پنجاب سے شکوہ کیوں؟

December 27, 2020

شاید یہ 2004تھا جب لاہور میں تین روزہ عالمی پنجابی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا تھا اور اُس میں پاکستان، بھارت سمیت پندرہ یا اٹھارہ ممالک کے تقریباً تین سو کے قریب مندوبین شریک ہوئے جنہوں نے ’’اعلانِ لاہور‘‘ کے نام سے ایک اعلامیہ جاری کیا جس میں یہ مطالبہ بھی کیا تھا کہ انگریز سے آزادی کی جنگ لڑنے والے ہیروز کی یادگاریں محفوظ کر لی جائیں۔ 13دسمبر کو مینارِ پاکستان پر ہونے والے ’’پی ڈی ایم‘‘ کے جلسہ میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے چیئرمین محمود خان اچکزئی کے پنجابیوں اور لاہوریوں سے متعلق دو جملوں نے ایک نئی بحث کا دَر کھولا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ ’’پنجابیوں اور لاہوریوں نے افغانستان پر چڑھائی میں انگریزوں کا ساتھ دیا تھا‘‘۔ ضمناً تو اُن کی اِس بات کو تاریخ کا ایک ورق کہا جا سکتا ہے لیکن یقیناً یہ پورا سچ بھی نہیں اور نہ ہی پنجابیوں کے انگریزوں کا ساتھ دینے کی کوئی طویل تاریخ ہے لیکن یہ بات درست ہے کہ پنجاب بالعموم اور اُس کے بعض علاقے بالخصوص فوجی بھرتی کیلئے انتہائی اہم اور مارشل ریس سمجھے جاتے تھے، اِسی لئے یہاں سے انگریزوں نے اُنہیں بڑی تعداد میں فوج میں بھرتی کیا اور پھر مہاراجہ رنجیت سنگھ کے بعد پنجاب کے رہنے والے مسلمان دیگر سکھ حکمرانوں کے ظلم و ستم سے عاجز آچکے تھے۔ اِس لئے انہیں یہ لگا کہ انگریزوں کے پنجاب فتح کرنے سے اُنہیں ریلیف ملا ہے چنانچہ کچھ عرصہ کیلئے کہا جا سکتا ہے کہ پنجاب کے لوگ خواہ وہ جاگیر دار یا خواص تھے، انگریزوں کاساتھ دیتے رہے ہیں۔ اوپر ذکر کی گئی تین روزہ عالمی پنجابی کانفرنس میں چند پنجابی ہیروز کی بات بھی کی گئی کہ لاہور کے شاہ جمال چوک میں جنگِ آزادی کے ہیروز، بھگت سنگھ کے پھانسی گھاٹ اور نیلا گنبد میں دُلا بھٹی کے پھانسی گھاٹ کو یادگار کے طور پر محفوظ کر لیا جائے۔ پاکستان اور بھارت کی حکومتوں سے مطالبہ کیا گیا کہ عوامی مفاد میں ویزہ کی پابندیاں و شرائط خصوصاً صحافیوں کیلئے نرم کی جائیں کیونکہ ظاہر ہے متحدہ ہندوستان کے تمام ہیروز خواہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے تھے، سب کیلئے سانجھے ہیں۔

میں سمجھتا ہوں کہ محمود خان اچکزئی کو پنجابیوں یا لاہوریوں سے یہ بات کہنے کا حوصلہ ہی نہ ہوتا اگر پنجابی خصوصی طور پر پاکستان سائیڈ کے پنجابی اپنے اصل ہیروز کو تسلیم کرتے اور اُنہیں اپنے تعلیمی نصاب کا حصہ بناتے۔ اِس صورتحال میں یہ سوال انتہائی اہم ہے کہ پنجاب غیرمسلم ہی نہیں بلکہ مسلمان ہیروز کو بھی ماننے کیلئے تیار نہیں اور ستم بالائے ستم یہ کہ پنجاب غیرملکیوں مثلاً عربوں، ایرانیوں اور افغانیوں کے علاوہ بھی کئی قوموں کے فاتحین کو ہیرو مانتا ہے حتیٰ کہ سکندر اعظم کو بھی، جسے راجہ پورس نے دھول چٹائی اور ناقابلِ شکست سکندر کے لشکر پر ہیبت طاری کر دی اور سکندر کو برچھا مار کر زخمی کرنے والا بھی ایک پنجابی کیثر وریا تھا لیکن ہم وطن پرست راجہ پورس کو اپنا ہیرو نہیں مانتے۔ محمد بن قاسم تو ہمارا ہیرو ہے لیکن راجہ داہر ہمارا ہیرو نہیں۔ پنجابی یہ بھی تسلیم نہیں کرتے کہ اشوکا دی گریٹ بھی اِسی دھرتی کا بہادر بیٹا تھا، کیا بھگت سنگھ، ادھم سنگھ، دُلا بھٹی، رائے احمد خان کھرل ہمارے ہیروز نہیں؟ جنہوں نے انگریز کے خلاف جنگ بھی لڑی اور اپنی جانیں بھی آزادی کیلئے قربان کیں۔ کیا پنجاب پے درپے محکومیت میں رہ کر اپنی خودمختاری اور اپنے شہیدوں تک کو بھول چکا ہے؟ یوں لگتا ہے ہم نے مشرقی پنجاب والوں سے بھی کوئی سبق نہیں سیکھا۔ یورپ اور امریکہ میں رہنے والے پاکستانی جانتے ہیں کہ سکھوں کی وہ نسلیں جو ہندوستان سے باہر بھی پیدا ہوئیںاور پروان چڑھ رہی ہیں، اُنہیں پنجابی زبان بڑی روانی سے بولنا آتی ہے جبکہ ہمارے ہاں ایسا نہیں ہے۔ ہمارے پنجابی تو اپنی ماں بولی، اپنی دھرتی، ثقافت اور اپنے ہیروز سے دور ہو چکے ہیں۔ یہاں تک کہ 12کروڑ آبادی کے پنجاب میں جناب مدثر اقبال بٹ کے ’’بھلیکھا‘‘ کے سوا کوئی دوسرا قابلِ ذکر پنجابی زبان کا اخبار تک نہیں نکلتا، بےشمار ٹیلی وژن چینلز پر پنجابی میں کوئی پروگرام نہیں ہوتے اور نہ ہی 80فیصد پنجابیوں کو پنجابی زبان بہتر طریقے سے لکھنا یا پڑھنا آتی ہے۔

محمود خان اچکزئی کی طرح ہمارے ہاں یہ غلط فہمی بھی بدرجہ اتم موجود ہے کہ 1857کی جنگ آزادی سے پہلے اور اُس کے بعد بھی پنجاب انگریز کا حامی یا وفادار تھا حالانکہ ایسا بالکل نہیں تھا، ہاں یہ ضرور تھا کہ پنجاب کے وڈیروں و جاگیرداروں کی ایک بڑی تعدادنے انگریزوں کی پشت پناہی کی لیکن ہمیں اَن گنت آزادی کے متوالے پنجابیوں کو بھی بھولنا نہیں چاہئے جو نہ صرف انگریزوں کے سامنے ڈٹ گئے بلکہ پھانسیوں پر بھی جھول گئے۔ یہی وجہ تھی کہ انگریز ہندوستان میں اپنے تقریباً دو سو سالہ اقتدار میں سارے ہندوستان کے بعد پنجاب کو فتح کر پایا لیکن اُس کے باوجود پنجاب کے بہت سے علاقوں میں آزادی کی تحریکیں چلتی رہیں اور انگریزوں کی پوری فوج اُن حریت پسند پنجابیوں کے ساتھ ایک مدت تک نبردآزما رہی۔ کیا ہم پنجابیوں کو اوپر ذکر کئے گئے پنجابی ہیروز کے ساتھ ساتھ نظام، لوہار، جگا، دُلا بھٹی، مراد فتیانہ، امام دین، نادر شاہ قریشی، ولی داد اور کئی دوسرے ہیروز یاد ہیں جنہوں نے انگریز سے وفاداری پر موت کو ترجیح دی؟ انگریز کیخلاف پنجابی حریت پسندوں کی داستانیں اِس قدر طویل اور قابلِ فخر ہیں کہ اگر ہم نے اپنے ہیروز کیقدر کی ہوتی، اُنہیں یاد رکھا ہوتا تو آج ہم سینہ ٹھونک کر جناب اچکزئی کو تاریخ کا آئینہ دکھاتے اور یہ بھی بتاتے کہ احمد شاہ ابدالی اور وغیرہ وغیرہ ہندوستان میں کیا کرتے پھر رہے تھے!