پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا مہم، مزید انکشافات، بھارتی اسٹیک ہولڈرز ملوث، یورپی ادارے، ’’را‘‘ کیخلاف تحقیقات کا مطالبہ

December 11, 2020

پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا مہم، مزید انکشافات

کراچی (نیوز ڈیسک) پاکستان کیخلاف بھارت کی پراپیگنڈا مہم میں مزید انکشافات سامنے آئے ہیں ، یورپی ادارے ڈس انفو لیب کے عہدیدار گیری مچاڈو نے بی بی سی کو بتایا کہ انہیںبلا شبہ اس بات کا یقین ہے کہ یہ آپریشن انڈین اسٹیک ہولڈرز چلا رہے ہیں، پاکستان مخالف بھارتی جعلی نیوز نیٹ ورک کا بھانڈا پھوڑنے والے تحقیقی ادارے ʼای یو ڈس انفو لیب کے محققین نے جعلی نیوز نیٹ ورک کے حوالے سے بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کیخلاف تحقیقات کا مطالبہ کردیا ہے ، یورپی یونین میں فیک نیوز کے حوالے سے کام کرنے والے تحقیقی ادارے ʼای یو ڈس انفو لیب کے مطابق ایک مردہ پروفیسر، کئی غیر فعال تنظیمیں اور 750 جعلی مقامی میڈیا آگنائزیشنز کو 15 سال سے جاری وسیع عالمی ڈس انفارمیشن منصوبے ، انڈین مفادات کو فائدہ پہنچانے اور پاکستان کیخلاف پراپیگنڈے کے لیے دوبارہ فعال بنایا گیا ہے۔ڈس انفو لیب کے عہدیدار گیری مچاڈو کا کہناہے کہ آپ تصور کریں کہ ʼاگر یہ نیٹ ورک روس یا چین کا ہوتا تو اس وقت ساری دنیا میں اس کے بارے میں رد عمل سامنے آتا اور بین الاقوامی طور پر اس کی مذمت کی جاتی اور تحقیقات کرنے کا مطالبہ کیا جاتا، یورپی پارلیمان سے منسلک ذرائع نے بھی موجودہ حفاظتی نظام پر سوال اٹھایا اور انہیںمحض ایک مذاق قرار دیتے ہوئے کہا کہ یورپی یونین اور پارلیمان کی ساری توجہ روس اور چین پر ہوتی ہے اور اب وقت آ گیا ہے کہ ʼیورپ سے باہر دیگر ممالک سے چلائے جانے والے اس نوعیت کے آپریشنز پر غور کیا جائے، ای یو ڈس انفو لیب نے اس نیٹ ورک کے پیچھے سری واستوا گروپ کو ملوث پایا تھا لیکن وہ اس سے زیادہ معلومات یا حتمی طور پر یہ ثابت نہیں کر سکے کہ آیا کوئی اور بھی اس میں ملوث ہے۔انڈین کرونیکلزکے نام سے بدھ کو جاری ہونے والی اس نئی تحقیق کے مطابق اس منصوبے کے تحت جس شخص کی شناخت کو چرا کر دوبارہ زندہ دکھایا گیا ہے اسے درحقیقت انسانی حقوق کے قوانین کے بانیوں میں سے شمار کیا جاتا ہے اور ان کی 2006 میں 92 سال کی عمر میں وفات ہو گئی تھی۔ای یو ڈس انفو لیب کے ایگزیکیٹو ڈائریکٹر ایلیگزانڈر الافیلیپ نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے ڈس انفارمیشن پھیلانے کی غرض سے مختلف اسٹیک ہولڈرز پر مشتمل کسی نیٹ ورک میں اتنی ہم آہنگی نہیں دیکھی۔ایلیگزانڈر الافیلیپ کہتے ہیں کہ ʼہم نے اس نوعیت کا اتنا بڑا نیٹ ورک اس سے قبل کبھی نہیں دیکھا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ گذشتہ سال اس نیٹ ورک کے بارے میں تحقیق سامنے لانے کے باوجود اس نے اپنے کام کو جاری رکھا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کتنا مضبوط اور بااثر نیٹ ورک ہے۔اس کے علاوہ اس نیٹ ورک کی حکمت عملی کا بڑا اہم جزو ہے کہ میڈیا کے جعلی مقامی اداروں پر شائع ہونے والی خبروں کو انڈیا کی سب سے بڑی نیوز وائر ایجنسی ایشین نیوز انٹرنیشنل (اے این آئی) کے ذریعے معتبر ظاہر کرے اور مزید آگے پھیلائے۔یہاں یہ بتانا ضروری ہوگا کہ معتبر انڈین جریدے دا کاراوان میں اے این آئی اور انڈین حکومت اور انڈین خفیہ اداروں کے درمیان تعلقات پر مضون شائع ہوا تھا جس میں بتایا گیا کہ اے این آئی کے سربراہ سنجیو پرکاش کی اہلیہ سمیتا پرکاش کے والد نے انڈیا کے چار سابق وزا اعظم کے ساتھ بطور حکومتی ترجمان کام کیا اور اس کی مدد سے اے این آئی کی حکومتی حلقوں میں بہت پہنچ ہے۔بی بی سی نے اس تحقیق کے حوالے سے اے این آئی کو سوالات بھیجنے لیکن انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔اپنی تحقیقی رپورٹ میں محققین نے اس بات پر زور دیا کہ وہ ʼیقینی طور پر یہ بالکل نہیں کہہ سکتے کے انڈین کرونیکلز کے چلانے والوں میں انڈیا کی خفیہ ایجنسی کا ہاتھ ہے لیکن مزید یہ بھی لکھا کہ اس بارے میں مزید تحقیق و تفتیش ہونی چاہیے۔ڈس انفارمیشن نیٹ ورکس پر گہری نظر رکھنے والے معتبر تجزیہ کار بین نمّو نے بی بی سی کو بتایا کہ ʼیہ انتہائی مستقل مزاج اور پیچیدہ نوعیت کا آپریشن ہے لیکن انہیں بھی واضح نہیں تھا کہ اس کے پیچھے کون ہو سکتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں ایسی چند مثالیں ضرور موجود ہیں کہ نجی طور پر کافی بڑے ٹرول آپریشن چلائے گئے ہیں اور ʼصرف کہنا کہ یہ بہت بڑا آپریشن تھا، اس بات کو ثابت نہیں کرتا ہے کہ اس کے پیچھے براہ راست کسی حکومت یا کسی حکومتی ادارے کا ہاتھ ہو۔تاہم جب بی بی سی نے اس حوالے سے انڈین حکومت سے سوالات بھیجے تو وہاں سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ای یو ڈس انفو لیب کے مطابق اس تحقیق کی سب سے اہم بات اقوام متحدہ سے تسلیم شدہ دس این جی اوز کا سری واستوا گروپ سے براہ راست تعلق ثابت کر دینا تھی۔اس کے علاوہ ساڑھے پانچ سو سے زیادہ نیوز ویب سائٹس، متعدد مشکوک این جی اوز اور کئی غیر فعال ادارے اور تھنک ٹینکس کا بھی سری واستوا گروپ سے براہ راست تعلق اس تحقیق میں ثابت کیا گیا جو کہ بین الاقوامی سطح پر انڈین مفادات کو پھیلاتی اور پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کرتی تھیں۔تحقیق کے مطابق سری واستوا گروپ کے اس آپریشن کا آغاز سنہ 2005 کے آخر میں ہوا جو کہ یو این ایچ آر سی کے قیام سے چند ماہ قبل تھا۔محققین کو کمیشن ٹو سٹڈی آرگنائزیشن آف پیس نامی این جی او کا نام بالخصوص کھٹکا جس کا قیام 1930 میں ہوا تھا اور وہ 1975 سے غیر فعال تھی۔اچنبھے کی بات یہ تھی کہ تحقیق میں نظر آیا کہ اس ادارے کے ایک سابق چیئرمین، پروفیسر لوئیس بی سوہن کا نام 2007 میں یو این ایچ آر سی کے ایک سیشن میں شرکت کرنے والوں کی فہرست میں شامل تھا، لیکن پروفیسر سوہن کا 2006 میں انتقال ہو چکا تھا۔اسی طرح 2011 میں واشنگٹن میں منعقد کی گئی ایک تقریب میں بھی ان کا نام بطور مہمان شامل تھا اور وہ تقریب بھی سری واستوا گروپ سے منسلک ایک ادارے نے ہی منعقد کرائی تھی۔تحقیق میں اس بات کی مسلسل نشاندہی کی گئی کہ کئی ادارے اور این جی اوزجو اقوام متحدہ سے منظور شدہ ہیں اور بہت سے وہ جو منظور شدہ نہیں ہیں، اور ان کا بظاہر جنوبی ایشیا اور سیاست یا انسانی حقوق سے کوئی لینا دینا نہیں ہے لیکن وہ متعدد بار اقوام متحدہ کے فورم پر پاکستان کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں اور تحقیق کے مطابق ان میں ادارے میں سے واضح اکثریت سری واستوا گروپ سے منسلک ہے۔پھر گذشتہ سال مارچ میں ہونے والے ایک سیشن کے دوران یو این سے تسلیم شدہ اور سری واستوا گروپ سے منسلک ایک این جی او گروپ نے اپنے مقررہ وقت پر تقریر کرنے کے لیے یوانا باراکووا نامی تجزیہ کار کو جگہ دی جن کا تعلق یورپین فاؤنڈیشن فار ساؤتھ ایشیا سے تھا جو کہ اقوام متحدہ سے منظور شدہ نہیں ہے۔اپنی تقریر میں پاکستان کو شدید تنقید بنانے والی یوانا باراکووا سے جب بی بی سی نے اس بابت سوال کیا تو ان کا کہنا تھا کہ وہ تنظیمی امور سے لا علم ہیں اور بعد میں نمبر بلاک کر دیا۔واضح رہے کہ سنہ 2015 میں حکومت پاکستان کی شکایت پر اقوام متحدہ نے افریقہ سے تعلق رکھنے والی ایسی دو این جی اوز کی منظور شدہ حیثیت ختم کر دی تھی کیونکہ انھوں نے اقوام متحدہ کے فورم پر ʼپاکستان کے خلاف متنازع بیانات دیے تھے۔اس تحقیق کا دوسرا سب سے اہم انکشاف انڈیا کی سب سے بڑی نیوز ایجنسی ایشیا نیوز انٹرنیشنل یعنی اے این آئی کے اس نیٹ ورک میں کردار کے بارے میں تھا۔گذشتہ سال کی تحقیق کے نتیجے میں سامنے آنے والی 265 سے زیادہ جعلی نیوز ویب سائٹس بند ہو گئی تھیں البتہ کچھ عرصے بعد ای یو کرونیکلز کے نام سے ایک اور نئی نیوز ویب سائٹ قیام میں آئی جس میں یورپی پارلیمان کے ممبران نے پہلے کی طرح پاکستان مخالف مضامین لکھنے شروع کیے۔لیکن اس بار فرق یہ نظر آیا کہ اے این آئی کے ذریعے ای یو کرونیکلز پر چلنے والی پاکستان مخالف خبروں اور مضامین کو شائع کر کے انڈیا میں دیگر میڈیا کے اداروں تک پہنچایا جا رہا ہے اور ان خبروں کو ہلکا سا رد و بدل کر کے ان کو مزید سخت بنایا گیا۔ای یو ڈس انفو لیب کی دونوں تحقیقی رپورٹس میں یہ واضح ہے کہ پورے نیٹ ورک کو چلانے میں اہم ترین کردار انکت سری واستوا کا ہے جو اس گروپ کے نائب چیئرمین ہیں۔وہ اپنے گروپ کے 1991 سے قائم اخبار نیو دہلی ٹائمز کے مدیر ہیں اور اس کے علاوہ ان کے ذاتی ای میل ایڈریس اور ان کی کمپنی کے ای میل سے چار سو سے زیادہ ویب سائٹس کے نام رجسٹر کیے گئے ہیں۔