ایشیا میں طاقت کا توازن

January 23, 2021

2021امیدوں اور خوف کے درمیان، غیرمتوقع حالات لے کر وارد ہوا ہے۔ گزشتہ سال نے بلاتفریق طاقتوروں اور کمزوروں کو تباہی سے دوچار کیا۔ وبائی مرض سے مرنے والوں کی تعداد بڑھتی ہی جارہی ہے۔ امریکہ جیسا اہم ملک، اِس سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ عالمی تنہائی کا شکار امریکہ، کوئی ایسی حکمتِ عملی وضع کرنے میں تاحال ناکام رہا ہے جس کی بطور سپر پاور اس سے توقع کی جا سکتی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کا پہلا صدر ہے جسے اپنے عرصۂ صدارت میں دوسری بار اس وباء کا سامنا ہے۔ اس کی حکومت جانے کے بعد کیپیٹل ہِل، جسے امریکہ کی سب سے محفوظ عمارت سمجھا جاتا ہے، طوفان کی زد میں آگئی۔ ہر کوئی اِس غیریقینی صورتحال پر حیران ہے۔ تکبر کرنے والے زوال پذیر اور نچلی سطح کے طبقات اوپر آ رہے ہیں۔ تبدیلی واضح طور پر نظر آرہی ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے ہمیشہ کے لئے امریکی سیاست کا اندرونی اور بیرونی چہرہ بدل دیا ہے۔ ٹرمپ ایک متکبر، خود غرض کاروباری ہے جس نے امریکی عوام کی حمایت حاصل کی اور وائٹ ہاؤس کو اپنی ذاتی سوچ کے تحت استعمال کیا۔ اس نے امریکہ کو عالمی ماحولیاتی ڈائیلاگ سے الگ کیا۔ ایرانی امن معاہدے کو سبوتاژ کیا۔ ایران کے جنرل سلیمانی جیسی اہم شخصیات کے قتل، عراق اور افغانستان سے فوجوں کو واپس بلانے جیسے فیصلے کیے۔ اس نے شام کو بشارالاسد اور روس کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا اور ایک متفقہ پُرامن دنیا کے قیام کو ناممکن بنادیا جہاں امریکہ اور چین باہمی کردار ادا کر سکتے تھے۔ اس نے تارکینِ وطن، مسلمانوں، ہسپانوی اور سیاہ فام لوگوں کو دشمن بنا کر امریکہ کوتقسیم کر کے رکھ دیا۔ اپنے اہداف حاصل کرنے کے لئے اس نے بدترین سیاست کی۔ وہ نریندر مودی اور بلسانارو جیسے بدترین رہنماؤں کی پشت پناہی کرتا رہا۔ امریکی سیاست نے جارج فلائیڈ واقعے اور اس کے نتیجے میں ہونے والے تشدد کے باعث اپنی قدریں گنوائیں۔ جنوری 2021میں، پوری انسانیت حیرت اور خوف سے بلوائیوں کے ہاتھوں کیپٹل ہِل پر سینٹ کارروائی کو متاثر ہوتے دیکھ رہی تھی۔ اس طرح کا واقعہ بیجنگ میں ہونا تقریباً ناممکن ہے۔ امریکہ تنہائی کا شکار ہے، جو تقسیم اور ایک کے بعد ایک آفت سے دو چارہے۔

جو بائیڈن کیلئے کام دشوار کر دیا گیا ہے۔ اسرائیل، جزوی طور پر ڈونلڈ ٹرمپ اور اس کی ٹیم کی مداخلت کی وجہ سے، مسلم دنیا میں جڑیں پکڑ رہا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ بحرانی کیفیت کا شکار ہے۔ اسرائیل نے فوجی، تکنیکی اور تجارتی مدد کے ذریعے مسلمانوں میں پھوٹ ڈال دی ہے۔ فلسطینیوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا گیا، اقوامِ متحدہ میں فلسطین کی حمایت اور حقوق کی آواز دبائی جا رہی ہے۔ اسرائیل لڑاکا ہوائی جہازوں، میزائلوں اور فوجی سازوسامان کا سب سے بڑا برآمد کنندہ ہونے کے ناطے، فوجی تسلط کی خواہاں ریاستوں کے لئے پرُکشش بنا ہوا ہے۔ 1998میں، میں نے ایک مضمون اسرائیل کی جوہری صلاحیت کو اجاگر کرنے اور مشرق وسطیٰ میں اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے مغربی طاقتوں بالخصوص امریکہ کے ذریعہ شروع کی جانے والی کوششوں کے متعلق لکھا تھا۔ میری پشین گوئی کے عین مطابق مصر سے عبدالناصر کی ناکامی، عراق سے جوہری ہتھیاروں کے حصول میں ناکامی کے بعد، فلسطینیوں اور اس خطے میں مسلم ریاستوں کی خودمختاری کو مستقل طور پر ختم کردیا گیا۔ 23سال بعدیہ باتیں درست ثابت ہو رہی ہیں۔ نیتن یاہو کے اقدامات نے دنیا اور مسلم ریاستوں کو مزید تقسیم کردیا۔ ایک بار پھر، صیہونی پالیسیاں غالب آرہی ہیں، جو صرف کسی ایک خطے کے لیے نقصان دہ نہیں ہیں۔

فلسطینی اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات شروع کرنیوالی عرب اقوام کے اقدامات پر حیرت زدہ ہیں۔ متوازی طور پر ترکی اور پاکستان ان کی امیدوں کا مرکز بن رہے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ پاکستان پہلے سے اس مؤقف پر ڈٹا ہوا ہے، جس پر ایران اور ترکی اب سٹینڈ لے رہے ہیں۔ میں نے 1998میں لکھا تھا، اسلامی اقدار کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو اپنے دشمن ہمسائے کے سامنے ترقی کرتا رہا جو سائز اور طاقت میں اِس سے کہیں بڑا ہے۔ اگر پاکستان اپنی صلاحیت کا ادراک کر لیتا اور 1971سے پہلے ہی نیوکلیئر پاور بن جاتا تو صورتحال اور بھی مختلف ہوتی، بہرحال بھٹو اور اے کیو خان کی بدولت پاکستان واحد اسلامی جوہری قوت ہے۔ اسرائیل کے ساتھ بات چیت تبھی ہوسکتی ہے جب فلسطینیوں کو ان کے حقوق اور آزادی دی جائے۔

جنوری 2021 کے تیسرے ہفتے میں، جیو پولیٹیکل تجزیہ کار فرم ’’گلوبل فائر پاور‘‘ نے پاکستان آرمی کو دنیا کی 10 ویں مؤثر ترین فوج قرار دیا ہے۔ فوجی استعداد کے لحاظ سے پاکستان اسرائیل، جرمنی، اٹلی یہاں تک کہ سعودی عرب جیسے ممالک سے بھی کہیں آگے ہے۔ایٹمی صلاحیت رکھنے والی قوم کی حیثیت سے پاکستان انتہائی محفوظ اور رائٹ ٹریک پر ہے ۔ ہندوستان سے اب کوئی خطرہ نہیں۔ پاکستان اس پوزیشن میں ہے کہ وہ ناصرف اپنا دفاع کر سکتا ہے بلکہ جنگوں کی صورت میںآذربائیجان جیسے مسلمان ممالک کی مددبھی کر سکتاہے۔ پاکستان دنیا بھر میں اقوام متحدہ کی افادیت کو برقرار رکھنے میںپیش پیش ہے۔ شاید پاکستان ان بلندیوں پر تاحال نہیں پہنچ پایا جہاں اسے ہونا چاہئے تھا، لیکن یقینی طور پر یہ درست راستے پر گامزن ہے۔ گزشتہ سال پاکستان نے اپنے بزنس فرینڈلی انڈیکس میں 30 پوائنٹس کا اضافہ کیا۔ترقی کے مواقع کے ساتھ ساتھ دشمنوں کے عزائم بھی پیشِ نظر ہیں، یہ پاکستانی عوام خاص طور پر نوجوانوں پر منحصر ہے کہ وہ اپنے ملک کو عظیم تر بنانے کے لیے جو کر سکتے ہیں اسے یقینی بنائیں۔