یادگار، تاریخی گھنٹہ گھر

February 21, 2021

اٹھارہویں اور انیسویں صدی عیسوی میں تعمیر کیے گئے پاکستان کے تقریباً تمام بڑے شہروں کے بیچوں بیچ موجود یادگار، تاریخی گھنٹہ گھر جہاں تاجِ برطانیہ اور عہدِ رفتہ کی یاد دلاتے ہیں، وہیں یہاُس دَور کے فنِ تعمیر کی بھی نمائندگی کرتے ہیں۔ نیز، حکام کی نگاہ میںوقت کی قدر و قیمت کا بھی بڑا ثبوت ہیں۔ تاہم، وقت کی ستم ظریفی ملاحظہ کیجیے کہ ان شان دار گھنٹہ گھروں میں سے آج اِکّا دُکا ہی اصل حالت میں ہیں، اور ایک آدھ ہی میںنصب گھڑی کی سوئیاں حرکت کرتی نظر آتی ہیں۔

برطانوی دَورِ میں عین صدرِ بازار تعمیر کیے گئے ان کلاک ٹاورز کا مقصد جہاں عوام میں وقت کی اہمیت اُجاگر کرنا تھا، وہیں اس عہد کے حکم رانوں کے تعمیراتی ذوق و شوق اور تعمیری جدّت کا اظہار بھی مقصود تھا۔ دوسری جانب ان گھنٹہ گھروں کو عمومی طور پر عامتہ النّاس، سادہ لوح افراد کسی مقام تک رسائی کےلیے خاص نشانی کے طور پر یاد رکھتے اور اپنے ملنے جلنے والوں کو اس مقام پر ملنے کا وقت دیا کرتے۔

جس سے لوگ بہ سہولت ایک دوسرے سے مل پاتے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ گھنٹہ گھر اور ان کے اطراف و جوانب بازاروں کی شکل اختیار کرتے چلےگئے۔ جہاں ہمہ وقت لوگوں کا تانتا بندھا نظر آتا۔ ہر وقت چہل پہل اور عام خرید و فروخت جاری رہتی ہے۔تب ہی آج ایک صدی سے زائد عرصہ گزرجانے کے باوجود ان گھنٹہ گھروں کی تاریخی اہمیت ماند نہیںپڑی۔ البتہ گئے وقتوں میں ان کی نہ صرف مناسب دیکھ بھال ہوتی، بلکہ انہیں شہروں کے لیے بےحد اہم بھی گردانا جاتا۔

انیسویں صدی عیسوی میں کراچی شہر کے مختلف علاقوں میں12گھنٹہ گھر نصب کیے گئے۔ جن میںسے بیش تر اب غیرفعال ہیں اور صرف علامتی طور پر نصب نظر آتے ہیں۔ یہ اُس عہد کے طرزِ تعمیر کا تذکرہ ہے، جن دنوں دستی گھڑیاں باندھنے کا رجحان عام نہیں تھا۔ سڑکوں پر پریشر ہارنز اور ٹریفک کا بے ہنگم شور بھی نہ تھا، اس لیے ان گھنٹہ گھروں سے نکلنے والی مدھم آواز بھی دُور دُور تک سنائی دیتی۔

ان ہی گھنٹہ گھروں کی آواز سے سورج غروب ہونے کے ساتھ چراغ جلتے اور سورج طلوع ہونے کے وقت گُل ہوتے۔ ان کی آواز سُن کر لوگ وقت کا تعیّن کرتے، کام کاج پر روانہ ہوتے اور مقرّرہ اوقات پر گھڑیال کی آواز سُن کر گھر واپس ہوتے۔ برطانوی دَورِ حکومت میں نصب کیے گئے یہ گھنٹہ گھر پاکستان کے مختلف شہروں کراچی، حیدر آباد، سکھر، ملتان،فیصل آباد، لاہور سیال کوٹ اور پشاور وغیرہ میں خستہ حالات ہی میںسہی، مگر اب بھی موجود ہیں۔ اور آہستہ آہستہ بدلتے وقت کے عینی شاہد ہونے کے ساتھ اپنے سینوں میں کئی راز بھی لیے ہوئے ہیں۔ ملک کے مختلف شہروں میں نصب ان گھنٹہ گھروں سے متعلق کچھ دل چسپ احوال نذرِ قارئین ہے۔

کراچی کے گھنٹہ گھر

سندھ کے پہلے گورنر، سر چارلس نیپئر نے کراچی کو ’’سونے کی چڑیا‘‘ سے تشہبیہ دی تھی، اُن کے چار سالہ دورکی (1843سے1847ء) اعلیٰ کارکردگی کا یہ عالم تھا کہ کراچی اپنی تجارتی و جغرافیائی اہمیت کے باعث ایک چھوٹی سی بستی سے ترقی کرکے بین الاقوامی، جدید شہر کا رُوپ اختیار کرگیا۔ اگر یہ کہا جائے، تو غلط نہ ہوگا کہ کراچی کی اصل بنیاد اُن ہی کے ہاتھوں رکھی گئی۔ بعدازاں، اُس دور میں جہاں مختلف تاریخی، یادگار عمارتیں تعمیر کی گئیں، وہیں شہریوں کو وقت کا پابند بنانے کے لیے مختلف مقامات پر گھنٹہ گھر بھی تعمیر کیے گئے۔

ہولی ٹرینیٹی کا گھڑیال: شہر کے اوّلین گرجا گھروں میں شمار ہونے والا ہولی ٹرینیٹی چرچ 1855ء میںقائم کیا گیا، اس کی عمارت میں خصوصی طور پرایک گھنٹہ گھر بھی بنایاگیا، لیکن اب اس کا گھڑیال ناکارہ ہوچکا ہے۔

ایڈیلجی ڈنشا کا گھڑیال: 1882ء میں صدر کے علاقے میںتعمیر کی گئی عمارت میںنصب گھڑیال 1999ء تک فعال تھا، تاہم مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے اب غیر فعال ہوچکا ہے اور اس کے پُرزے وغیرہ بھی چوری کرلیے گئے ہیں۔

ایمپریس مارکیٹ کلاک ٹاور: 1848ء میں ملکہ وکٹوریہ کی یاد میں سرخ پتھروں سے تعمیر کی گئی اس عمارت کا کلاک ٹاور 140 فٹ کی بلندی پر واقع ہے،جس کے چاروں طرف گھڑیال نصب ہیں۔یہ کلاک ٹاور اسمتھ اینڈ سنز کمپنی نے بنایا تھااور یہ اس وقت بھی خستہ حالت میں موجود ہے۔ سپریم کورٹ کے حکم پر پچھلے دنوں ایمپریس مارکیٹ کی اصل حالت میں بحالی اورتجاوزات کے خاتمے کےبعد اردگردکے مقام کوسبزہ زار میں تبدیل کردیا گیا۔ تاہم، یہاں نصب گھڑیال کو اب تک اس کی اصل حالت میںبحال نہیں کیا گیا۔

میری ویدر کلاک ٹاور: انجینئر جیمز اسٹریچن کا ڈیزائن کردہ یہ ٹاور، سر ولیم میری ویدر کی یاد میں 1884ء میں تعمیر کیا گیا۔ ٹاور کی اونچائی 102 فٹ ہے اور اس کے چہار اطراف گھڑیال نصب ہیں۔ اس کی گھنٹی ہر گھنٹے کے بعد بجتی ہے۔ شہر کے معاشی اور تجارتی مرکز میں واقع میری ویدر ٹاور پر نصب یہ گھنٹہ گھر کافی عرصہ خستہ حالی کا شکار رہا، بعدازاں اس کلاک کو شمسی توانائی پر منتقل کردیا گیا،جب کہ ان دنوںایک نجی بینک اس کی دیکھ بحال کرتا ہے۔

ڈینسو ہال کا گھنٹہ گھر:1886ء میں تعمیر کیے گئے ڈینسو ہال کا نقشہ بھی جیمز اسٹریچن نے تیار کیا۔ اس عمارت کے اوپر نصب گھڑیال کا رُخ ایم اے جناح روڈ کی طرف تھا۔ یہ گھڑیال اور مشینری چوری ہونے کےبعد خستہ حالی کا منظر پیش کررہا ہے۔ 2010ء میں ہیریٹیج فائونڈیشن نے کے الیکٹرک کے تعاون سے اس عمارت کی بحالی کا ذمّہ اٹھایا تھا، لیکن گھڑیال تاحال مرمّت نہیں ہوسکا۔

پونا بھائی ٹاور: 1899ء میں تعمیر کیے گئے پونا بھائی ٹاور کی عمارت سفید اور نیلے رنگ کے ٹائلز سے مزیّن ہے۔ رنچھوڑ لائن کے علاقے میں موجود اس گھنٹہ گھر کے آس پاس زیادہ تر سلاوٹ کمیونٹی آباد ہے۔ یہاں گھنٹہ گھر کا گھڑیال اورمشینری تو موجود ہے، لیکن اس کے بیش تر پُرزے دست بُردِ زمانہ سے محفوظ نہ رہ سکے۔

جعفر فدو ٹاور:کھارادر مچھلی میانی مارکیٹ کے قریب نواب مہتاب خانجی روڈ پر واقع جعفر فدو کلاک ٹاور چند برس قبل تک پاکستان کا معیاری وقت بتاتا تھا، یہ اگرچہ اب خاموش ہے، لیکن دیگر گھنٹہ گھروں کے مقابلے میںبہرحال اب بھی کافی بہتر حالت میںہے۔

کیماڑی ٹاور کا گھنٹہ گھر: اس کے چاروں طرف گھڑیال نصب ہیں، جن میںسے ایک کا رُخ بحیرہ عرب کی طرف ہے۔ تاہم، اچھی بات یہ ہے کہ موجودہ دَور میںبھی یہ گھنٹہ گھر فعال ہے اور اس کی دیکھ بھال محکمہ جہاز رانی کے پاس ہے۔

لی مارکیٹ کا گھنٹہ گھر: لیاری میںواقع لی مارکیٹ 1927ء میں تعمیر کی گئی، اسے کراچی میونسپل کے انجینئر، میشم لی کے نام سے منسوب کیا گیا۔ آج لیاری کے گھنٹہ گھر کی عمارت خستہ حالی کا شکار ہے اور ٹاور میں نصب گھڑیال کی مشینری چوری کی جاچکی ہے۔ 1970ء کی دہائی تک اس گھڑیال کی آواز لوگوں کی سماعتوں میںگونجا کرتی تھی، تاہم اب یہ بالکل خاموش ہے۔

کے ایم سی کا گھڑیال: ایم اے جناح روڈ پرواقع کراچی میونسپل کارپوریشن کی عمارت 1932ء میں تعمیر ہوئی، تو اس پر 162 فٹ اونچا کلاک ٹاور بھی بنایا گیا، جو چاروںطرف سے دیکھا جاسکتا ہے۔ کافی عرصہ غیر فعال رہنے کے بعد اسے مرمّت تو کردیا گیا ہے، مگر ہر گھنٹے بعد صرف ایک طرف کی چھوٹی گھنٹی کی مدھم آواز ہی سنائی دیتی ہے۔

لکشمی بلڈنگ کا گھنٹہ گھر: بندر روڈ پر لکشمی بلڈنگ 1924ء میں تعمیر کی گئی۔ یہ اپنے وقت کی کراچی کی سب سے بلند و بالا لگژری عمارت تھی۔ اس کے ٹاور کے خدوخال شکاگو اور نیویارک کی بلند و بالا عمارت جیسے بنائے گئے تھے۔ تاہم، اس عمارت میںموجود گھڑیال پچھلی کئی دہائیوں سے خراب ہے۔

حیدر آباد کا گھنٹہ گھر

حیدرآباد کا مارکیٹ کلاک ٹاور: ایک سو سال پرانے اس گھنٹہ گھر کا راستہ شہر کے تاریخی علاقے، ہیر آباد کی کشادہ گلیوں سے گزر کر جاتا ہے۔ 1914ء میں تعمیر ہونے والے اس ٹاور کو اس وقت کے کلکٹر، نیول رائے کے نام سے منسوب کیا گیا۔ شہر کے داخلی راستے پر قائم اس ٹاور کو دیکھ کر اندازہ ہوجاتا ہے کہ اب شہر کی حدود شروع ہوگئی ہے۔

حیدر آباد کلاک ٹاور

کافی عرصے تک اس کے قیمتی گھڑیال سے ہر مکمل ہوتےگھنٹے کے بعد گونجنے والی آواز شہر بھر میں سنائی دیتی رہی، لیکن کئی برسوں سے نہ صرف اس کی آواز بند ہے، بلکہ سوئیاں بھی بے حس وحرکت پڑی ہیں۔ گزشتہ بلدیاتی دَورِ حکومت میں اس کی بحالی کا کام ہوا، لیکن کچھ ہی عرصے بعدنہ صرف گھڑیال دوبارہ خراب ہوگیا، بلکہ ٹوٹ پھوٹ کی شکار عمارت بھی مزید مخدوش ہوگئی۔

سیال کوٹ کا گھنٹہ گھر

شہرِ اقبال، سیال کوٹ جہاں شاعرِ مشرق علّامہ اقبال کے حوالے سے خاص شہرت کا حامل ہے،وہیں کھیلوں سے وابستہ مصنوعات کے کارخانوں اور فیکٹریوں نے بھی اسے عالم گیر شہرت عطا کی۔ یہ پنجاب کا تیسرا بڑا صنعتی شہر ہے۔ سیال کوٹ کا گھنٹہ گھر، کینٹ میں بازار کے بیچوں بیچ اِستادہ ہے، جسے اقبال اسکوائر بھی کہا جاتا ہے۔

سیال کوٹ گھنٹہ گھر

اس کا سنگِ بنیاد شیخ غلام قادر اور سیٹھ رائے بہادر نے رکھا تھا۔ ایک صدی سے زیادہ قدیم اس گھنٹہ گھر نے تاریخ کے کئی عروج و زوال دیکھے۔ وقت کے ساتھ اس کی کئی بار مرمّت بھی کی گئی، لیکن بنیادی ڈھانچا وہی ہے۔ پانچ منزلہ اس ٹاور کی اوپری منزل پر بڑے سائز کا گھڑیال نصب ہے، جو رومن ہندسوں میں وقت بتاتاہے۔

فیصل آباد کا گھنٹہ گھر

فیصل آباد کا گھنٹہ گھر برطانوی دور سے آج تک اپنی اصل حالت میں برقرار ہے۔ اس کی بنیاد 14 نومبر 1903ء میںپنجاب کے اُس وقت کے گورنر سر چارلس ریواز نے رکھی۔ یہ آٹھ بازاروں بھوانہ بازار، جھنگ بازار، کارخانہ بازار، کچہری بازار، منٹگمری بازار، ریل بازار، چنیوٹ بازار اور امین پور بازار کے درمیان واقع ہے۔ صوبہ پنجاب کے صنعتی شہر،فیصل آباد کے آٹھ بازار کےعین وسط میں واقع یہ گھنٹہ گھر ایک تاریخی عمارت میںموجود ہے۔ فیصل آباد تک آنے والے لگ بھگ تمام ہی راستے گھنٹہ گھر تک جاتے ہیں۔ مسافر یہاں پہنچتے ہی اردگرد کی مصروف زندگی اور رونقوں میں اس قدر محو ہوجاتا ہے کہ اپنا آپ یاد نہیں رہتا۔

فیصل آباد کلاک ٹاور

فیصل آباد کے گھنٹہ گھر کی تعمیر کی تجویز اُس وقت کے ڈپٹی کمشنر جھنگ، کیپٹن بیک نے دی تھی، جب کہ اس کا ڈیزائن سر گنگا رام کی تخلیق ہے اور اس کی تعمیر15دسمبر 1905ء کو مکمل ہوئی۔ گھنٹہ گھر کی عمارت میں استعمال ہونے والا لال پتھر پچاس کلومیٹر دور سانگلہ ہل کی ایک پہاڑی سے لایا گیا تھا۔ چارمنزلوں پر مشتمل اس عمارت کی کُل اونچائی تقریباً 100فٹ ہے، جب کہ اندر کی طرف ہر منزل پر پہنچنے کے لیے سیڑھیاں بنائی گئی ہیں، جو آج بھی گھڑی کو چابی دینے کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔ کلاک ٹاور کی چوتھی منزل پر نصب گھڑی خاص طور پر ممبئی سے لائی گئی تھی اور اس کا پنڈولم تیسری منزل میں لٹکا ہوا ہے۔

سکھر کے گھنٹہ گھر

کراچی کے بعد سندھ کے تیسرے بڑے شہر سکھر کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہاں ایک، دو نہیں بلکہ پانچ گھنٹہ گھرموجود ہیں،جو تاریخی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان کے اطراف سے راستے بھی نکلتے ہیں۔ سکھر میں مرکزی گھنٹہ گھر کے علاوہ دیگر گھنٹہ گھر تاریخی مقامات پر تعمیر کیے گئے ہیں۔ پہلا گھنٹہ گھر شہر کے وسط میں موجود ہے اور اسے مرکزی گھنٹہ گھر بھی کہا جاسکتا ہے۔ ماضی میں یہ ’’مارکیٹ ٹاور‘‘ کے نام سے معروف تھا۔ دوسرا گھنٹہ گھر میر معصوم شاہ لائبریری، تیسرا ریلوے سلیپر فیکٹری کے نزدیک، چوتھا میونسپل کارپوریشن کے دفتر میں اور پانچواں عیدگاہ روڈ کے نزدیک ہے، جو کہ’’ پیر الٰہی بخش لٹریسی ٹاور‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔

سکھر، مرکزی گھنٹہ گھر

یہ گھنٹہ گھر اس حوالے سے بھی خصوصی اہمیت کا حامل ہے کہ یہ اونچی پہاڑی پرتعمیر کیا گیا ہے۔ ’’علمی ٹاور‘‘ پاکستان کے قیام سے قبل تعمیر کیا گیا تھا۔ ماضی میں جب علم کی شمع روشن کرنے اور جہالت کے خلاف جدوجہد کی تحریک شروع کی گئی، تو اس تحریک کے آغاز کے موقعے پر یہ گھنٹہ گھر تعمیر کیا گیا۔ 1939ء میں سندھ کے وزیرِ تعلیم، پیر الٰہی بخش تھے، جن کی جانب سے علم کی شمع روشن کرنے کی تحریک شروع کی گئی۔ اس تحریک کے ابتدائی مراحل میں سکھر کے اس پُرفضا مقام پر عید گاہ کے سامنے اس ٹاور کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔

ایک سال تک تعمیری مراحل طے کرنےکے بعد 1940میں یہ کلاک ٹاور پایہ تکمیل کو پہنچااور اسے پیر الٰہی بخش کے نام سے منسوب کیا گیا۔ یہ ٹاور سطحِ زمین سے 110فٹ بلنداور 66فٹ چوڑائی لیے ہوئے ہے۔ اس کے چاروں طرف خوب صورت گھڑیال بھی لگے ہوئے تھے۔ تاہم، انتظامیہ کی عدم توجہی کے باعث دیگر گھنٹہ گھروں کی طرح تاریخی اہمیت کا حامل یہ کلاک ٹاور بھی اب اپنی افادیت کھونے لگا ہے۔

سکھر کے پانچوں قدیمی تاریخی گھنٹہ گھر آج بھی اپنی جگہ موجود ہیں، لیکن ان میں نصب گھڑیال، جو کہ گھنٹہ گھروں کی جان تصور کیے جاتے تھے، ناکارہ ہونے کے باعث اپنی افادیت کھوچکے ہیں، اگر ان گھنٹہ گھروں پر تھوڑی بہت رقم خرچ کرکے ان کی حالت کچھ بہتر بنادی جائے، تو آج بھی گھنٹہ گھروں میں نصب گھڑیال اپنی آواز کے جادو سے لوگوں کو اپنی طرف متوجّہ کرسکتے ہیں۔

ملتان کا گھنٹہ گھر

ملتان کے وسط میں واقع یہ خُوب صُورت گھنٹہ گھر ایک تاریخی عمارت ہے، 1884ء میں قائم ہوئی۔محکمہ آثارِ قدیمہ کے ریکارڈ کے مطابق ملتان کی تاریخی عمارت سے متصل گھنٹہ گھر کی تعمیر برطانوی دَور میں1884ء میں شروع کی گئی، جو چار سال بعد 1888ء میں مکمل ہوئی۔ کہا جاتا ہے شروع کے زمانے میں گھڑیاں بہت مہنگی اور ہر ایک کی دسترس میں نہیں ہوا کرتی تھیں، اس لیے شہر میں گھنٹہ گھر تعمیر کرائے جاتے تھے، تاکہ لوگ دُور سے گھڑیال کے ذریعے وقت دیکھ سکیں یا اس کی آواز سے وقت کا اندازہ لگا سکیں۔

ملتان گھنٹہ گھر

ملتان میں واقع گھنٹہ گھر کی یہ تاریخی عمارت اٹھارہویں صدی میں علی محمد خان سدوزئی کی حویلی ہوا کرتی تھی، لیکن انگریزوں نے جب 1849ء میں ملتان فتح کیا، تو شہری نظام چلانے کے لیے میونسپل کمیٹیز قائم کیں، پھر ان کمیٹیز کے دفاتر کے لیے 1884ء میں علی محمد خان سدوزئی کی حویلی میں گھنٹہ گھر کی تعمیر کا سنگِ بنیاد رکھا گیا، جو اس وقت کے گورنر پنجاب، سر چارلس ایمفرسٹن ایچی سن نے رکھا۔ چار سال بعد عمارت مکمل ہونے پر کمیٹی کے دفاتر یہاں منتقل ہوئے۔ شہرِ اولیاء، ملتان جہاں قدیم تاریخی، ثقافتی اور تہذیبی حوالوں سے شہرت کا حامل ہے، وہیں اس کا یہ گھنٹہ گھر بھی شہر اور اس کے صدر بازار کی رونقوں کا ایک خاص حوالہ ہے۔

لاہور کے گھڑیال

صوبہ پنجاب، پاکستان کا دارالحکومت اور دوسرا بڑا شہر ہے۔ اسے پاکستان کا ثقافتی، تعلیمی و تاریخی مرکز، پاکستان کا دل اور باغوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے۔ دریائے راوی کے کنارے واقع اس شہر کا شمار دنیا کے قدیم اور اہم ترین شہروں میں کیا جاتا ہے۔ زندہ دلانِ لاہور کے روایتی جوش و جذبے کے باعث اسے بجا طور پر ’’پاکستان کا دل‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہاں بھی شہر کی مختلف عمارتوں میں تعمیر کردہ گھڑیال شہر کی خوب صورتی میں اضافہ کرتے ہیں۔

لاہور ریلوے اسٹیشن، دو گھڑیال

برطانوی دَورمیں تعمیر شدہ کلاک برج اور گھڑی برج، لاہور شہر کا فن تعمیر کہلاتا ہے۔ گورنمنٹ کالج لاہورکی مرکزی عمارت پر 1875ء میں کلاک ٹاورتعمیر کیا گیا۔ اس کے علاوہ شہر کی دیگر اہم عمارتوں میںبھی کلاک ٹاورز نصب ہیں، جن میں1886ء کے دوران تعمیر کیے گئے لاہورریلوے اسٹیشن کے متوازی دو خوب صورت کلاک ٹاورز کے علاوہ لاہور ہائی کورٹ اور میوزیم کی عمارت کے سامنے بھی شان دار کلاک ٹاورز نصب ہیں۔

پشاور کا گھنٹہ گھر

پشاور شہر میں واقع گھنٹہ گھر کی تاریخ جتنی قدیم ہے، اتنی ہی قدیم یہاں کی دکانیں اور مکانات ہیں۔ پشاور شہر کے وسط میں واقع گھنٹہ گھر کا تاریخی بازار 1900ء میں قائم ہوا تھا۔ پشاور ایک مرکزی اور تاریخی شہر ہونے کے ساتھ ساتھ تجارتی حوالے سے بھی خاص شہرت کا حامل رہا ہے۔ برطانوی عہد میں جہاں اس خطّے کے مختلف تاریخی، جغرافیائی اورتجارتی حوالوں سے اہمیت کے حامل شہروں میں گھنٹہ گھر تعمیر کیے گئے، وہیں پشاور شہر میںبھی مرکزی مقام پر گھنٹہ گھر تعمیر کیا گیا۔ یہ گھنٹہ گھر بھی دیگر تجارتی، جغرافیائی اور تاریخی اہمیت کے حامل شہروں کی طرح پشاورشہر کی شناخت ہے۔ تاہم، مرورِ زمانہ کے ساتھ ساتھ یہ گھنٹہ گھر بھی عدم توجہی کے باعث آج خاموش ہوچکا ہے۔

برطانوی عہد میں تعمیر کیے گئے یہ گھنٹہ گھر اوران میں نصب گھڑیال، جہاں اُس دَور کی عظمتِ رفتہ کے امین ہیں، وہیں موجودہ حکمرانوں کے طرزِ تغافل اور عدم توجّہی کے باعث نوحہ کناں بھی ہیں کہ ایسے تاریخی، ثقافتی اور تہذیبی ورثے کی ناقدری کرکے ہم ایک غیر مہذّب قوم اور معاشرے کے ترجمان نظر آتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے تاریخی، تہذیبی اور ثقافتی آثار کی دیکھ بھال اور بحالی پر خاص توجّہ مرکوز کی جائے اور انہیں زمانے کی دست بُرد اور عدم توجّہی سے محفوظ رکھنے کے تمام ممکنہ ذرائع بروئے کار لائے جائیں۔