کورونا ویکسین اور جھوٹ

January 26, 2021

حرف و حکایت…ظفر تنویر
ایک قیامت ہے جو ہر سو ٹوٹ پڑی ہے، ہر روز ہزاروں گھرانے جنازے اٹھا رہے ہیں، سسکیوں، کراہوں اور چیخوں کی پکار دنیا کے کونہ کونہ سے اٹھ رہی ہے، لوگ دھڑا دھڑڑ مر رہے ہیں، مرنے والوں میں وہ مسیحا بھی شامل ہیں جو اپنے مریضوں کی جان بچانے میں اپنی جانیں گنوا رہے ہیں، ہم و ہ لوگ جنہوں نے انگلستان کو اپنا وطن بنالیا ہے، مسلسل ایک نظربندی کی سی زندگی گزار رہے ہیں، ہمیں ایک تیسرے مکمل لاک ڈائون کا سامنا ہے، تیزی سے بڑھتی اس جان لیوا بیماری کورونا وائرس نے جس طرح ہم پر ہر سو موت کے تاریک تنبو تانے ہوئے ہیں، ان کی بڑھتی ہوئی تاریکی میں اگر سورج کی کچھ کرنیں زندگی کی نوید لیے چمک رہی ہیں، تو یہ وہ خبریں ہیں جن میں دو مختلف ویکسینز کے کامیاب تجربوں کے بعد عام لوگوں کو یہ ویکسین لگائی جارہی ہے، اس وقت تک صرف برطانیہ میں دو ملین (20لاکھ) سے زائد افراد کو یہ ویکسین لگائی جاچکی، اسی سال تک کی عمر کی آدھی سے زائد آبادی کو یہ انجکشن لگ چکا ہے اور دو لاکھ افراد کو روزانہ یہ ویکسین لگانے کے منصوبہ پر تیزی سے عملدرآمد کیا جارہا ہے، ایک طرف حفاظتی اقدامات میں تیزی لائی جارہی ہے اور دوسری طرف ہم مسلسل اپنے پیاروں کو کھو رہے ہیں، مرنے والوں میں عام لوگوں کے ساتھ ساتھ وہ ڈاکٹر اور نرسیں بھی ہیں جو ہماری جان بچانے میں اپنی جان گنوا رہے ہیں، صرف گزشتہ ہفتہ کے اعدادو شمار اٹھاکر دیکھیں تو آپ کو علم ہوگا کہ صرف ایک ہفتہ میں مرنے والوں کی تعداد دس ہزار کے قریب ہے جس شہر میں، میں رہتا ہوں وہاں کی صورت حال ملک کے دیگر حصوں سے مختلف نہیں، ابھی گزشتہ ہفتہ ہی ہم اپنے ایک سابق لارڈ میئر عابد حسین کو کھوچکے ہیں، ہم میں سے بعض روزانہ کی بنا پر اپنے پیاروں کو کھونے کے باوجود اپنے اندر گھسی ہوئی اس جہالت کے ہاتھوں طرح طرح کی افواہیں اور غلط فہمیاں پھیلا رہے ہیں اور جانتے بوجھتے یا انجانے میں ویکسین کی مخالفت کرکے اپنے پیاروں کی جان کے دشمن بنے ہوئے ہیں اور انہیں طرح طرح سے روک رہے ہیں کہ وہ یہ ویکسین نہ لگوائیں، ویکسین کی مخالفت صرف انگلستان یا پاکستان میں ہی نہیں ہورہی بلکہ اس جہالت نے بھی اپنے سامنے دنیا بھر میں پھیلا رکھے ہیں، انگلستان میں پاکستانی اور کشمیری کمیونٹی کو اصل صورت حال سے آگاہ کرنے کے لیے ہمارے پہلے لارڈ میئر محمد عجیب نے کیمروں کی موجودگی میں ویکسین لگواتے ہوئے اپنوں کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی کہ اس موذی وبا سے جان بچانے کا طریقہ ہی ویکسین ہے، محمد عجیب کے ساتھ ساتھ لیڈز کے ایک مفتی صاحب نے بھی ایسا ہی کرتے ہوئے اپنے پیغام میں یہ واضح کیا کہ ویکسن میں قطعی طور پر ایسے کوئی ا جزا شامل نہیں ہیں جنہیں حرام کہا جائے یا اسلامی تعلیمات کے منافی ہوں، بریڈ فورڈ کی کرکٹ کی دنیا میں مانا ہوا ایک نام بریڈ فورڈ جم خانہ کے محمد شفیق کا ہے، ان کے کورونا ویکسین لگوانے کی باری آئی تو جہالت میں گھرے ہوئے ایسے ہی بعض لوگوں نے انہیں ایسا کرنے سے روکنے کی کوشش کی، جہالت کے ہاتھوں کی جانے والی مخالفت میں کبھی مذہب کا نام استعمال کرکے حلال و حرام کا مسئلہ کھڑا کیا جاتا ہے، کبھی یہ تھیوری بیان کی جاتی ہے کہ یہ ایک سازش ہے جس کا مقصد صرف دنیا کی ایک تہائی آبادی کو ختم کرنا ہے، پھر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ’’بڑا بھائی‘‘ ہم سب پر نظر رکھنے کے لیے ویکسین کے ذریعے ہمارے جسم میں ایک ایسا ’’چپ‘‘ ڈال دینا چاہتا ہے جس کے ذریعہ ہمیں کنٹرول کرنا آسان ہوجائے، یہ تھیوری بھی بڑے وثوق سے بیان کی جاتی ہے کہ ویکسین سے ہماری جینس تبدیل کردی جائے گی، عام سیدھے سادے شخص کے منہ سے نکلنے والے یہ الفاظ اور یہ تھیوریاں شاید وزن نہیں رکھتیں، لیکن جب اسی قسم کی گفتگو کسی معتبر شخصیت کے منہ سے نکلے تو لوگوں کے کان کھڑے ہوجاتے ہیں اور وہ سنجیدگی سے ویکسین نہ لگوانے کے بارے میں سوچنا شروع کردیتے ہیں، برطانوی محکمہ صحت اس امر کی تصدیق کرچکا ہے کہ برطانیہ کی سائوتھ ایسٹ ایشین کمیونٹی ویکسین لگوانے میں پس و پیش سے کام لے رہی ہے، کونسل آف مساجد کے اشتیاق احمد چاہے جتنے بھی پریس ریلیز جاری کرلیں اور ملک کی ایک سو سے زائد مساجد چاہے جتنے بھی جذبہ حق و صداقت کے ساتھ اس ویکسین کی وکالت کریں، ہم اس وقت تک اس جہالت کا مقابلہ نہیں کرسکتے جب تک ہم ایسے افراد کے مذموم مقاصد بے نقاب کرنے میں کامیاب نہیں ہوتے جو ویکسین کی مخالفت میں اپنی کمر کس چکے ہیں، میں ایک ایسی خاتون کو جانتا ہوں جو سال بھر مختلف گھروں میں محافل میلاد منعقد کرنے اور ان محافل میں نعت گوئی کے باعث خواتین میں بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھی جارتی ہیں، ان کی عزت ہی نہیں کی جاتی، ان کی بات بھی بڑے غور سے سنی جاتی ہے، اب گزشتہ دو ہفتوں سے وہ اپنی چاہنے والی خواتین کو فون کرکے اس لیے ویکسین لگوانے سے منع کررہی ہیں کہ ویکسین میں خنزیر کے اجزا شامل ہیں، یہ یقیناً ایک سفید جھوٹ ہے، دوا ساز کمپنیاں بھی ایسی تمام خبروں اور شبہات کی تردید کرچکی ہے، یہ ہی نہیں کونسل برائے مساجد اور مساجد کے مفتیان کی طرف سے بھی ان خدشات کو رد کیا گیا ہے، ایسی دو اور خواتین نے جھوٹے پراپیگنڈا کی انتہا تک پہنچتے ہوئے ایک ویڈیو کلپ سوشل میڈیا میں عام کیا ہے جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک نوجوان لڑکی اپنی والدہ کے ساتھ کسی کار پارک میں کھڑی ہے اور پانی پیتے پیتے اچانک لڑکھڑا کر گر پڑتی ہے اور جب اس کی ماں اس سے پوچھتی ہے کہ اسے کیا ہوا ہے تو وہ بڑے ڈرامائی انداز میں اپنی ماں کو بتاتی ہے کہ اس نے ویکسین لگوائی ہے، ماں اس سے سختی سے جب یہ پوچھتی ہے کہ اس نے ماں کے بار، بار منع کرنے کے باوجود ایسا کیوں کیا؟ تو بیٹی یہ کہہ کر ویکسین لگوانے کے پیسے ملتے ہیں، بے ہوش ہوجاتی ہے، میر پوری (پہاڑی) زبان میں بنائے گئے اس کلپ کو دیکھتے ہی یہ نظر آجاتا ہے کہ یہ سب ڈرامہ ہے، لیکن یہ ڈرامہ کرنے اور اسے سوشل میڈیا پر عام کرنے والے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ سیدھے سادے لوگ اسے سچ مان کر ویکسین لگوانے سے انکار کرسکتے ہیں، ایک ایسا انکار جس کے باعث ہونے والی موت کا ذمہ دار کورونا نہیں، وہ لوگ ہوں گے جو اپنے مذاق کے لیے اپنے بڑوں کو قربان کردینے کو بھی تیار ہیں۔