، مشکلات اور احکام کا علم ہوتا ہے۔یہی مثال اسلام کی ہے۔ اس پاکستان کی ہے۔ اگر کسی نے اسلام قبول نہیں کیا ہے تو یہاں اس پر کوئی زور زبردستی نہیں اور اسلامی حکومتوں میں انہیں مکمل تحفظ بھی حاصل رہا ہے، لیکن جس نے اسلام قبول کیا ہے، اس کے لئے ضرور اسلام کچھ ضابطے مقرر کرتا ہے او ریہ ضابطے ظلم کے زمرے میں نہیں آتے، بلکہ انسانیت کی بقا کے لئے ہوتے ہیں۔ اگر امریکہ وبرطانیہ کے انسانوں نے کچھ ضابطے مقرر کررکھے ہیں اور اسے وہاں کے لوگ حرزِ جان بناتے ہیں تو کیوں نہ ہم دنیا کی بہترین ہستی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت کو اپنے لئے سرمایہ بنائیں! اب اگر کوئی شخص اپنے آپ کو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے نظام کا پابند نہیں سمجھتا۔ اسے اس پابندی میں مشکلات پیش آتی ہیں تو اس کے لیے اس سے اچھا مشورہ کیا ہوسکتا ہے کہ وہ اپنا نام اقلیتوں میں درج کرالے۔