بلاعنوان

January 15, 2021

ابھی تک مہنگائی اور اشیائے ضروریہ کے نرخ کنٹرول کرنے کے حوالے سے ہر حکومتی فیصلہ ناکام نظر آرہا ہے۔ حکومت کے لاکھ جتن کے باوجود مہنگائی کا بے قابو جن قابو میں نہیں آرہا۔ لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ اتنی کوششوں کے باوجود کیا وجہ ہے کہ حکومت بنیادی اور روزمرہ استعمال کی اشیاء کے نرخوں پر قابو پانے میں ناکام ہے؟ گیس، بجلی اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں پر بعد میں بات کرتے ہیں۔ اگرچہ موجودہ مہنگائی کے طوفان میں ان چیزوں کا بھی بڑا عمل دخل ہے۔

اس وقت مارکیٹ میں شاید ہی کوئی چیز سستی ہوئی ہو۔ اگر بعض سبزیوں کے نرخوں میں معمولی کمی بیشی ہوتی بھی ہے تو وہ بھی عارضی ہوتی ہے۔ آٹے کےنرخ میں اضافے کو دیکھ لیں یا چینی کی قیمت کا جائزہ لیں۔ اسی طرح گھی، مرغی، دالیں ، کوکنگ آئل حتیٰ کہ انڈوں کی قیمتوں میں کمی کے بجائے روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے۔ جہاں تک آٹے اورچینی کے نرخوں میں اضافے کی بات ہے تو سب کو معلوم ہے کہ چند اپنوں نے موجودہ حکومت کو ناکام یا بدنام کرنے کے لئے نہ صرف غلط مشورے دیے بلکہ اس سے اربوں روپے بھی کمائے۔ یہاں دو چیزیں سامنے آتی ہیں۔ ایک حکومت کی ناسمجھی اور دوسری ناقص حکمتِ عملی۔ حکومت میں آنے سے پہلے تو ہم نے وہ کاغذات بھی دیکھے جو جلسوں میں لہرائے جاتے تھے کہ یہ اگلے تین مہینے کی منصوبہ بندی ہےاور برسراقتدار آکر نوے دنوں میں کایا پلٹ دی جائے گی۔ اس ٹیم کے بارے میں بھی بتایا جاتا تھا جو ہر قسم کے ماہرین پر مشتمل تھی۔ زیادہ تفصیل میں جانے کے بجائے آمدم برسرِمطلب اب حکومت ناکام اور عوام مایوس نظر آتے ہیں۔

دکھ کی بات یہ ہے کہ تمام تر بیانات، انکوائریوں اور دعوئوں کے باوجود ان لوگوں کا بال بھی بیکا نہیں ہوا جو گندم اور چینی کے بحران کے ذمہ دار ہیں۔ حکومت نے بعض لوگوں کے مشوروں پر پہلے گندم اور چینی کی برآمد کی اجازت دی اور پھر بعض لوگوں کے مشوروں پر گندم اور چینی درآمد کرنے کی اجازت عنایت فرمائی۔ یہ کیسی حکومت اور اس میں کیسے ہیرے ہیں جو الٹے فیصلے کرتے ہیں۔ اگر اس وقت وفاقی کابینہ کو یہ باور نہ کرایا جاتا کہ یہ دونوں اشیاء ضرورت سے زیادہ اور وافر مقدار میں موجود ہیں اور ان کو بر آمد کرنے سے ملک کو بڑا فائدہ ہو گا تو نہ وزیر اعظم عمران خان اور نہ ہی وفاقی کابینہ کے ارکان گندم اور چینی کی برآمد کی منظوری دیتے۔ چلیں یہ تو حکومت کو مس گائیڈ کیا گیا اور حکومتی اراکین نے ناتجربہ کاری کی وجہ سے برآمد کی اجازت دیدی لیکن جب بحران پیدا ہوا ، جو اب تک جاری ہے، تو اس بحران کے ذمہ داران کو پھر سخت سزا کیوں نہ دی گئی۔ کیا وہ لوگ اتنے طاقتور ہیں کہ جب چاہیں غریب عوام کا خون چوسیں ۔ جب چاہیں ملک کو معاشی بحران میں مبتلا کر دیں۔ کیا یہ لوگ محب وطن ہیں اور ان کو سخت سزادینے اور ان کو لگام ڈالنے والاکوئی نہیں ؟ آخر حکومت ان مافیاز کے آگے بے بس کیوں ہے۔ کیا ان پرکوئی قانون لاگو نہیں ہوتا جو ایسے لوگوں کو من مانیوں سے روک سکے؟ باقی باتوں کے لئے تو ہر روز آرڈیننس آجاتا ہے۔ کیا ان مافیاز کے خلاف کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ کیا حکومت کا بس غریب عوام پرہی چلتا ہے یا پھر اپوزیشن والوں پر؟ گندم اور چینی کے علاوہ بجلی اور پیٹرول مافیاز بھی ہیں۔ وہ بھی آزاد ہیں۔ جب پیٹرول ٹکہ سیر یعنی مفت مل رہا تھا تو اس شعبہ سے تعلق رکھنے والے مافیاز نے حکومت کو پیٹرول منگوانے اور ذخیرہ کرنے سے روکا۔ اور خود ذخیرہ کیا گیا مال بعد میں مہنگا کر کے بیچا۔ پیٹرول نہ منگوانے سے پیٹرول کا جو بحران پیدا ہوا، وہ سب کوپتہ ہے۔ ویسے بھی اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جب یہ معلوم ہو جائے کہ دو دن بعد پیٹرول مہنگا ہو رہا ہے تو پیٹرول پمپ مالکان بھی فروخت بند کر دیتے ہیں۔ جب پیٹرول مالکان کے خلاف اس حرکت پر کوئی کارروائی کرنے والا نہیں ہے تو جو پیٹرول مافیاز ہیں، ان کے خلاف کسی کارروائی کا تو سوچا بھی نہیں جا سکتا۔

جہاں تک گیس کی نایابی کا تعلق ہے تو یہ بھی حکومت کی ناقص منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے۔ آنے والے دنوں میں یہ بحران مزید بڑھ سکتا ہے ۔ بجلی اور گیس کے نرخوں میں اضافے کی وجہ آئی ایم ایف کا قرضہ دینےکے حوالے سے سخت شرائط ہیں جن کو پورا کرنا حکومت کی مجبوری ہے۔ نہ جانے سابقہ حکومتیں ملک کو کس طرح چلا رہی تھیں کہ قرضوں کے باوجود یہ حال نہیں تھا۔ اس بارے میں حکومت کا کہنا ہے کہ وہ مصنوعی طریقے سے مہنگائی کو کنٹرول کرتی تھیں۔ ’’تو عوام کو اور کونسی چیز اصلی ملتی ہے‘‘۔ اس لیے عوامی رائے تو یہ ہے کہ جناب آپ اصل یا مصنوعی طریقہ اختیار کریں، خدارا! ہمیں اس کمر توڑ اور ناقابلِ برداشت مہنگائی سے نجات دلا دیں۔ اب تو خدا کا شکر ہے کہ ملک میں امن و امان کی صورتحال بھی پہلے سے ہزار درجہ بہتر ہے۔ ملک میں اگر مسائل ہیں تو وسائل بھی ہیں۔ ان وسائل کو بروئے کار لا کر مسائل حل کریں۔ اپوزیشن اور حکومتی ناپسند افراد کی پکڑ دھکڑ سے نہ ملک کے مسائل حل ہوںگے نہ عوام کی مشکلات کا خاتمہ ہو گا۔

آخر میں پی ڈی ایم۔ پی ڈی ایم کا اسلام آباد یا راولپنڈی کی طرف مارچ کا ارادہ ہے۔ شنید ہے کہ مولانا فضل الرحمان کے بیانات کے باوجود پی ڈی ایم کے مارچ کا رخ اسلام آباد کی طرف ہو گا کیونکہ پنڈی کی سڑک پر سفر تھوڑا مشکل ہو گا۔ یہ راستہ اونچا نیچا اور پتھریلا ہے۔ اگر اس کے باوجود وہ پنڈی آتے ہیں تو ان کی مرضی۔