دیارِ مجددؒ سے داتا نگر تک

January 26, 2021

خود نوشت سوانح عمری ہر بڑی زبان کے ادب کی ایک بڑی صنف ہے۔ جتنی دلچسپ اتنی ہی طبقہ قارئین کے لئے مفید و معاون۔ ایک لحاظ سے سیاسی و حکومتی تاریخ سے بڑھ کر اس کی اہمیت زیادہ ہوتی ہے۔ یوں کہ سوانح عمری ایک مخصوص عہد کے طرز زندگی، سماجی رویوں، روایات اور لکھنے والوں کی زندگی کے مخصوص حوالوں کے موضوعات پر معلومات کا ذخیرہ ہوتا ہے، جو فقط ان کی حیات کے ریکارڈ تک محدود نہیں ہوتا بلکہ مفصل سماجی تاریخ کا ایسا باب ہوتا ہے جو مخصوص عہد کے ایسے گوشوں کی نشاندہی کرتا ہے جو روایتی حکمرانی پر مرتب تاریخ میں جگہ نہیں بنا پاتے، لیکن آنے والی نسلوں خصوصاً عمرانی علوم کے محققین و ماہرین کے لئے مطلوب اور بہت اہم ہوتے ہیں۔ پھر آبائو اجداد کے طرزِ حیات، ان کے عہد کی ثقافت اور معاشرتی ماحول کے بارے زیادہ سے زیادہ جاننے کا تجسس بنیادی انسانی فطری امر ہے۔ سوانح عمریاں اس تجسس کو کم کرتی ہیں اور مختلف النوع مطلوب معلومات نئی نسل کو منتقل کرتی ہیں۔ آپ بیتی پر مبنی یہ تصانیف حکمرانوں، سیاستدانوں، دانشوروں، صحافیوں، شعراء و ادبا اور بیورو کریٹس اور جرنیلوں تک ہی محدود نہیں ہوتیں، یہ مرتب کرنے کی ہُوک کسی میں بھی اٹھ سکتی ہے۔ یوں سوانح عمریوں سے بڑے بڑے چھپے لکھاری علم و ادب میں دلچسپ اضافہ کرتے اور اپنی شخصیت کا نیا رنگ دکھا کر چونکا دیتے ہیں۔ ان میں ایک سے ایک نیا اسلوب بھی نثری ادب میں شامل ہوتا ہے۔

قیام پاکستان کے بعد مختلف شعبہ ہائے حیات کی اہم شخصیات نے اپنی مجموعی زندگی خصوصاً پیشے اور مخصوص معاشرتی مقام کے حوالے سے دلچسپ اور بہت مفید سوانح عمریاں تحریر کر کے نئی مملکت کے قومی ادب میں قابل قدر اضافہ کیا۔ ابلاغیات کے طالب علم کی حیثیت سے میرا نوٹس ہے کہ مسلم صحافت نے قیام پاکستان کی تحریک میں جو تاریخ ساز کردار ادا کیا، پھر جس طرح حصول مملکت کے بعد ہماری صحافت دنیا بھر کے ترقی پذیر ممالک کے مقابل مسلسل سیاسی عدم استحکام اور آمرانہ ادوار کے باوجود اپنے زور قلم اور مسلسل جدوجہد سے ملک میں فروغ اور آزادی صحافت کے مشکل اہداف حاصل کرنے میں بڑی حد تک کامیابی ہوئی، اس کی تاریخ مرتب کرنے کا کوئی رسمی اہتمام ہوا نہ خود صحافیوں نے اس پر زیادہ توجہ دی۔ جو تحقیقی کام یونیورسٹیوں کے شعبہ ہائے ابلاغیات میں ہوا، وہ ایک تو اس موضوع پر محدود بھی ہے اور جو ہوا وہ فقط حوالہ جاتی تحقیق کے لئے لائبریریوں میں تو موجود ہے لیکن پاپولر ہو کر صحیح معنوں میں صحافتی تاریخ نہ بنا۔ جناب جمیل اطہر قاضی کا شمار پاکستان کے بہت کہنہ مشق، پیشے سے بھرپور لگن رکھنے والے صحافیوں میں ہوتا ہے۔ وہ آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی اور کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز کے عہدوں پر رہے، دونوں قومی فورمز سے انہوں نے وقت کی میڈیا انڈسٹری اور پیشہ صحافت کی آزادی خصوصاً علاقائی صحافت کے حقوق کے تحفظ اور فروغ کے لئے اہم خدمات انجام دیں۔ جمیل صاحب نے ایک بڑی ضرورت یہ پوری کی اور کر رہے ہیں کہ انہوں نے مختلف حوالوں سے ایک نہیں تین خود نوشت سوانح عمریاں مرتب کی ہیں جو ہر صاحب علم و ادب خصوصاً کارکن صحافیوں، صحافت کے طالب علموںاور علاقائی اخبارات کے مالکان اور اداروں کیلئے بہت مفید اور سبق آموز ہیں۔ متحدہ ہندوستان میں ان کے جد امجد حضرت مجدد الف ثانیؒ تھے، جنہوں نے اپنی تاریخ ساز حق گوئی کے مجاہدے سے مغل دور میں فروغ اسلام کی بنتی راہ میں ملوکیت کی بڑی رکاوٹ کے خلاف کلمہ حق بلند کر کے اور جان ہتھیلی پر رکھ کر اسے جاری و ساری رکھ کر صراط مستقیم نکالا۔ جمیل صاحب کے والد، قاجی سراج الدین سرہندی پارٹیشن سے قبل سرہند میں ایک متمول تاجر تھے، مہاجر ہو کر نامساعد حالات میں آ کر پاکستان کے ایک چھوٹے شہر ٹوبہ ٹیک سنگھ میں آباد ہوئے۔ اجڑے مہاجروں کے لئے ہجرت کے بعد آباد کاری کا چیلنج غیرمعمولی ہوتا ہے۔ اگرچہ جمیل صاحب کی پہلی تصنیف ’’شیخ سرہندی‘‘ کے نام سے جو حضرت مجدد الف ثانیؒ کے ہندوستان میں فروغ اسلام کی تاریخ سازی میں ان کے روشن کردار کا احاطہ کرتی ہے۔ ’’ایک عہد کی سرگزشت 1947-2015‘‘ان کی پہلی سوانح حیات ہے جس میں مصنف نے اپنے خاندان کے سفر ہجرت اور اپنی کمسنی میں ہی اخبار فروشی سے شروع ہونے والے سفر صحافت کی دلچسپ اور سبق آموز داستان بیان کی ہے جو ان کی آپ بیتی سے ہٹ کر ہماری صحافتی تاریخ کا بھی ایک دلچسپ چیپٹر ہے جس میں جمیل صاحب نے اپنی طویل صحافتی زندگی کے سینئر ساتھی مصطفیٰ صادق مرحوم اور اپنے ملکی سیا ست میں خاموش کردار (خصوصاً 1973 کے آئین میں حکومت و اپوزیشن کو نتیجہ خیز معاونت کے حوالے سے) سیاسی کارکنوں اور صحافیوں کے لئے دلچسپی کا بڑا سامان ہے۔ جمیل صاحب کی اس سوانح عمری کی اہمیت کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ اس پر 55دانشوروں، اساتذہ صحافت، کالم نگاروں، علماء اور سیاسی شخصیات نے کالم اور تبصرے لکھے جو قومی اخبارات میں شائع ہوئے، جنہیں قاضی جمیل اطہر نے ’’بازگشت‘‘ کے نام سے مرتب کیا ہے جو صحافتی لٹریچر میں ایک مفید اضافہ ہے۔ ’’دیارِ مجدد سے داتا نگر تک‘‘ کے عنوان سے جناب جمیل اطہر کی نئی تصنیف ایک اور رنگ ڈھنگ سے شائع ہوئی ہے۔ 424صفحات پر مشتمل جمیل صاحب کی یہ سوانح عمری، ملکی صحافت کے فروغ، مشکلات، کامیابیوں اور کئی سیاسی واقعات اور اس میں صحافت اور اپنے پیشہ ورانہ کردار کی داستانوں کا احاطہ کرتی ہے۔ یہ فقط مصنف ہی نہیں، بلکہ ان کی پیشہ ورانہ زندگی میں کسی نہ کسی اہم حوالے سے آنے والے سیاستدانوں، صحافیوں، علماء، دانشوروں سے ان کے دلچسپ تعلق واسطوں کی تفصیلات کا ریکارڈ بھی ہے، جو دراصل ملک کی بنی اور بنتی صحافتی تاریخ کا ریکارڈ ہے۔ جمیل صاحب کی طویل صحافتی مسافت، جسے میں استادِ صحافت کے لحاظ سے نوٹ کرتا ہوں، یہ ہے کہ جمیل اطہر پاکستان میڈیا انڈسٹری میں میڈیا انٹر پرینیور شپ کے کامیاب ترین اخباری مالک ثابت ہوئے جنہوں نے اپنے تجربے، مہارت اور اخلاص سے، انتہائی نامساعد حالات میں معیاری علاقائی صحافت کا کامیاب ماڈل تیار کر کے اسے کامیاب کیس اسٹڈی بنایا ہے۔ واضح رہے کہ دنیا میں ’’میڈیا انٹر پرینیور شپ‘‘ (علاقائی، شہری اور مقامی درجے کا میڈیا) مین اسٹریم میڈیا انڈسٹری کے برابر سے بھی زیادہ اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ اس بڑی کامیابی کے سفر کی داستان ’’دیار مجدد سے داتا نگر‘‘ میں موجود ہے جو تاریخ اور پیشہ صحافت میں دلچسپی رکھنے والوں کے لئے دلچسپی اور سبق کا بڑا سامان ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جمیل اطہر قاضی پاکستان میں میڈیا انٹر پرینیور شپ کے سب سے بڑے نابغۂ روزگار ہیں۔ اُن کی یہ خود نوشت سوانح عمری پاکستان میں قومی اور علاقائی صحافت کے ارتقا اور اُس میں اہم کردار ادا کرنے والے ممتاز اور گمنام کارکنوں کی اعلیٰ پیشہ ورانہ خدمات کا احاطہ کرتی ہے۔