قومی معیشت: بہتری کی جانب!

January 24, 2021

گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر رضا باقر نے گذشتہ روز آئندہ دو ماہ کے لیے مانیٹری پالیسی کا اعلان کیا جس کے مطابق شرح سود سات فی صد ہی پر برقرار رکھی جائے گی ۔مروجہ سرمایہ دارانہ معیشت میں شرح سود معاشی سرگرمی کو کنٹرول کرنے کی بنیادی تدبیر کی حیثیت رکھتی ہے۔ شرح سود میں کمی کے نتیجے میں مقامی نجی شعبے کی معاشی سرگرمی بڑھتی ہے کیونکہ کاروباری طبقے کو نئی صنعتیں لگانے یا کاروبار کو فروغ دینے کی خاطر لیے گئے قرضوں پر کم سود ادا کرنا پڑتا ہے ۔ اسٹیٹ بینک کے موجودہ سربراہ نے منصب سنبھالنے کے بعد شرح سود کو بلند رکھنے کی پالیسی اختیار کی تھی ۔ایک سال پہلے سود کی شرح 13.25 فی صد کی بلند ترین سطح تک جاپہنچی تھی۔بلند شرح سود بیرونی سرمایہ کاروں کو متعلقہ ملک کے شیئرز اور بانڈز کی خریداری کی جانب راغب کرتی ہے کیونکہ اس طرح وہ مختصر مدت میں بھاری منافع کما سکتے ہیں۔ لیکن قومی معیشت کا حقیقی استحکام بہرحال اسی طرح ممکن ہے کہ ملک کے اندر مقامی طور پر نئی صنعتیں اور کارخانے لگیں تاکہ قومی پیداوار اور برآمدات میں اضافہ ہو، درآمدی اشیاء پر انحصار میں کمی آئے اور روزگار کے نئے مواقع کی افزائش کی بنا ء پر خوش حالی کے نتائج عام لوگوں تک پہنچ سکیں۔ تاہم شرح سود میں کمی نیزتعمیرات اور کپڑے کی صنعتوں کی حوصلہ افزائی کے حکومتی اقدامات کے باعث ان شعبوں میں تو ایک حد تک بہتری نظر آنا شروع ہوئی ہے لیکن مجموعی معاشی سرگرمی میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوسکا ہے ۔ کورونا کی وبا کے علاوہ اس صورت حال کی ایک بنیادی وجہ بجلی ، گیس اور پٹرول کے نرخوں میں مسلسل اضافہ ہے جس کے باعث عالمی منڈی میں ہماری صنعتی اور زرعی پیداوار کی مسابقت کی صلاحیت بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ تاہم بوجوہ ہم ان کے نرخوں میں اضافے کو روکنے میں کامیاب نہیں ہوپارہے ہیں ۔ بجلی کے نرخوں میں تازہ اضافے پر گورنر اسٹیٹ بینک کا کہنا تھاکہ اس کی وجہ سے اشیاء کی قیمتیں بھی بڑھیں گی لیکن اس کے ساتھ ہی انہوں نے اس یقین کا اظہار بھی کیا کہ آگے چل کر مہنگائی کم ہوجائے گی۔ مگر ایسا ہوگا کس طرح؟ اس کی وضاحت ان کے بیان میں نظر نہیں آتی۔ مستقبل کی زری پالیسی کے ضمن میں انہوں نے واضح کیا کہ شرح سود میں اچانک اضافہ نہیں ہوگا،معیشت میں بہتری تک سات فی صد کی شرح برقرار رہے گی جبکہ آئی ایم ایف کو مستقبل میں شرح سود میں اضافے کے حوالے سے مطمئن کردیا گیا ہے۔ مہنگائی میں جلد کسی کمی کی خوش خبری کے بجائے گورنر اسٹیٹ بینک نے اس کی شرح سات سے نو فی صد تک رہنے کی پیشین گوئی کی جس کا مطلب یہ ہے کہ عوام کو بنیادی ضروریات زندگی سمیت تمام اشیاء کی قیمتوں میں مزید اضافے کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنا ہوگا۔ قومی معیشت کے امید افزاء پہلوؤں کی نشان دہی کرتے ہوئے ڈاکٹر رضا باقر نے بتایا کہ عالمی وبامیں ہماری کرنسی دیگر ملکوں کی نسبت مستحکم رہی، مینوفیکچرنگ کے بارہ شعبوں میں مثبت نمو کے باعث روزگار بحال ہونا شروع ہوگیا ہے، تعمیراتی سرگرمی میں اضافے سے سیمنٹ کی قیمتوں میں استحکام رہا، پیٹرولیم مصنوعات کی فروخت دوسال کی بلند ترین سطح پر آگئی جبکہ کاروں اور ٹریکٹر کی فروخت بھی بڑھی ہے جبکہ جولائی سے جاری معاشی بحالی حالیہ مہینوں میں مزید مستحکم ہوئی ہے۔ قومی معیشت کی یہ تصویر اگرچہ حوصلہ افزاء ہے لیکن اسے مزید بہتر بنانے کے لیے جو اقدامات کیے جاسکتے ہیں ان میں کوتاہی نہیں ہونی چاہیے۔ مثلاً بجلی کے نرخوں میں کمی کا ہدف‘ اسمارٹ میٹروں کی تنصیب کے ذریعے بلوں کی سو فی صد وصولی اور شمسی توانائی کے فروغ کو حکومتی پالیسی کے طور پر اختیار کرکے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ معاشی حکمت عملی کو بہتر اور زیادہ مؤثر بنانے کے لیے وسیع تر مشاورت کا اہتمام بھی یقینا مفید نتائج کا ذریعہ ثابت ہوسکتا ہے۔