وزیراعظم راجہ فاروق حیدر بھی بلدیاتی انتخاب کرانیکا کا وعدہ وفا نہ کرسکے

January 21, 2021

آزادکشمیرکی برسراقتدارپارٹی کے اقتدارکی آخری پانچ ماہ رہ گئے ہیں 2021 الیکشن کاسال ہوگا،آزادکشمیرموجودہ حکومت نے ساڑھے چار سالوں میں کیاکھویاکیاپایا؟آزادکشمیرکی موجودہ برسراقتدارحکومت جوپاکستان مسلم لیگ ن آزادکشمیرکے صدرراجہ فاروق حیدرخان کی وزارت عظمیٰ اورایک سینئر سفارتکار سردار محمد مسعود خان کی صدارت میں گزشتہ ساڑھے چارسالوں سے عنان اقتدارسنبھالی ہوئی ہے اب اس کی مدت صرف پانچ ماہ باقی رہ گئی ہے کیونکہ سال رواں میں 21مئی کے بعد اور 21جولائی سے قبل نئے انتخابات ہوں گے اگرچہ آزادکشمیرمیں نئے انتخابات سے قبل پاکستان کی طرح نگران حکومت کے قیام کی کوئی گنجائش موجودنہ ہے بلکہ جوحکومت برسراقتدارہوتی ہے اسی کی نگرانی میں نئے انتخابات ہوتے ہیں۔

البتہ آزادکشمیرمیں نئے انتخابات سے کم ازکم ساٹھ دن قبل حکومت کے اختیارات ختم ہوجاتے ہیں۔اس دوران نہ ہی حکومت کوئی ترقیاتی منصوبہ جات کااعلان کرسکتی ہے نہ کوئی تعیناتیاں اورنہ ہی تبادلے اورنہ ہی ایسااقدام کرنے کااختیاررکھتی ہے جوحکومتی سطح پرکئے جاتے ہیں۔اختیارات چیف سیکرٹری حکومت اورچیف الیکشن کمشنرکومنتقل کیے جاتے ہیں اس دوران اگرکوئی انتہائی اہم نوعت کی تعیناتی یاسرکاری ملازم کاتبادلہ یاکوئی اہم نوعیت کے معاملات کرنے ہوںتوچیف الیکشن کمشنرکی اجازت سے چیف سیکرٹری کرسکتاہے ۔اس دوران نئی تعیناتیوں تبادلوں اورترقیاتی کاموں پرمکمل پابندعائدہوجاتی ہے اس طرح عملی طورپرآزادکشمیرکی موجودہ حکومت کے پاس صرف تین ماہ عرصہ باقی ہے جس میں وہ اپنے اختیارات استعمال کرسکتی ہے ۔

آزاد کشمیرکے موجودہ وزیراعظم راجہ فاروق حیدرنے جولائی 2016ء میں جب انتخابات میں حصہ لیاتھااس دوران انتخابی مہم کے دوران ایک منشورجاری کیاتھاکہ جس میں کہاتھاکہ وہ اقتدارمیں آنے کے فوری بعداس منشورکے مطابق عملدرآمدکروائیں گے ۔اگرچہ مسلم لیگ ن کوجولائی 2021ء کے انتخابات میں توقع سے بڑھ کراسمبلی کی نشستیں ملیں تھیںاورموجودہ حکومت کے پاس اس وقت تک بھی دوتہائی اکثریت ممبران اسمبلی موجودہیں اس لئے بلاشرکت غیرجوکرناچاہتی کرتی تھی۔

مگر عملاً ایسانہ کرسکی۔وزیراعظم راجہ فاروق حیدرخان جومسلم لیگ ن آزادکشمیر کے صدر بھی ہین نے یہ اعلان کیاتھاکہ اقتدارمین آنے کے چھ ماہ کے اندرآزادکشمیرمیں بہرصورت بلدیاتی انتخابات کرواکرانتخابات نچلی سطح پرمنتقل کریں گے کیونکہ آزادکشمیر میں آخری مرتبہ بلدیاتی انتخابات نومبر1991ء میں ہوئے تھے جن کی مدت نومبر1995ء میں ختم ہوگئی تھی اس وقت کی حکومت جس کے سربراہ سردارعبدالقیوم خان تھے نے انتخابات ملتوی کردیئے تھے ۔بعدازاں جون جولائی 1996ء مین ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں آزادکشمیرمین پی پی نے حکومت بنائی سردار محمدابراہیم خان صدرریاست بیرسٹرسلطان محمودچوہدری نے بحیثیت وزیراعظم حکومت سنبھالی۔

بلدیاتی انتخابات کروانے کے لئے نومبر1996ء کی تاریخ دے دی گئی تھی۔انتخابات میں حصہ لینے والے امیدوارو ں نے کاغذات نامزدگی اورسکیورٹی فیس بھی جمع کروادی تھی مگرانتخابات کی تاریخ سے چندروزقبل نونومبر1996ء کواس وقت کے وزیراعظم سلطان محمودچوہدری نے بلدیاتی انتخابات غیرمعائنہ مدت کے لئے ملتوی کرتے ہوئے تمام بلدیاتی اداروں میں حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے سیاسی زعماء کو بطور ایڈمنسٹریٹر تعینات کردیا تھا۔

اس وقت سے لے کرآج تک بلدیاتی انتخابات ہردفعہ ملتوی ہوتے جارہے ہیں۔راجہ فاروق حیدرکی حکومت بھی حسب سابق اس حوالے سے اپناوعدہ پورانہ کرسکی اورمختلف حیلے بہانے بناکربلدیاتی انتخابات ملتوی کرتی رہی۔ اس طرح راجہ فارق حیدرکی حکومت اپنے پیش کردہ منشورسے پہلے حصے کوآج تک پورانہیں کیا۔اس وقت مسلم لیگ ن کی حکومت نے واضح اوردوٹوک الفاظ میں اعلان کیاتھاکہ اقتدارمیں آنے کے فوری بعد آزاد کشمیر میں سابق حکومتوں کی جانب سے کی گئی کرپشن کاحساب لیں گے اورقومی خزانہ لوٹنے والوں پرکڑااحتساب کریں گے کسی مصلحت کاشکارنہیں ہوں گے مگراب جبکہ مسلم لیگ ن کی حکومت کوچندماہ باقی رہ گئے ہیں ان ساڑھے چارسالوں میں احتساب کے حوالے سے موجودہ حکومت کی کارکردگی صفرہے۔

البتہ احتساب بیوروکے چیئرمینوں کولگایاجاتارہامگران سے کوئی کام نہیں لیاگیا۔ موجودہ حکومت کے وزیراعظم نے اس وقت یہ وعدہ بھی کیاتھاکہ وہ آزادکشمیرکے آئین میں ترمیم کرکے ایکٹ 1974ء کواپنی اصل حالت میں بحال کریں گے اورآزادکشمیرمیں ایک باوقار اور بااختیارحکومت کاقیام عمل میں لایاجائے گا۔یہ وعدہ صرف اس حدتک پوراہواکہ مئی2018ء میں جب پاکستان میں قائم مسلم لیگ ن کی حکومت گھرجارہی تھی توآخری دنوں آزادکشمیرکے عبوری ایکٹ 1974ء میں 13ویںکی گئی جس کے ذریعے صرف چونگیوں اورٹھیکوں کے فنڈزحکومت آزادکشمیرنے وصول کرنے کااختیارلیا۔سب سے بڑا اختیار جووزارت امورکشمیرکوختم کرنااوراعلیٰ عدالتوں میں ججزکی تعیناتی کرنے کااختیارلینا تھاوہ نہ لیاجاسکا۔

البتہ آزادکشمیرمیں اعلیٰ عدالتوں کے ججزکی تعیناتی کی منظوری کا اختیار چیئرمین کشمیرکونسل سے لے کرکشمیرکونسل کودیاگیاتھامگراس پربھی عملددرآمدنہ ہوسکااوراب چوہدویں ترمیم کرکے یہ اختیاراب واپس وزیراعظم پاکستان کودیاگیاہے کہ وہی اعلیٰ عدالتوں کے ججزکی تعیناتی کی منظوری دیں۔موجودہ حکومت کے وزیراعظم اوروزراء اب بارباریہ اعلان کررہے ہیں کہ ان ساڑھے چارسالوں میں آزادکشمیرمیں ریکارڈترقیاتی کام ہوئے ہیںجن کی مثال 73سالو ں میں نہیں ملتی۔

اس حوالے سے عام آدمی کایہ کہناہے کہ وہ ریکارڈترقیاتی کام آخر زمین پر نظرکیوں نہیں آرہے ہیں اگر حکمران جماعت کے کارکنان کے ذریعے ترقیاتی فنڈز تقسیم کرکے چند کلو میٹر لنک روڈز، پانی کی ٹنکیاں اوربورنگ کروانا ریکارڈ ترقیاتی کاموں میں آتاہے اس کافیصلہ آنے والے انتخابات میں عوام کریں گے ۔البتہ آزاد کشمیرمیں پرائمری اورجونیئراساتذہ کی تعیناتی کیلئے N.T.S کانظام موجودہ حکومت نے نافذ کیا۔

اس کے ذریعے ایسے لوگوں کی تقرریاں بھی کی گئیں جوخالصتاًمیرٹ پر آئیں اور عام حالات میں ان کے پاس کوئی سفارش نہیں تھی یہ کریڈٹ وزیراعظم آزاد کشمیر کو جاتا ہے ۔اس کے علاوہ آزادکشمیر میں پبلک سروس کمیشن قائم کیاگیا اور کسی حدتک اس کے ذریعے بھی جوتعیناتیاں کی گئی ہیں ان میں خالصتاً اہلیت کو مدنظرر کھا گیا۔