پیپلز پارٹی مفاہمتی سیاست کی طرف گامزن

January 28, 2021

پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو کی جانب سے پی ڈی ایم کی تحریک کے آخری مرحلے میں اچانک لانگ مارچ اوردھرنے کے بجائے اسمبلی میں وزیراعظم ،اسپیکر اور وزیراعلیٰ پنجاب کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانےکی بات کرکے پی ڈی ایم کے اندرپائے جانے والے تضادات اور اختلافات واضح کردیئے ہیں گرچہ پی ڈی ایم کی سربراہی جے یو آئی کے امیرمولانا فضل الرحمن کررہے ہیں اور پی ڈی ایم کے فیصلے اتفاق رائے سے ملک کی گیارہ جماعتیں کرتی ہے تاہم حکومت مخالف تحریک کے چند روز بعد ہی واضح ہوگیا تھا کہ اس تحریک کے اسیٹرنگ سیٹ پر پی پی پی بیٹھی ہیں پہلے اسمبلیوں سے استعفیٰ نا دینے پھر ضمنی انتخاب اور سینٹ انتخاب میں حصہ لینے کا اعلان کرکے پی پی پی نے پی ڈی ایم کی حکومت مخالف تحریک کا رخ موڑدیا۔

اب جبکہ سیاسی جماعتیں لانگ مارچ کی تیاریاں کررہی ہیں ایسے میں لانگ مارچ کے بجائے تحریک عدم اعتماد کی بات پی ڈی ایم کے اندرتضادات کو واضح کرتی ہے پی ڈی ایم کی بڑی جماعتوں مسلم لیگ (ن)اور جے یو آئی نے تحریک عدم اعتماد کی مخالفت کی ہے اس سے قبل سینٹ میں چیئرمین سینٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے دوران اپوزیشن کوہزیمت کا سامنا کرنا پڑا تھا جب عدم اعتماد کے دوران اپوزیشن کے گیارہ ارکان حکومت سے مل گئے تھے اس ضمن میں بلاول بھٹو کا کہنا ہے کہ ہم پی ڈی ایم کی جماعتوں کو تحریک عدم اعتماد لانے پر آمادہ کریں گے۔

تاہم بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ پی پی پی کچھ حلقوں سے رابطے میں ہیں بعض حلقوں کے مطابق وزیراعلیٰ سندھ، سندھ حکومت کے مشیروں و وزراء پر نیب ریفرنس کی وجہ سے پی پی پی دباؤ کا بھی شکار ہیں اور پی پی پی اب مفاہمتی ساست کی جانب گامزن ہے۔ن لیگ کے موقف کے بعد یہ بات تو واضح ہوگئی ہے کہ وہ ایسی کسی تجویز پر عمل کا حصہ بننے کے لیے تیار نہیں اور ایسا ہی موقف جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن اور پی ڈی ایم میں شامل دیگر جماعتوں کا بھی ہے لہذا اس امر کاجائزہ لینا ضروری ہے کہ آخراس مرحلہ پر بلاول بھٹو کی جانب سے یہ تجویز کیونکرآئی۔

کیا موجودہ صورتحال میں ان ہاؤس تبدیلی ممکن ہے اور کسی ممکنہ تبدیلی کے نتیجہ میں کیا اپوزیشن ملک کو درپیش چیلنجزسے نمٹنے کی اہلیت اور صلاحیت رکھتی ہے اور بلاول کی جانب سے ان ہاؤس تبدیلی کا آپشن کس حدتک سنجیدہ ہے ، جہاں تک تجویز اور اس کی ٹائمنگ کا سوال ہے تو تجویز کو آئینی اور قانونی وسیاسی عمل کا حصہ قرار دیا جاسکتا ہے لیکن پی ڈی ایم کا قیام جس اے پی سی میں وجود میں آیاتھا وہ پیپلزپارٹی کی جانب سے بلائی گئی تھی اور اس کے میزبان بلاول تھے اور اپوزیشن کے پہلے روز سے اب تک جتنے بھی اجلاس ہوئے ان میں عدم اعتماد کا آپشن کسی جگہ بھی زیرغور نہیں آیا اور اگر آیا بھی تو ن لیگ نے اس کی بھرپورمخالفت کی۔

اس صورتحال میں پی ڈی ایم کے مستقبل پر سوالیہ نشانات کھڑے کردیئے ہیں تاہم سابق صدر آصف علی زرداری نے پی پی پی پنجاب کے جنرل سیکریٹری چوہدری منظور سے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ پی ڈی ایم متحد ہے، حکومت پر ہر طرف سے وارکرے گی، ملک شدیدخطرات میں ہے۔ حکمران کوئی بڑا بلنڈر کرسکتے ہیں، حکومت کو گھر بھیجنا اس وقت بہت ضروری ہوچکا ہے۔ اناڑی حکمرانوں کی نااہلی سے ملک کسی بڑے حادثے کا شکار ہوسکتا ہے۔

حکومت سے نجات کے لیے پی ڈی ایم تمام آپشنزبتدریج استعمال کرے گی، چند ماہ ملکی سیاست کے مستقبل کے لیے بہت اہم ہیں، حکمرانوں کو اب مزید کوروناکے پیچھے چھپنے نہیں دیں گے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ پی پی پی کی جانب سے تحریک عدم اعتماد پر لانے کی بات پر پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کا ردعمل کیا ہوتا ہے۔ ادھر جے یوآئی نے کراچی میں اسرائیل مردہ باد ریلی کاانعقاد کرکے زبردست عوامی قوت کا مظاہرہ کیا ریلی سے پی ڈی ایم کے رہنماؤں مولانافضل الرحمن، محمودخان اچکزئی، شاہد خاقان عباسی اور پی پی پی کے صوبائی وزیر سعید غنی نے خطاب کیا حیرت انگیزطور پر پی پی پی نے اس ریلی میں کسی مرکزی رہنما کو نمائندگی کے لیے کے بجائے کراچی ڈویژن کے صدر اور صوبائی وزیر کو بھیجا دوسری طرف جے یو آئی نے پی ڈی ایم سے باہرجماعتوں کو بھی ریلی میں شرکت کی دعوت دی تھی۔

جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کراچی میں ہوتے ہوئے ریلی میں شریک نہیں ہوئے انہوں نے نمائندگی کے لیے جماعت اسلامی کے نائب صدر اسداللہ بھٹو کو ریلی میں بھیجا جبکہ خود کراچی بار کی دعوت پر کراچی بار میں پی ڈی ایم کے خلاف خطاب کرڈالا اسرائیل مردہ بار ریلی سے خطاب کرتے ہوئے مولانافضل الرحمن نے کہاکہ حکمران اور وزیراعظم یہودیوں کے ایجنٹ ہیں جن کو اقتدار میں لانے کے لیے دنیا کے دیگر ملکوں کے ساتھ پاکستان کی دشمن ریاستوں بھارت اور اسرائیل سے بھی فنڈنگ کی گئی جبکہ اسرائیل میں قائم قادنیوں کے مرکز سے بھی سرمایہ فراہم کیا گیا، عمران خان کو وزیراعظم کہنا جرم ہے، فارن فنڈنگ نے ثابت کیاکہ میری بات درست تھی، عمران خان نے اقتدار میں آنے سے قبل کشمیر کی تقسیم کا فارمولاپیش کیا، لندن میں میئرکے الیکشن میں یہودیوں کی تنظیم کے رکن امیدوار کو سپورٹ کرکے ثابت کیا کہ وہ یہودیوں کے ایجنٹ ہیں۔

ادھر جماعت اسلامی کے امیرسراج الحق نے کراچی کا دورہ کیا جہاں انہوں نے کراچی بار کے علاوہ جماعت کے ضلعی پروگراموں اور دیگر پروگراموں میں شرکت کی انہوں نے مختلف مقامات پر خطاب کرتے ہوئے کہاکہ حکومت اور پی ڈی ایم میں صرف اقتدار کے گھوڑے پر بیٹھنے پر اختلاف ہے، ورنہ دونوں ایک ہی ہیں، جہاں حکومت نے نااہلی، بددیانتی، ناقص کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے اورعوام کو ریلیف دینے میں مکمل ناکام ہوئی ہے، وہیں اپوزیشن کی ان جماعتوں نے بھی ہر موقع پر حکومت کا ساتھ دیا ہے ملک کی معاشی ، تعلیمی وکشمیر پالیسی، آئی ایم ایف اورورلڈبینک کی غلامی، قومی مفادات کے خلاف بیرونی مداخلت کوقبول کرنے اور FATF قوانین کی منظوری میں پیپلزپارٹی ، نواز لیگ اور پی ٹی آئی ایک ساتھ ہیں۔

ووٹراور سپورٹردونوں حیران وپریشان ہیں کہ کتنی بڑی غلطی کردی۔ سندھ اور وفاق باہم دست وگریباں ہیں۔ ایسے میں کراچی جیسے بڑے شہر کا کوئی پرسان حال نہیں۔صنعتی ترقی کا پہیہ جام ہوگیا، زراعت تباہی سے دوچار ہے۔ زرعی ملک ہونے کے باوجود گندم اور چینی کے لیے ہم دوسروں کے محتاج ہیں۔