تماشا دکھا کر مداری گیا

January 22, 2021

قومی حوالے سے آج کالم تو بنتا تھا فارن فنڈنگ کیس پر اور اِس سلسلے میں الیکشن کمیشن نے گزشتہ سات برسوں سے جو وتیرہ اپنا رکھا ہے اُس کا جائزہ لیا جاتا۔ اُس کے ساتھ ہی براڈ شیٹ کیس نے رہی سہی کسر نکال بھی دی ہے۔ جب ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور ہوں تو پھر یہی کچھ ہوتا ہے، کرپشن کے نام پروپیگنڈہ کرنے کا واحد مقصد سیاست دانوں کی بدنامی ہو تو پھر رزلٹ وہی آنا تھا جو برطانوی عدالت کے فیصلے میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ ماقبل ریکوڈک کیس سے کیا حاصل ہوا؟ طیارہ لیز کیس پر جہاں بھر میں ہماری رسوائی کیا کم ہوئی؟ جھوٹ بول نہیں سکتا اور سچ پر مشکلات ہی مشکلات ہیں، بہتر ہے کہ اپنا سارا غم و غصہ امریکی صدر ٹرمپ پر نکال لیا جائے۔ سب جانتے ہیں کہ زندگی کی طرح اقتدار بھی عارضی چیز ہے، اسٹالن، مسولینی اور ہٹلربھی اپنے تئیں سمجھتے تھے کہ وہ ناگزیر ہیں، ان کا متبادل کوئی نہیں۔ خود پسندی در اصل ایک بیماری ہے جس کا شکار کوئی بھی مریض اپنے تئیں یہ خیال کرتا ہے کہ وہ دنیا میں انوکھا پیدا ہوا ہے، اُس جیسا کوئی اور نہیں ہے، وہ بہت اونچا ہے اور اس کے ارد گرد سب بونے ہیں۔ دنیا میں صرف ہٹلر ہی اِس بیماری کا شاہکار پیدا نہیں تھا، اگر آپ غور فرمائیں تو آپ کو اپنے ارد گرد بہت سے چھوٹے چھوٹے ہٹلر چلتے پھرتے نظر آئیں گے مگر ان کا بس نہیں چلتا ، بس چلے تو وہ جرمنی اور اٹلی والوں کا ریکارڈ یہاں پاکستان میں بھی توڑ دیں۔ درویش نے کوئی چار برس قبل ایک آرٹیکل لکھا تھا ’’سیاست کے تھری ایڈیٹس‘‘ یعنی ’’تین زیادہ سیانے‘‘۔ جن میں سے ایک تو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ تھے جو ابھی رخصت ہوئے ہیں اور آج کا کالم اُنہی سے منسوب ہے۔ دوسرے بھائی صاحب ہماری ہمسائیگی میں ہی پائے جاتے ہیں جنہوں نے ہمارے برعکس اپنے ملک کیلئے کئی کامیابیاں یا ’’بہتریاں‘‘ بھی کی ہیں لیکن اپنی اپوزیشن یا اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف وتیرہ ان کا بھی ٹرمپ جیسا ہی رہا ہے۔ خود پسندی اورکروفر تینوں کا ایک جیسا ہے لیکن اِن دو ناموں کے بعد ہم خاموشی میں ہی عافیت خیال کریں گے ، قارئین خود اپنی عقل بھی تو استعمال کریں۔ہمارے ہاں بہت سے لوگ ہیں جو اپنی کجی، کوتاہی کو ہلکا ثابت کرنے کے چکر میں دوسروں کی طرف ایک نہیں پانچوں انگلیاں اٹھاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ بھائی صاحب طاقتوروں کا کردار ہر جگہ ایسے ہی ہوتا ہے، آپ پینٹاگون کو نہیں دیکھتے وہ کیا کچھ کرتا پھر رہا ہے، جب پوچھا جائے کہ ان کا کوئی ایک اقدام واضح فرمائیں جو ماورائے آئین ہو تو پھر ادھر ادھر کی الزام تراشیاں شروع کر دیں گے۔ 6جنوری کو امریکہ میں جو کچھ ہوا وہ بلاشبہ قابلِ افسوس ہے لیکن یہ امر ہمیشہ پیش نظر رہنا چاہئے کہ اس میں امریکی اسٹیبلشمنٹ کا رول بہرصورت قابلِ ستائش قرار دیا جائے گا اور یہی امریکی جمہوری نظام کی عظمت ہےکہ لال بجھکڑ یا ڈرامے باز بھی امریکہ جیسی عظیم الشان جمہوریت میں داخل ہو سکتے ہیں لیکن یہ امریکی آئینی، جمہوری اور سیاسی سسٹم کی مضبوطی و پائیداری پر استوار بنیادیں ہیں جو ازخود ایسے خبطی کی راہ روک دیتی ہیں۔ کوئی غیرذمہ دار مسخرہ ان بنیادوں کو پامال نہیں کر سکتا۔ اِن چار برسوں میں بلاشبہ ٹرمپ نے امریکی عظمت کو داغدار کیا، اس کی جمہوری پہچان پر چوٹیں لگائیں، دوستیاں کم اور دشمنیاں زیادہ بڑھائیں، اپنے لاابالی پن سے امریکی صدر کو ایک مسخرے اور جوکر کے طور پر پیش کیا، اگرچہ کئی مثبت اقدامات بھی کئے لیکن اِس کی نسل پسندانہ سوچ اور عالمی ذمہ داریوں سے دستبرداری نے امریکی وقار کو جتنا بھی نقصان پہنچایا وہ سب قابلِ اصلاح ہے۔ 3نومبر کے انتخابی عمل پر اُس نے جو بھی کالک پھینکی، خود وقت اور امریکی عوام نے اسے صاف کر دیا۔ اس کے بعد اگر اس میں کچھ بھی انسانی بڑائی ہوتی تو وہ اعلیٰ امریکی روایات کی پاسداری کرتے ہوئے نہ صرف اپنے سیاسی حریف، نومنتخب صدر جوبائیڈن کو مبارکباد پیش کرتا بلکہ بھاری طبیعت کے ساتھ ہی سہی اس کی تقریب حلف برداری میں شریک ہوتا یوں 160سال بعد ناپسندیدہ حرکت نہ ہوتی۔ درویش کا گمان ہے کہ ایک عرصے تک صدر ٹرمپ وائٹ ہائوس میں اگلی ایک ٹرم کیلئے ے بھنتے رہیں گے لیکن وہ آئندہ کیلئے اپنی تمام تر چمک کے باوجود ری پبلکن سے نامزدگی حاصل کرنے سے قاصر رہیں گے، بہتر ہو کہ وہ اپنے کئی اقدامات بشمول 6جنوری والے واقعے پر قوم سے معافی مانگتے ہوئے قومی یکجہتی کیلئے ہر نوع کی منافرت سے قطع تعلقی کا اعلان کریں اور نو منتخب امریکی صدر جوبائیڈن نہ صرف ٹرمپ کی امیگریشن پالیسی بلکہ دنیا بھر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مخالفت میں آواز بلند کرتے ہوئے غلط پالیسیوں کی تطہیر کریں۔ جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والے یقیناً امریکی نائبصدر کملا دیوی ہیرس کو دہری مبارکباد پیش کریں گے۔ نومنتخب ڈیموکریٹس گورنمنٹ حسبِ روایت نہ صرف امریکی عوام کیلئے بلکہ دنیا بھر کے مظلوم عوام کیلئے نئی امیدوں کے ساتھ نئی صبح کا آغاز کرے گی اور امریکہ عالمی امن، انسانی حقوق، جمہوریت، حریت فکر اور آزادی اظہار کیلئے اپنی عالمی ذمہ داریوں سے انحراف نہیں کرے گا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)