سفرنامہ مقبوضہ ہندوستان اور محاکمہ مابین انیسؔ و رئیسؔ اور شکیل عادل زادہ

January 17, 2021

مصنّف: سیّد انیس شاہ جیلانی

ترتیب،پیش کش و اہتمام:راشد اشرف، ڈاکٹر پرویز حیدر

صفحات: 372 ،قیمت: 500 روپے

ناشر:فضلی بُک، اُردو بازار، کراچی۔

اُردو زبان یوں بہت خوش قسمت ہے کہ اُس کو چاہنے والوں کی بہت بڑی تعداد میسّر آئی اور چاہنے والے بھی وہ کہ جنہوں نے اُس کے لیے تن مَن دھن سب کچھ لٹا دیا۔ اُردو کے اَن گِنت دِل دادگان میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے زمین دار، سیّد مبارک شاہ جیلانی اوراُن کے صاحبِ قلم صاحب زادے سیّد انیس شاہ جیلانی بھی شامل تھے۔ دونوں ہی نے اپنے اپنے وقت میں اُردو کی محبّت میں جو کچھ ممکن ہو سکتا تھا، وہ کیا۔

انیس شاہ جیلانی نے البتہ تصنیف و تالیف پر بھی بَھرپور توجّہ مرکوز کی۔ ناقدینِ ادب نے اُن کی خاکہ نگاری کو بہت تحسین کی نظر سے دیکھا۔ زیرِ نظر کتاب ’’سفرنامہ مقبوضہ ہندوستان اورمحاکمہ مابین انیسؔ و رئیسؔ اور شکیل عادل زادہ‘‘ بنیادی طور پرہندوستان کے اُس سفر کے بیان پر مشتمل ہے، جو سیّد انیس شاہ جیلانی نے اُردو شاعری کے بے بدل قطعہ نگار ،رئیسؔ امروہوی کے ہم راہ اسّی کے عشرے میں کیا تھا۔

کنور مہندر سنگھ بیدی سحرؔ اُن کے میزبان تھے۔ رئیسؔ کی شخصیت کے بے شمار رنگ تھے۔ کہیں بزرگی کا وقار تو کہیں بچّے کی چہکار،کہیں عالم کے سے تیور تو کہیں ذہین طالب علم کے سے جوہر۔ یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ ایک رئیسؔ اور رُوپ ہزار۔مصنّف کو اُس سفر میں اپنے ہم راہی اور قافلہ سالار ،پارہ صفت رئیسؔ امروہوی سے سخت شکایات لاحق ہوئیں، تلخ تجربات سے گزرنا پڑا ،مختصر یہ کہ ’’سفر وسیلۂ ظفر‘‘ کی بجائے زندگی کا ناخوش گوار ترین دَور ثابت ہوا، توسیّد انیس شاہ جیلانی نے یہ سب کچھ بلا کم و کاست بیان کر ڈالا ہے۔ مصنّف اور رئیسؔ امروہوی کے مابین اس سلسلے میں جو مراسلت رہی،وہ بھی شاملِ کتاب ہے۔ مزید برآں نام وَر قلم کار، شکیل عادل زادہ بھی کتاب میں مستقل حوالے کے طور پر موجود ہیں۔ کتاب کے آخر میں تصاویر بھی ہیں۔ البتہ کسی تیکینکی غلطی یا کسی اور اُلجھن کے باعث کتاب کا اختتام نامکمل ہے۔