عوام نے سیاست کی بساط الٹ دی

May 16, 2013

دنیا میں انتخاب ہوتے رہتے ہیں، خود ہمارے ملک میں نو، دس انتخاب ہو چکے ہیں۔ جمہوری ملکوں میں یہ کھیل ہفتے دو ہفتے میں مکمل ہو جاتا ہے۔ ہر نئے الیکشن میں کچھ پرانے چہرے بدل جاتے ہیں اور نئے سامنے آتے ہیں۔ جنگ عظیم دور کا ہیرو برطانیہ کا مضبوط وزیراعظم چرچل تھا۔ جنگ ختم ہوتے ہی اس سے چھٹکارا حاصل کر کے نیا وزیراعظم چن لیا گیا۔ ہمارے ہاں ہارنے والا کبھی خوش دلی سے اپنی ہار تسلیم نہیں کرتا بلکہ دھاندلی کا الزام لگا کر اپنے رائے دہندگان کو مطمئن کرتا ہے۔ موجودہ انتخابات کا غلغلہ گزشتہ چھ ماہ سے سنا جا رہا تھا۔ ایک طبقہ شک و شبہے کا اظہار کرتا رہا، انتخاب کی تاریخ مقرر ہو گئی، غیر جانبدار الیکشن کمشنر کو چن لیا گیا مگر تذبذب10مئی تک باقی رہا۔ خدا خدا کر کے11مئی کو انتخابات مکمل ہو گئے، اب ہفتوں ان پر تجزیہ ہوتا رہے گا۔ پچھلوں کی خامیوں کو اچھالا جائے گا اور آنے والوں سے توقعات وابستہ کی جائیں گی حالانکہ ان کے پاس سونے کا انڈا دینے والی مرغیاں نہیں۔ ایک سرسری نظر ڈال کر دیکھئے کہ 2013ء کے انتخاب کی کیا حیثیت ہے؟
کئی پہلوؤں سے اس نے تاریخی حیثیت ضرور حاصل کر لی ہے۔ سب سے پہلے اس کے لئے ووٹروں کی فہرستیں تیار ہوئیں۔ ان پر اعتراض ہوا اور الیکشن کمیشن کو ان پر نظرثانی کرنی پڑی۔ تین لاکھ جعلی ووٹ خارج کر دیئے گئے اور اتنے ہی نئے ووٹروں کا اندراج ہوا جن کے پاس کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ تھا اور ان کی تصویر بھی ووٹر لسٹ میں شائع کی گئی تاکہ جعلی ووٹنگ کا اندیشہ نہ رہے۔ اس کے بعد ملک میں 86,183,802 ووٹر (مرد48,592,387 اور خواتین 37,597,415) تھے جو کل آبادی کا تقریباً 47.7 فیصد کے مساوی ہوتا ہے۔ بڑی چھان بین کے بعد غیر جانبدار الیکشن کمشنر مقرر ہوا۔ پچھلی برسراقتدار حکومتیں مستعفی ہو گئیں، نگراں حکومتیں قائم ہوئیں۔ الیکشن کمیشن نے ضابطے مقرر کئے اور 62-63 کے ضابطوں پر پورا ہونے، نیک چلن، امیدواروں کی بڑی سختی سے چھان بین کرنے، انکم ٹیکس کے نادہندگان، بجلی، گیس اور ٹیلیفون کے بلوں کے باقی داروں اور سرکاری لاجیز میں کرایہ نہ دینے والوں اور بینکوں کے باقی داروں کو الیکشن میں حصّہ لینے سے روکنے کا عہد کیا۔ اس کے باوجود قومی اسمبلی کی 272 نشستوں کے لئے اور صوبائی اسمبلیوں کی کل 577 نشستوں کے لئے 24 ہزار درخواستیں جمع کرائی گئیں جو ایک ریکارڈ ہے۔ امیدواروں کی مذہبی معلومات کا جائزہ لینے کے لئے ریٹرننگ افسروں نے دعائے قنوت، چھٹا کلمہ سنانے اور غسل میّت کی ترکیب پوچھی۔ جو یہ سنانے یا بتانے میں ناکام رہے ان کی درخواستیں مسترد کر دی گئیں۔ بیشتر امیدواروں نے اپنی باقیات ادا کر کے یا متعلقہ اداروں سے مصالحتی سرٹیفکیٹ لے کر اپنے آپ کو بچا لیا۔ ہائیکورٹ نے ریٹرننگ افسران کو ایسے سوالات کرنے سے روک دیا۔ تقریباً تمام وہ لوگ جن کو ابتدا میں نااہل قرار دیا تھا،اپیلوں میں اہل قرار دیا صرف چند ہی بدقسمت ایسے ہوں گے جو الیکشن سے محروم رہے۔ سیاسی پارٹیوں نے مسلسل بڑے بڑے جلسے کئے جن میں ہزاروں مردوں، خواتین اور خصوصاً نوجوانوں نے شرکت کی۔ یوں تقریباً ہر بڑی پارٹی کو اطمینان ہو گیا کہ وہی انتخاب میں کامیابی حاصل کرے گی۔ انہوں نے نہ صرف مخالفین پر الزام تراشی شروع کر دی بلکہ بعض ذاتیات پر اتر آئے اور نازیبا زبان تک استعمال کرنا شروع کر دی۔ اسی دوران انتخاب سے چار روز قبل ایک سیاسی رہنما اونچے اسٹیج پر چڑھتے ہوئے گر کر شدید زخمی ہو گئے جن کو بالکل یقین تھا کہ وہ آئندہ کے وزیراعظم ہونے والے ہیں ”من درچہ خیالم وفلک درچہ خیال“ والا مصرعہ صادق آتا ہے۔ میرے خیال میں عوام کے چھوٹے، بڑے مختلف طبقات کے عوامی نمائندوں کو انتخابی میدان تک لانے والا پہلا انتخاب تھا جس میں چار سابق وزرائے اعظم، دو سابق گورنر، ایک درجن سابق وزرائے اعلیٰ و وزراء کے ساتھ 786 زراعت پیشہ، 777 ذاتی کاروبار کرنیوالے، 307 وکلا، 276 زمیندار، 78 سیاستدان، 71 ڈاکٹرز، 48 پیش امام، 48 سماجی کارکن، 41 گھریلو خواتین، 28 مزدور، 22 صحافی، 14 طالب علم اور 23 بے روزگار حصّہ لے رہے ہیں۔انتخاب سے پہلے جو مختلف سروے ہوتے رہے ہیں ان میں ن لیگ، پی پی پی اور تحریک انصاف کو اوپر، نیچے دیکھا جاتا رہا ہے۔ انتخاب سے دو چار روز پہلے ایک مشترکہ سروے میں مسلم لیگ ن کو 40 فیصد، پی پی کو 20 فیصد، پی ٹی آئی کو12 فیصد اور دیگر جماعتوں کو23 فیصد ووٹ ملنے کی توقع کی گئی۔ درجہ بندی تو ٹھیک رہی مگر ن لیگ کو زبردست کامیابی اور پی پی کو زبردست شکست کی امید نہیں تھی۔ اس تبدیلی سے ثابت ہو گیا کہ جمہوریت میں سب سے بڑی طاقت عوام کی ہوتی ہے۔ اب وفاق میں مسلم لیگ ن اپنی حکومت بنائے گی۔ تحریک انصاف تو اس کے ساتھ شرکت کرنے سے معذوری کا اظہار کر رہی ہے۔ پی پی سے اتحاد مشکل نظر آتا ہے اس کو آزاد ممبران کی حمایت حاصل کر لینا چاہئے یوں وہ بلیک میلنگ کے دباؤ سے محفوظ رہے گی۔ نواز شریف نے ایک مرتبہ یہ بھی کہا تھا کہ ہم پاکستان میں طالبان کی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں،کیا وہ پاکستان کو عہد قدیم میں لے جانا چاہتے ہیں۔ ایک سروے کے مطابق پاکستان کی91 فیصد آبادی طالبان کو پسند نہیں کرتی۔ بہت ضروری ہے کہ اس سوچ کو بدلا جائے۔ پنجاب میں حسب سابق مسلم لیگ ن بھاری اکثریت سے کامیاب رہی ہے۔ سندھ میں پی پی اور ایم کیو ایم کو سبقت حاصل ہے البتہ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کو اور بلوچستان میں قوم پرست جماعتوں کو برتری حاصل ہے۔فاٹا میں ایک خاتون ٹیچر کا انتخاب میں حصّہ لینا، میرپورخاص میں زمیندار کی جیل میں محصور اقلیتی فرقے سے تعلق رکھنے والی خاتون کی اور دو سینئر فنکاروں کی شرکت آنیوالے انتخابات کے رجحان کی صاف، صاف پیش گوئی کر رہی ہے کہ تبدیلی (انقلاب) کو اب روکا نہیں جا سکتا۔