نظامِ کائنات پر غورو فکر اور اُس کے تقاضے

January 08, 2021

محمد جاوید ایم ڈی

دین کی ترویج و اشاعت ،اسلام کے پیغام امن وسلامتی کو عام کرنے اور عام لوگوں کی اصلاح کے حوالے سے جو شان دار اور قابل قدر خدمات صوفیائے کرام اور مسلم فلاسفہ نے انجام دیں،وہ اسلامی تاریخ کا ایک قابل فخر اور روشن باب ہے۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تصوف میں جن خانوادوں نے ہندوستان میں اپنے شدید اثرات مرتب کیے، ان میں سب سے پہلے سلسلۂ چشتیہ کا نام آتا ہے جس کے بانی حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ ہیں ۔ اس کے بعد آپ کو قادری سلسلے کے اکابر کا ذکر ملے گا ،جس میں شیخ عبدالحق محدث دہلوی ؒ اورانہی کے زمانے کے میاں میر لاہوری ؒ وغیرہ کا ذکر ملتا ہے ۔ بعد میں حضرت صدیق بھرچونڈویؒ اور آپ کے خلفاء شامل ہیں جیسے مولانا تاج محمود امروٹی ؒ اور مولانا غلام محمد دین پوریؒ کے نام شامل ہیں اور آخر میں ان کے جانشین مولانا احمد علی لاہوری ؒ اور ان کے نامور خلیفہ مولانا ابولحسن علی ندوی ؒکا نام نامی شامل ہے ۔ اسی طرح نقشبندی سلسلے کو ہندوستان میں متعارف کرانے میں ہم خواجہ باقی باللہ ؒ اور آپ کے سچے جانشین حضرت شیخ احمد سرہندی ؒ کا نام پاتے ہیں ۔ یہ بھی عجیب بات ہےکہ گو نقشبندی سلسلہ بعد میں متعارف ہوا ،لیکن ان کے مشائخین نے جہاد بالقلم سے جو علمی خدمات انجام دیں، ان سے تاریخ کے صفحات پُر ہیں۔

یہی وہ مجدد الف ثانی ؒ ہیں،جنہوں نے مغل اعظم کا مقابلہ کیا ، یہ وہ زمانہ ہے کہ جب مسلمانوں کی حکومت اپنے انتہائی عروج پر تھی اور کس طرح انہوں نے سلطنت مغلیہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا ۔ اس سے آپ ان بزرگوں کی عظمت کا اندازہ کر سکتے ہیں ۔ لیکن جب ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ کی بات آئی تو شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ نے ان کا خوب رد کیا ، ان کے مکتوبات اس سے بھرے پڑے ہیں کہ کس طرح انہوں نے فصوص الحکم اور فتوحات مکیہ کی تردید کی ہے حالانکہ مجدد الف ثانی ؒ ابن عربی ؒکو ایک مقبول بارگاہ برزگ بھی سمجھتے رہے ہیں ۔ کس طرح وحدت الوجود اور وحدت شہود کا لفظی تنازع ایک معرکہ کی شکل اختیار کر گیا جس کے اثرات صدیوں تک پھیلے ہوئے ہیں ۔

لیکن انتہائی حیرت کی بات ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ نقشبندی سلسلے کے مشاہیر بزرگوں نے کس طرح ابن عربی ؒ کی عظمت کا اعتراف کیا اور ان کی کتابوں کو آگے بڑھایا ، ان میں شاہ ولی اللہ ؒ کے والد شاہ عبدالرحیمؒ اور ان کے تایا شیخ محمد ابو رضا نے بہت بڑاکردار ادا کیا ۔ شاہ ولی اللہؒ کی مشہور کتاب انفاس العارفین اس سے بھری پڑی ہے ، ان کے تایا اور والد محترم ابن عربیؒ کی کتابوں کو قرآن و سنت کے مطابق بتا سکتے تھے یا پڑھا سکتے تھے ۔

شاہ ولی اللہؒ نے ان بزرگوں سے پورا پورا فیض حاصل کیا ، وہ اپنے والد محترم کے خلیفہ تھے اور ان سے انہوں نے وحدت الوجود کے مسائل کو پڑھا، ابن عربیؒ کی کتابوں کو سمجھا ۔ شاہ ولی اللہؒ کی خوبی یہ ہے کہ وہ ایک طرف قرآن و حدیث کے امام ہیں اور فقہ کے ماہر ہیں ، اس کے ساتھ ساتھ وہ تصوف کے بھی امام ہیں ، انہوں نے جہاں سول سوسائٹی بنانے کی بات کی ہے ،وہاں انہوں نے تصوف کی باریکیوں کا راز بھی کھولا ہے ۔

بعض لوگ ابن عربیؒ کو ایک بڑا صوفی بزرگ سمجھتے ہیں ، حالانکہ نہ ابن عربی نے کسی سلسلے سے بیعت ہوئے اور نہ انہوں نے کسی سلسلے کو آگے بڑھایا ۔ درحقیقت ان کی شان تو ایک صاحب کشف بزرگ کی سی ہے ، جو بچپن میں ہی اتنا ذہین اور اتنا معرفت والا تھا کہ ان کی ملاقات ابن رشد جیسے فلسفی سے ہوئی اور انہوں نے اسے کافی متاثر کیا ۔


ہمارے یہاں ایک دستور ہے کہ بغیر کسی کتاب کو پڑھے ہوئے اس کے بارے میں اپنی رائے دیتے ہیں اور ہم نے یہ اتنا مشہور کر دیا ہے کہ ہر آدمی ابن عربی ؒ کو ایک صوفی بزرگ سمجھتا ہے حالانکہ وہ اپنے وقت کے ایک فلسفی ایک سائنسدان اور ایک صاحب کشف بزرگ تھے جن کو تجلیات الٰہی سے واسطہ پڑتا تھا ،ایسی عجیب و غریب چیزیں بیان فرماتے تھے کہ جسے سمجھنا اس زمانے کے لوگوں کے لیے بڑا مشکل تھا ۔

اسی لئے شیخ سہروردی ؒاپنے شاگردوں کو ان کے پاس جانے سے ان کی زندگی میں منع فرماتے تھے ، لیکن جب ان کو ان کی موت کی اطلاع ملی تو فرمایا کہ وہ تو بہت بڑے بزرگ اور قطب العالم تھے ۔ جب ان کے شاگردوں نے پوچھا کہ آپ نے ہمیں ان کے پاس جانے سے کیوں منع فرمایا تو شیخ سہروردی ؒ نے فرمایا کہ ان کی زبان سے ایسی چیزیں نکلتی تھی ،جسے تم نہ سمجھ پاتے اور کفر کی طرف چلے جاتے ۔ لیکن کمال حیرت ہے کے ابن عربی ؒ نے تصوف کا کوئی سلسلا چلا یا نہ یہ پتہ چلتا ہے کے وہ کسی سے بیعت ہوئے ۔

وہ اپنے وقت کے انتہائی ذہین آدمی تھے کہ انہوں نے بگ بینگ کی تھیوری کو پیش کیا اور اس وقت بتایا کہ یہ دنیا ایک کرہ ہے اور یہ چاند سورج وغیرہ مختلف افلاک پر تیرتے ہیں ۔ اسی طرح انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ایسی کئی متوازن دنیائیں آباد ہیں، جن میں انسانوں سے ملتے جلتے لوگ بھی پائے جاتے ہیں۔

یہ چیز آج کے زمانے میں بہت زیادہ مقبول ہے اور اگر آپ یوٹیوب میں دیکھیں تو آپ کو ایسے بہت سارے فزکس کے پروگرام ملیں گے جس میں ان باتوں کا ذکر ہے اور اس میں بتایا جاتا ہے کہ متوازن کائناتیں اور دنیائیں آباد ہیں، یہ نظریہ آج کے لوگوں کے لیے نیا ہے، لیکن ابن عربی ؒ نے اسے 900 برس پہلے پیش کر دیا تھا۔

دوسری طرف شاہ ولی اللہؒ ایک باقاعدہ صوفی بزرگ ہیں ۔ انہوں نے مختلف سلسلوں سے اجازت حاصل کی ہے اور اسے آگے بھی بڑھایا ہے ( ملاحظہ فرمائیں شاہ صاحب ؒ کی کتابیں الانتباہ فی سلاسل اولیاء اللہ، ہمعات اور القول الجمیل )

ان کتابوں میں آپ نے فرمایا کہ آپ کو آپ کے والد محترمؒ کی طرف سے بیعت کی اجازت ملی بلکہ یوں کہئے تو زیادہ بہتر ہوگاکہ آپ نے سارے ہی علوم اپنے والد محترمؒ سے حاصل کیے۔

آپ کے والد محترمؒ کو خواجہ خوردؒ سے اور ان کو حضرت شیخ احمد سرہندیؒ سے اور ان کو خواجہ باقی باللہؒ سے اجازت ملی ۔

دوسرے بزرگ جن سے شاہ عبدالرحیمؒ کو اجازت ملی وہ سید عبداللہؒ ہیں ، ان کو شیخ آدم بنوریؒ سے اور انکو شیخ احمد سرہندیؒ سے اجازت ملی ۔تیسرے بزرگ خلیفہ ابوالقاسمؒ جن سے آپ کے والد کواجازت ملی جو حضرت کے فیض یافتہ اور امیر ابوالعلاؒ کے صحبت یافتہ ہیں ۔اسی طرح آپ کے والد محترمؒ کو اور جگہوں سے بھی اجازت ملی ۔ صاحب ذوق ان کتابوں کا مطالعہ کرکے تفصیل میں جاسکتا ہے ۔اب میں ان باتوں کی طرف آتا ہوں جس میں شاہ صاحبؒ نے براہ راست ابن عربیؒ سے استفادہ فرمایا، بلکہ یوں کہئے کہ آسان طریقے سے سمجھانے کے کوشش کی ۔

فرشتوں کے بارے میں:ایک عجیب بات تو یہ ہے کہ شاہ ولی اللہ ؒ نے فرشتوں کے بارے میں بڑی تفصیل سے گفتگو فرمائی ہے اور یہ بات آپ کی مختلف کتابوں میں بکھری ہوئی ہے ،آپ حجۃ اللہ البالغہ اٹھائیں یا کوئی اور کتاب، جیسے سطعات یا لمعات وغیرہ ، یا آپ تفہیمات الٰہیہ کو ملاحظہ فرمائیں، آپ کو ان میں فرشتوں کا ذکر ملے گا ۔ یہ بات ابن عربی ؒ کی کتابوں میں بھی کامن طور پر ملتی ہے ۔ آپ اگر فتوحات مکیہ کو ملاحظہ فرمائیں تو یہ باتیں آپ تفصیل سے پائیں گے۔ ابن عربی ؒ نے بھی ملا ئےاعلیٰ اور ملا ئےسافل کے فرشتوں کی بات کی ہے اور ان کی کتابوں میں بھی بڑی تفصیل سے یہ بات ملے گی۔

حتیٰ کہ شاہ ولی اللہ ؒ نے فرشتوں کی شباہت بھی بتائی کہ وہ کس قسم کے ہیں ۔ یہ تفصیل آپ کو سطعات کے آخر میں مل جائےگی ۔ اسی طرح آپ لمعات کو ملاحظہ فرمائیں گے تو اْس میں بھی آپ کو یہ چیزیں مل جائیں گی۔یہ کئی لمعات پر محیط ہے اور آپ کو حیرت ہوگی کہ بقول شاہ ولی اللہ ؒ بعض انسان بھی فرشتوں کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں اور جب تک وہ ان میں شامل ہیں ان کا شمار بھی فرشتوں میں ہوتا ہے ۔۔

حضرت ابن عربی ؒنے اپنی تاریخی کتاب فتوحات مکیہ میں حروف کے اسرار بیان فرمائے ہیں، یہ مختلف جلدوں میں ہیں، یہاں چند کاذکر کروں گا ۔فتوحات مکیہ کی جلد اول ، باب دوم سے شروع فرماتے ہیں اور جلد اول کا باب دوم اسی معلومات سے پر ہے۔

اس میں آپ نے بڑی تفصیل سے ان کا ذکر فرمایا ہے اور عجیب و غریب چیزیں بیان فرمائی ہیں، مثلاً آپ نے فرمایا کہ کچھ حرفوں کا تعلق انسانوں سے، کچھ کا تعلق فرشتوں اور کچھ کا تعلق جنات سے ہوتا ہے۔ کچھ گرم ہیں، کچھ سرد، کچھ خشک اور کچھ تر۔ اسی طرح انہوں نے ان کے بہت سے بین السطور راز بھی بیان کیے ہیں۔

فتوحات مکیہ کی تیسری جلد باب 26 میں آپ نے یہاں تک فرمایا ہے کہ جب آدمی کچھ بولتا ہے تو سامنے والا اسے سن لیتا ہے اور پھر ان الفاظ کو روح مل جاتی ہے اور نیکی پر مبنی یہ الفاظ ہمیشہ ہمیشہ کےلیےاللہ کی عبادت میں مشغول ہوجاتے ہیں۔

یہ دونوں حوالے میں نے فتوحات مکیہ کے اردو ترجمے سے لئے ہیں ۔ ان کا ترجمہ سید فاروق قادری نے فرمایا ہے۔

شاہ ولی اللہ ؒ نے بھی ان حروفوں کا اپنی کتاب ہوامع میں ذکر فرمایا ہے جو حزب البحر کی شرح ہے۔

ان افکار و تعلیمات سے پتا چلتا ہے کہ پوری کائنات اور اس کا نظام اللہ تعالیٰ کا تخلیق کردہ ہے،اور انسان کو اللہ تعالیٰ نے جو فہم و فراست اور صلاحتیں عطا کی ہیں،وہ انسان کو اپنے رب کی رضا اور اس کی معرفت میں وقف کردینی چاہییں۔ ان دونوں عظیم مفکروں کی تعلیمات کا مطالعہ کیا جائےتو یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ حضرات انسان کو اپنے رب کی معرفت،اس کی بندگی اور اس کی عبادت کے حقیقی تقاضوں کی دعوت اور پیغام دیتے رہے۔جس کا مقصد درحقیقت ایمان کی بنیاد پر ایسے انسانی معاشرے کی تشکیل ہے جس کی اساس اللہ پر ایمان،اعتراف بندگی،احترام انسانیت اور خدمتِ خلق ہے۔