زندگی بھر کی کامیابی کیلئے بچوں کی شخصیت کو لچکدار بنائیں

December 20, 2020

لامحالہ، بچے ہر آئے دن کسی بڑے پروجیکٹ کے بارے میں فکرمند ہوں گے، زندگی میں بہت سے مواقع پر ان کا دل ٹوٹے گا، انھیں بہت سے نقصانات کا سامنا بھی ہوسکتا ہے، اور اس طرح وہ ناکامی کا تجربہ کریں گے۔ اکثر، ہماری والدین والی جبلت ہمیں مجبور کرتی ہے کہ اپنے بچوں کو ان ناخوشگوار جذبات سے بچائیں یا انھیں ان تجربات سے دور رکھیں تاکہ وہ محفوظ رہیں۔ اس رویہ کے پسِ پردہ پیار ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ ہم اپنے بچوں کو ان کی زندگی میں مختلف مواقع پر پیدا ہونے والے تناؤ اور تکلیف کا سامنا کرنے سے بچا نہیں سکتے ہیں۔ تاہم، ہم ان مشکلات کا سامنے کرنے اور انھیں حل کرنے کے لیے مہارتیں سکھا کر اپنی محبت کا درست اظہار ضرور کرسکتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم ان کی شخصیت میں لچک (Resilience)پیدا کریں۔

تناؤ، مشکل، المیہ، صدمے یا پریشانیوں سے نکلنے کی صلاحیت کو لچک کہا جاتاہے۔ جب بچے لچکدار ہوتے ہیں تو وہ زیادہ بہادر، زیادہ متجسس، زیادہ موافقت پذیر اور اپنی اصل شخصیت کے ساتھ لوگوں کے سامنے آنے کے قابل ہوتے ہیں۔ تمام بچے غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل ہوتے ہیں اور تمام بچوں کی شخصیت میں لچک پروان چڑھائی جاسکتی ہے۔

لچک اور تناؤ

انسانی دماغ کا ایک حصہ ہر وقت ممکنہ طور پر سامنے آنے والے خطرات پر نظر رکھتا ہے اور دماغ کے سرگرم رکھوالے (واچ ڈاگ) کا کام کرتا ہے۔ اس حصے کو انگریزی میں Amygdala یعنی بادامیہ کہاجاتا ہے، کیونکہ یہ لگ بھگ بادام کی شکل اور حجم کے برابر ہوتا ہے۔ دماغ کا یہ حصہ ہمارے تحفظ کے لیے ہمارے فطری اور تیز رفتار ردعمل کے لیے ذمہ دار ہوتا ہے۔ تناؤ اور مشکلات کے وقت یہ ہمارے جسم کو چوکس کرتا ہے کہ آیا لڑنا ہے، جانے دینا ہے یا پھر منجمد رویہ اپنانا ہے، وغیرہ۔

تناؤ، دماغ کے کنٹرول سینٹر’پری فرنٹل کورٹیکس ‘کو عارضی طور پر بند کرنے کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ دماغ کا یہ حصہ توجہ، مسئلہ کو حل کرنے، جذباتی ضابطے اور اندرونی تحریک کو ضابطے میں رکھنے میں مشغول رہتا ہے۔ بعض اوقات، شدید دباؤ کے لمحات میں ہمیں بادامیہ کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ صورتِ حال کا جائزہ لے کر منصوبہ بندی کرتے ہوئے کسی عمل کا فیصلہ کرسکے۔

مثال کے طور پر، اگر ایک سانپ آپ کے پاؤں پر ہو تو اس وقت گوگل کرنے کا وقت نہیں ہوتا کہ آپ کیا کریں، بلکہ ایسے میں آپ کے جسم کو اپنی حفاظت کے لیے تیزی سے ردِعمل دینے کی ضرورت ہوگی۔ اس کے برعکس، کچھ لمحات ایسے ہوتے ہیں جب ہمیں اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ ہمارے دماغ کا کنٹرول سینٹر، بادامیہ کو پُرسکون رکھے تاکہ ہم منطقی سوچ استعمال کرتے ہوئے اپنا ردِ عمل ظاہر کریں اور آگے بڑھ جائیں۔

تحمل اسی طرح پیدا ہوتا ہے۔ جب ہم لچک کو پروان چڑھاتے ہیں تو پری فرنٹل کورٹیکس ہمارے اندر مشکل صورتِ حال میں سنبھلنے، اسے قبول کرنے یا اس کے لیے کوئی حل تلاش کرنے کی صلاحیتوں کو بڑھا دیتا ہے۔

لچک اور رویہ

بچوں میں لچک کے مختلف درجے اور دباؤ کے اوقات میںردِعمل دینے اور ان سے نکلنے کے مختلف طریقے ہوتے ہیں۔ تمام رویے ایک ابلاغ (کمیونی کیشن) ہوتا ہے اور ہمارے بچوں کا طرز عمل ہمیں اس بات کا اشارہ دیتا ہے کہ آیا ان کی شخصیت میں نظم و نسق پروان چڑھا رہا ہے اور ان کا دماغ سیکھ رہا یا پھر تناؤ سے نمٹنے کے تقاضے ان کی صلاحیت سے زیادہ ہیں۔

جب بچوں میں نظم و نسق پیدا نہیں کیا جاتا تو وہ جذباتی، دستبردار، منحرف، ناراض یا خفا ہوسکتے ہیں۔ ہم بچوں کے رویوں پر گہری نظر رکھ کر ہی ان کے لیے ایسا ماحول پیدا کرسکتے ہیں، جہاں ان کی شخصیت کے مطابق ان کو منظم کرنے اور نئی مہارتیں سیکھنے میں مدد مل سکے۔

لچک کا نمونہ

تحقیق ہمیں بتاتی ہے کہ بچے کی زندگی میں کم از کم ایک قابل اعتماد اور معاون تعلق کی موجودگی، ان میں لچک پیدا کرنے کے لیے اہم ہوتی ہے۔ جب کوئی بچہ پریشان، ناراض، مایوس یا خوف محسوس کرتا ہے تو جس طرح وہ اپنے ’’محفوظ شخص‘‘ کو دیکھتا ہے کہ وہ اس مسئلے کے بارے میں کیا سوچتا ہے اور اس سے نمٹنے کے لیے کیا لائحہ عمل پیش کرتا ہے۔ مزید برآں، بچے کے ساتھ روزانہ کم ازکم5سے10 منٹ توجہ کے ساتھ رابطہ قائم رکھنے سے انھیں تحفظ کا احساس ہوتا ہے اور جب وہ تناؤ یا مشکل وقت کا سامنا کرتے ہیں تو وہ آسانی سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔

جذبات سے متعلق سکھانا

یہ ممکن ہے کہ تناؤ یا غیر پسندیدہ جذبات کے زیرِ اثر آکر بچے اپنے بادامیہ کو غیر فعال اور پُرسکون رکھتے ہوئے، صورتِ حال سے نمٹنے کی ذمہ داری پری فرنٹل کورٹیکس کو نہ سونپ سکیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بادامیہ پیشگی الرٹ رہتا ہے اور پری فرنٹل کورٹیکس ابھی ابتدائی پیشرفت کے مرحلے میں ہوتا ہے۔

بچوں کو جذبات کی پہچان کرواکر انھیں ان کے قابو میں رکھا جاسکتا ہے۔ جب انھیں یہ سمجھ آئے گی کہ تمام طرح کے جذبات اہم اور کارگر ہوتے ہیں تو وہ ان کی قدر کرنا شروع کردیں گے اور ایسا مؤثر لائحہ عمل اپنائیں گے جو ان میں نظم و نسق کو پیدا کرنے اور زندگی میں آگے بڑھنے کا باعث بنے گا۔

غلطیاں تسلیم کرنا

ناکامی تسلیم نہ کرنے والے بچوں میں فکسڈ مائنڈ سیٹ (طے شدہ ذہن) پروان چڑھتا ہے (کہ ہم ہمیشہ جیتتے ہیں یا ہارتے ہیں، ہم پاس ہوتے ہیں یا فیل ہوتے ہیں)۔ اس طرح کی سوچ تناؤ بڑھانے کا باعث بنتی ہے اور بچے خطرات کا سامنے کرنے سے کتراتے ہیں۔ جب ہم ان کو یہ بتائیں گے کہ ہر طرح کی غلطی ایک نارمل چیز ہے (چاہے ان کی ہو یا چاہے ہماری) تو اس کے بعد وہ اپنے آرام دہ دائرے سے باہر آتے ہیں اور نئی چیزوں پر پنجہ آزمائی کرتے ہیں۔

بچوں سے رائے لیں

جب ہم اپنے بچوں سے ان کی رائے مانگتے ہیں یا ان سے مدد مانگتے ہیں تو وہ خود کو طاقتور اور اہم محسوس کرتے ہیں۔ ان طریقوں سے، وہ اپنی خواہشات، ضرورتوں اور خیالات کا اظہار اوربات چیت کرنے کی مشق بھی کرسکتے ہیں۔

صحت مندانہ خطرہ مول لینا

صحت مندانہ خطرہ مول لینے کا مقصد بچوں کو ان کے آرام دہ دائرے سے باہر نکال کر ایسا عمل کرنے کی حوصلہ افزائی کرنا ہے جس میں اگر وہ کامیاب نہ بھی ہوسکے تو وہ محفوظ رہیں۔ نئے کھیل کھیلنا، اسکول پلے میں کردار ادا کرنا یا اپنے کسی سینئر سے گفتگو کا آغاز کرنا؛ بچوں کے لیے یہ ساری چیزیں نئی ہوتی ہیں، جنھیں کرنے سے پہلے پہل وہ گھبراتے ہیں لیکن درحقیقت جب وہ ان سرگرمیوں کا آغاز کرتے ہیں تو وہ خود کو انتہائی طاقتور اور پراعتماد محسوس کرتے ہیں۔

مسائل حل کرنا

بجائے اس کے کہ ہم بچوں کو سیکھائیں کہ وہ کیا سوچیں، ہمیں ان کو یہ سیکھانا چاہیے کہ وہ کیسے سوچیں۔ مثال کے طور پر بچوں کو دن بھر جن مسائل کا سامنا رہا، اس سے متعلق سوالات کرنا ان میں مسائل حل کرنے کی صلاحیتیں پروان چڑھاتا ہے۔ جب بچوں کے سامنے ان کے مسائل پر بات کی جاتی ہے تو انھیں ان مسائل پر سوچنے اور انھیں حل کرنے کے طریقے آتے ہیں۔ اس سلسلے میں بچوں سے یہ سوالات پوچھے جاسکتے ہیں: آپ نے کیا سیکھا؟، آپ نے آج ایسا کیا کیا جس کے لیے آپ کو اچھا خاصا سوچ بچار کرنا پڑا؟ کیا کوئی اور طریقہ ہے جس سے آپ یہ مسئلہ حل کرسکیں؟ کیا ہم اس مسئلے کو ایک نئے زاویہ یا نقطہ نظر سے دیکھ سکتے ہیں؟

لچک اور تحمل ہماری زندگیوں میں دباؤ کو پیدا کرنے سے نہیں روکتے لیکن یہ ہمیں مشکل حالات سے خوش اصلوبی سے نمٹنے کے لیے ضرور تیار کرتے ہیں۔ لچک ہمیں خود کو جاننے، حدود کا تعین کرنے اور خود سے پیار کرنے کا طریقہ سکھاتی ہے۔ جب ہم ہر طرح کے جذبات اور صورتِ حال (خوشگوار یا ناخوشگوار) میں خود سے پیار کرتے ہیں، ہم تبھی جاکر ویسا بن پاتے ہیں، جیسا ہمیں ہونا چاہیے اور یقیناً دنیا کو ایسے ہی شخص کی ضرورت ہے۔