2021 ۔ دل ناامید تو نہیں ...... !

January 03, 2021

گریگوریائی کیلنڈر کے مطابق سال 2020ء ختم ہو چکا ہے اور نئے سال 2021ء کا آغاز ہو چکا ہے۔ دنیا میں کئی کیلنڈرز یعنی نظام تقویم رائج ہیں مثلاً اسلامی کیلنڈر، ایرانی کیلنڈر، ہندو کیلنڈر، جاپانی کیلنڈر وغیرہ وغیرہ ۔ ہر کیلنڈر کے مطابق سال گزرتے رہتے ہیں لیکن چونکہ زیادہ تر دنیا گریگوریائی کیلنڈر استعمال کرتی ہے، اس لیے ہم اپنی زندگیوں میں اسی کے مطابق اپنے برسوں کا حساب رکھتے ہیں۔ گزرے سال کو اپنے حالات کے مطابق اچھا یا برا قرار دیتے ہیں اور نئے سال کے امکانات پر بات کرتے ہیں۔ سال کی تبدیلی افراد اور قوموں کی زندگی کا سنگ میل بن جاتی ہے۔ ہم پاکستانیوں کا سال 2020 کیسا گزرا اور 2021 کیسا ہوگا؟ اس سوال کا جواب ہر سال کی طرح وہی ہے کہ گزرا ہوا سال اچھا نہیں تھا اور آئندہ سال بھی بہتری کی کوئی اُمید نہیں ہے۔

اس مرتبہ فرق صرف یہ ہے کہ ہمارے ساتھ ساتھ 2020ء پوری دنیا کے لیے اچھا نہیں تھا۔ اس کا سبب کورونا کی عالمی وبا ہے، جس نے کئی انسانی المیوں اور سانحات کو جنم دیا۔ اس کی وجہ سے نہ صرف 8 کروڑ سے زائد انسان متاثر ہوئے اور 18 لاکھ سے زائد ہلاکتیں ہوئیں بلکہ عالمی معیشت بھی تباہ ہوئی، جس کے نتیجے میں غربت، بے روزگاری اور مایوسی میں اضافہ ہوا۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ 2020ء میں پوری دنیا ہمارے ساتھ شریک غم رہی۔ 2021ء کیلئے دنیا پر امید ہے۔ کورونا کی ویکسین کا عام استعمال شروع ہو چکا ہے۔ توقع کی جا رہی ہے کہ نئے سال میں کورونا کی وبا پر قابو پالیا جائے گا اور زندگی اپنے معمولات پر آجائے گی۔ انسانیت اس عذاب سے نجات پالے گی اور معیشت کی بحالی کا عمل بھی شروع ہو جائے گا۔ البتہ یہ خدشات بھی موجود ہیں کہ کورونا کی نئی اقسام سامنے آ رہی ہیں۔ جن کے تدارک کیلئے تیار کردہ ویکسین کا رگر ثابت نہیں ہوگی اور یہ وبا پہلے سے زیادہ خطرناک ہو جائے گی لیکن سائنس دان اور ماہرینِ طب کورونا کے خلاف جنگ جیت جائیں گے۔ گزشتہ سال کی نسبت نیا سال بہتر ہوگا۔ کورونا کی وبا پر قابو پانے کے بعد ہم پاکستانیوں کے وہی بحران دوبارہ نمایاں ہو جائینگے، جو کورونا کی وجہ سے دب گئے تھے۔ ہمارا معاشی بحران اور ہماری شناخت کا بحران مستقل ہے۔ دہشت گردی یہاں ایک مستقل عمل (Phenomenon ) بن چکا ہے، جس کی حفاظت مخصوص مفادات کی حامل قوتیں خود کرتی ہیں اور اسے پروان چڑھاتی ہیں۔ اس کا دہشت گردی کی اس عالمی لہر سے کوئی تعلق نہیں، جو 2001 ء میں نائن الیون کے واقعہ کے بعد دنیا میں مصنوعی طور پر پیدا کی گئی تھی۔ ہمارے ہاں دہشت گردی 1980ء کے عشرے سے جاری ہے، جو مخصوص مفادات کی حامل قوتوں کے ایجنڈے کی تکمیل کرتی ہے۔ ہم ہر سال معیشت کی بدتری، بے روزگاری اور غربت میں اضافے، سیاسی اور داخلی عدم استحکام میں اضافے، انتشار، بدامنی اور خونریزی میں گزارتے ہیں اور ہر سال کو سانحات اور المیوں کے حوالے سے یاد کرتے ہیں۔ 2021ء میں ہم جن سیاسی تبدیلیوں سے امیدیں وابستہ کر رہے ہیں، وہ بھی پاکستان کے حقیقی مقتدر حلقوں کےفکسڈ میچ سے زیادہ کچھ نہیں رہیں گی اور صرف اقتدار میں جونیئر پارٹنرز سے ہر رضا مندی کا اظہار کرتی رہیں گی۔ 2021ء میں اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کا اتحاد پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) اپنے اہداف حاصل کرے یا نہ کرے، دونوں صورتوں میں طاقت کا وہ توازن تبدیل ہوتا نظر نہیں آتا، جو مسلسل سیاست اور سیاسی قوتوں کی کمزوری کا سبب بن رہا ہے۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی قیادت شاہی خانوادوں ( Dynasties ) کے پاس چلی گئی ہے، جنہوں نے سیاست کو اپنے مخصوص مفادات کے تابع کر دیا ہے۔ ہر جماعت کے باقی رہنما اور کارکنان نے صرف اپنی قیادت کی تعریف اور مخالفین پر تنقید کا کلچر بنا لیا ہے۔ سیاسی جماعتوں میں جمہوری کلچر ختم ہو چکا ہے۔ ملک کو درپیش بڑے مسائل پر بہت کم بات ہوتی ہے۔ اگر بات ہوتی بھی ہے تو مقتدر قوتوں کے ساتھ بارگیننگ تک محدود رہتی ہے۔ مسائل کے مستقل حل کے لیے سیاسی سمت کا تعین نہیں ہو سکا جو آزادانہ سیاسی عمل سے ممکن ہوتا ہے۔

اس صورت حال کے باوجود بھی قوموں کو مایوس نہیں ہونا چاہئے۔ بہتری کے ایسے امکانات بھی ہمیشہ موجود رہتے ہیں، جن پر ہم توجہ نہیں دے رہے ہوتے ۔ کئی ایسے عوامل بھی کارفرما ہوتے ہیں، جن کے نتائج کے بارے میں ہم نے سوچا بھی نہیں ہوتا۔ یہ عوامل خارجی بھی ہوتے ہیں اور داخلی بھی۔ اگرچہ ہمارے ملک میں سیاست بوجوہ کمزور ہوگئی ہے اور سیاسی جدوجہد کے نتیجہ خیز ہونے کا وہ دور بھی نہیں رہا ہے، جو گزشتہ صدی کے وسط میں تھا لیکن انسانی سماج میں تبدیلی کا عمل رکتا نہیںہے۔ کورونا کی جس وبانے 2020ء میں پوری دنیا میں تباہی پھیلائی، اسی وبا نے اس نظام کی بنیادوں کو بھی کمزور کر دیا ہے، جس کے خلاف سیاسی جدوجہد غیر موثر ہو گئی تھی۔ کورونا کے باعث پیدا ہونے والے معاشی بحران کے سیاسی اثرات 2021 ء میں نمایاں ہوں گے۔ اس کے علاوہ دنیا میں ہونے والی تبدیلیاں بھی پاکستان پر اثر انداز ہو سکتی ہیں۔ نیا سال پاکستان کے لیے شاید کوئی بہت بڑی تبدیلی نہ لا سکے مگر یہ پیش گوئی کی جا سکتی ہے کہ ’’اسٹیٹس کو‘‘ نہیں رہے گا۔