لگا ہے سیاست کا بازار دیکھو

February 17, 2021

پاکستان میں ایوانِ بالا کے اراکین کا انتخاب ہونے والا ہےاور ان دنوں یوں محسوس ہوتا ہے جیسے پورے سیاسی منظرنامے پر اسی معاملے کا راج ہے۔سینیٹ کے انتخابات میں دولت کا زور چلنے کی بات کوئی نئی نہیں ہے اور اس ضمن میں مختلف ادوار کےبہت سے قصے مشہور ہیں ۔ لیکن اس مرتبہ صورت حال یوں دل چسپ ہوگئی ہےکہ حکومت چاہتی ہے کہ ان انتخابات میںرائے دہندگان خفیہ کے بجائے اعلانیہ طورپر ایوانِ بالا کی رکنیت کے امیدواران کے حق یا مخالفت میں رائے کا اظہار کریں۔تاہم آئینِ پاکستان خفیہ رائے دہی کی بات کرتا ۔حزبِ اختلاف کی سیاسی جماعتیں بھی اس تجویز کی سخت مخالف ہیں۔چناں چہ معاملہ عدالتِ عظمی میں ہے۔

نیرنگیِ سیاست دیکھیے کہ جب پچھلی مرتبہ ایوانِ بالا کے انتخابات ہوئے تو تحریکِ انصاف نے رائے دہی کے خفیہ طریقے کو چیلنج نہیں کیا تھا۔دراصل ہماری سیاست میں ہارس ٹریڈنگ ہمیشہ تب ہوئی ہے جب کسی ایک جماعت کی اکثریت نہ ہو، لیکن وہ آزاد اور چھوٹی جماعتوں کے اراکین کو اپنے ساتھ ملا کر اپنی تعداد پوری کرے۔اس کی تازہ مثال ایوانِ بالا کے پچھلے انتخابات تھے جس میں مبینہ طور پر بڑے پیمانے پرووٹس کی خرید و فروخت ہوئی۔ایسی خبریں آنے پر الیکشن کمیشن نے اعلان کیا تھا کہ وہ ان انتخابات میں مبینہ ہارس ٹریڈنگ کی تحقیقات کرے گا۔

ادہر تحریک انصاف کےبیس اراکین پر بھی الزام تھاکہ وہ اس میں ملوث تھے۔اس موقعے پر پیپلز پارٹی نے چیئرمین سینیٹ کی حمایت کا اعلان کیا تھا اور تحریک انصاف کی جانب سے الزام لگایا گیا تھا کہ پیپلز پارٹی نے اراکین کے ساتھ ووٹوں کے لیے گٹھ جوڑ کیا ہے، جس کے بعد ہارس ٹریڈنگ کے الزام میں تحریک انصاف نے خیبر پختون خواہ سے تیرہ اراکین کو فارغ کر دیاتھا۔اس وقت اراکینِ پارلیمان نے الزام لگایا تھا کہ 2018 کے انتخابات میں منتخب حکومت کے اراکین اور پنجاب میں حکومت کے لیے مطلوبہ تعداد پوری کرنے کے لیے بھی ہارس ٹریڈنگ کی گئی۔لیکن بعض سیاسی حلقے اسے ہارس ٹریڈنگ نہیں مانتے۔ان کے مطابق حلف اٹھانے سے پہلے اراکین اسمبلی اگر حکومت کے ساتھ الحاق کرلیں تو یہ سیاسی جماعتوں کا اتحاد کہلائے گا، لیکن حلف اٹھانے کے بعد اگر کوئی اپنا ووٹ بیچتاہو تو اسے فلور کراسنگ یا ہارس ٹریڈنگ کہا جائے گا۔

بدلتے موقف کی کہانی

ماضی میں بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت کے خلاف عدم اعتماد لانے کے لیے مسلم لیگ ن نے بھی سیاسی ہارس ٹریڈنگ کی تھی، جو ناکام ہوئی تھی۔ایوان بالا کے موجودہ چیئرمین کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد ناکام بنانے کے لیے موجودہ حکومت نے پورا زور لگایا تھا اور بہ ظاہر حزبِ اختلاف کے ووٹس زیادہ ہونے کے باوجود تحریکِ عدم اعتماد کو ناکام بنانے میں کام یاب ہوگئی تھی۔مذکورہ دونوں مواقعےپر طرفین کا جو موقف تھا وہ اب تبدیل ہوچکا ہے۔

آئیے،مارچ2018کی طرف لوٹتے ہیں ۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے سینٹ کے انتخابات میں مبینہ ہارس ٹریڈنگ کا نوٹس لیتے ہوئے متعلقہ پارلیمنٹیرینز اورسیاسی جماعتوں کے قائدین کو مارچ کے پہلے ہفتے میں طلب کر لیاتھا۔الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیاتھا کہ سینیٹ کے انتخابات میں مبینہ ہارس ٹریڈنگ سے متعلق جن پارلیمنٹیرینز اور پارٹی قائدین سے متعلق بیانات شایع ہوئے، یا جنہوں نے میڈیا چینلز پر ہارس ٹریڈنگ کی شکایت کی انہیں کمیشن میں ثبوت پیش کرنے کے لیے چودہ مارچ کو نوٹس جاری کرکے طلب کیا گیا ہے۔

جن سیاسی رہنماؤں کو نوٹس جاری کیے گئے ان میں عمران خان، فاروق ستار، اس وقت کی وزیر مملکت مریم اورنگ زیب، امیر مقام، عظمیٰ بخاری، شہاب الدین خان، رضا ہارون اور خواجہ اظہار شامل تھے۔الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ اراکین پارلیمان اور سیاسی راہ نما ذاتی طور پر پیش ہوں یا اپنا وکیل بھیجیں۔الزام لگانے والوں کی طرف سے اس کے ثبوت پیش کیے جانے کے بعد مبینہ ہارس ٹریڈنگ کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی شروع کی جائے گی۔

واضح رہے کہ سینیٹ کےانتخابات میںہارس ٹریڈنگ کی بازگشت کے زور پکڑتے ہی پاکستان مسلم لیگ (ن) اور اس کی حریف جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے بھی تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔ مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف نے الزام عائد کیا تھاکہ بعض سیاسی جماعتوںنے صوبائی اسمبلیوں میں محدود نمائندگی ہونے کے باوجود زیادہ نشستیں حاصل کیں جوہارس ٹریڈنگ کی جانب واضح اشارہ ہے۔اس لیے تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہیںتا کہ وفاداری تبدیل ہونے کی اصل وجوہ کی کھوج لگائی جاسکے۔

اسلام آباد کی احتساب عدالت کے باہرذرایع ابلاغ کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ ووٹس کی خریداری کا عمل اب قصہِ پارینہ ہوجانا چاہیے۔الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) اور عدالتیں سینیٹ کے انتخابات میںوفاداری کی تبدیلی کے اسباب کا تعین کریں۔سابق وزیراعظم نواز شریف کی طرح ان کے سیاسی حریف عمران خان کی جانب سے بھی ان انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ کے خلاف تحقیقات کا مطالبہ سامنے آیاتھا۔

انہوں نے یہ مطالبہ کراچی میں دو روزہ دورے کے دوران انتخابی مہم کے آغاز پر کیاتھا۔ عمران خان کا کہنا تھاکہ ان کی معلومات کے مطابق سینیٹ کے انتخابات میں ووٹر کی قیمت چارکروڑ تک لگی اور ساتھ ہی انہوں نے اقرار کیا کہ ہمارے اپنے لوگ بھی بکے۔ لیکن انہوں نے کسی کا نام ظاہر نہیں کیا جو خیبرپختون خوا اور پنجاب اسمبلی میں مبینہ طور پر ہارس ٹریڈنگ میں ملوث تھے۔

ان کی پارٹی ای سی پی سے کہتی رہی ہے کہ سینیٹ کےانتخابات میں کرپشن کی روک تھام کے لیے خفیہ رائے دہی کی جگہ اوپن ووٹنگ کا نظام رائج کرے لیکن ای سی پی نے مطالبہ تسلیم نہیں کیا تھا۔ اس لیے اراکین اسمبلی نے فائدہ اٹھا کر خود ہی ووٹس کی تجارت شروع کردی۔انہوں نے ای سی پی، قومی احتساب بیورو (نیب)، وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) سے سوال کیاتھا کہ ہارس ٹریڈنگ کو روکنے کے لیے انہوں نے کیا اقدامات کیے؟ پی ٹی آئی کے چیئرمین نےاس وقت کےچیف جسٹس آف پاکستان، میاں ثاقب نثار سے مطالبہ کیاتھا کہ وہ ہارس ٹریڈنگ کے معاملے پر نوٹس جاری کیں۔عمران خان نے اپنی پارٹی میں ہارس ٹریڈنگ کے الزامات کی بھی تحقیقات کا یقین دلایاتھا۔

دوسری جانب متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کی جانب سے بھی سینیٹ کے انتخابات میں غیر معمولی دھچکا لگنے کے بعد اعلان کیا گیاتھا کہ وہ ای سی پی اور عدالتوں میں ان انتخابات کو چیلنج کرےگی۔ایم کیو ایم پاکستان کے پی آئی بی گروپ کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار نے پریس کانفرنس میں الزام عاید کیاتھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور پاک سر زمین پارٹی نے ایم کیو ایم کے پندرہ اراکین قومی اسمبلی کوہراساں کیا اور کراچی کا مینڈیٹ فروخت کرنے پر مجبور کیا۔

ڈاکٹر فاروق ستارکا کہنا تھاکہ غیر جانب دارانہ اور شفاف طریقہ کار اپنانے میں ناکامی کی وجہ سے سینیٹ کے انتخابات اپنا وقار کھو چکے ہیں۔اسی دوران جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے بھی سینیٹ کے انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ کے الزامات سامنے آنے پر تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔لیکن پھر کیا ہوا؟

اس کے بعد چیئرمین سینیٹ کے خلاف حزبِ مخالف نے تحریکِ عدم اعتماد پیش کی تو انہیں بچانے کی کوشش میں تحریک انصاف یہ بھول گئی کہ وہ بھی وہ ہی کچھ کررہی ہے جو 2018میں دیگر جماعتوں نے کیا تھا۔اس دوران اس کی جانب سے اعلانیہ رائے شماری کا مطالبہ بھی ترک کیا جاچکا تھا۔

اب ایک جانب الیکشن کمیشن نے تین مارچ کو ایوانِ بالا کے لیے اراکین کے انتخاب کا شیڈول جاری کررکھا ہے تو دوسری جانب سینیٹ کے انتخابات خفیہ رائے شماری کے بجائے اوپن بیلٹ سے کرانے کے لیے ایک صدارتی آرڈی نینس جاری کردیا گیا ہے۔صدرمملکت، عارف علوی کے دست خط سے جاری شدہ اس آرڈی نینس کو ان ہی کی جانب سے سپریم کورٹ آف پاکستان میں دائر کردہ صدارتی ریفرنس پر اعلیٰ عدالت کی رائے سے مشروط کیا گیا ہے۔

انتخاب کا طریقہ کار

1973 کے آئین کی دفعات 59، 218اور 226 میں سینیٹ کی ساخت، اس کے ارکان کی میعادِ عہدہ اور انتخاب کے طریقۂ کار پر بحث کی گئی ہے۔اسی آئین کے مطابق سینیٹ پارلیمان کا ایوانِ بالا ہے جس میں وفاقی اکائیوں کو مساوی نمائندگی دی گئی ہے تاکہ قومی اسمبلی، جس میں آبادی کے حساب سے صوبوں کو نشستیں دی گئی ہیں، میں کوئی بڑا صوبہ اپنی زیادہ نشستوں کی بنیاد پر چھوٹے صوبوں سے کوئی زیادتی نہ کر سکے۔ یہ ایک مستقل قانون ساز ادارہ ہے جس کے نصف اراکین کا ہر تین سال بعد انتخاب ہوتا ہے۔

فی الحال سینیٹ کے کُل 104 ارکان ہیں جن میں ہر صوبے سے کُل 23، قبائلی علاقوں سے 8 اور اسلام آباد سے 4 اراکین چھ سال کے لیے منتخب کیے جاتے ہیں۔کالعدم قبائلی علاقوں کے منتخب اراکین قومی اسمبلی ،اس علاقے کے اراکین اور قومی اسمبلی کے تمام اراکین اسلام آباد کی نمائندگی کرنے والے اراکین کا انتخاب کرتے ہیں۔

آئین کی دفعہ 59 کے مطابق ہر صوبے کے لیے مقرّرہ نشستیں پُر کرنے کے لیے انتخاب متناسب نمائندگی کے نظام(Proportional Representation System)کے تحت واحد قابلِ انتقال ووٹ (Single Transferable vote)کے ذریعے ہوتا ہے۔

ہمارے آئین کا آرٹیکل 226 کہتا ہے آئین کے تحت ہونے والے انتخابات، وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کے انتخابات کے سوا سب خفیہ رائے دہی سے ہوں گے۔ چناں چہ سینیٹرز، چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کا انتخاب بھی خفیہ رائے دہی سے ہوتا ہے۔

خفیہ رائے دہی کا نظام دو بنیادی توقعات پر قائم ہے ۔ اول یہ کہ رائے دہندہ باشعور اور ایمان دار ہے اور موقع ملے تو وہ صحیح امیدوار منتخب کرے گا۔دوم یہ کہ اسے آزادی سے یہ فیصلہ کرنے اور کسی بھی انتقامی ردعمل سے بچانے کے لیے اُسے تنہائی میں یہ فیصلہ کرنے کا موقع دینا ضروری ہے۔اگر اِس نظام پراس کی روح کے مطابق عمل ہو تو نہ صرف ہر سیاسی جماعت کو صوبائی اسمبلی میں اپنی نشستوں کے تناسب سے سینیٹ میں نمائندگی ملے گی بلکہ اچھے لوگ بھی منتخب ہو سکیں گے ،لیکن بہ وجوہ ایسا اکثر نہیں ہوتا۔

آج یہ نظام بدعنوانی کا ذریعہ بن گیاہے۔چناں چہ آج بلوچستان میں سینیٹ کے ایک ووٹ کی قیمت ستّر کروڑ روپے تہ پہنچ چکی ہے۔چوں کہ اس طریقے سے رائے دینے والے کی شناخت پوشیدہ رہتی ہے لہذا وہ اراکین یا چیئرمین سینیٹ کے انتخاب سے پہلے سب کے سامنے اپنی سیاسی جماعت کے ساتھ کھڑا ہوتاہے، مگر اندر جاکرجماعت کے نام زد کردہ امیدوار کے بجائے کسی اور امیدوار کو ووٹ دے دیتاہے۔اِس خفیہ فلور کراسنگ کے بدلے میں کروڑوں روپے وصول کر لیے جاتے ہیں۔ دولت یا عہدوں کے لالچ میں چوری چھپے کی جانے والی یہ بے ایمانی نہ صرف اپنی سیاسی جماعت کے نقصان بلکہ جمہوریت اور سیاست دانوں کی بدنامی کا باعث بھی بن جاتی ہے۔

متبادل کیا ہے؟

سنگل ٹرانسفر ایبل ووٹ میں اگر امیدوار کو مطلوبہ تعداد میں ووٹ مل جائیں تو باقی ووٹ اگلے امیدوار کو منتقل ہو جاتے ہیں۔لیکن مذکورہ صدارتی آرڈی نینس کے ذریعے کی گئی آئینی ترمیم کے بعد اب ووٹ اوپن ہو جائے گا اور علم ہو سکے گا کہ کس رکن اسمبلی نے کسے ووٹ دیا ہے۔ انتخابی اصلاحات کے ترمیمی مسودےکے مطابق سینیٹ کے انتخابات سنگل ٹرانسفر ایبل اوپن ووٹ کےذریعے ہی ہوں گے۔اس طریقہ کار کی تبدیلی کے لیے آئین کے آرٹیکل 226، جس میں درج ہے کہ 'سیکرٹ بیلٹ کے ذریعے ووٹ لیا جائے اور آئین کے آرٹیکل 59 کی شق 2، جس میں درج ہے کہ 'سنگل ٹرانسفر ایبل ووٹ ہو گا، میں ترمیم کی جائے گی۔

اب تک کے تجربات ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ موجودہ طرقیہ کار دھن اور دھاندلی روکنے میں ناکام ہو چکاہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس کا متبادل یا حل کیا ہے؟

زیادہ تر سیاسی دانش ور اس نکتے پر متفق نظر آتے ہیں کہ اعلانیہ رائے دہی کا طریقہ یا اوپن بیلٹ سسٹم سینیٹرز کے انتخاب میں ہارس ٹریڈنگ کو کافی حد تک روک سکتا ہے۔اس کے لیے ہمیں صرف آئین میں ترمیم کرنا پڑے گی ،باقی کسی قسم کا کوئی خصوصی انتظام درکار نہیں ہوگا۔اگر ترمیم ہوجائے تو ارکان انتخاب کے وقت ہاتھ اٹھاکر، پارٹی یا اتحاد کی بنیاد پر ایک طرف کھڑے ہوکر، اپنے پسندیدہ امیدوار کا نام لے کر یا زیادہ نشستوں کی صورت میں پسندیدہ امیدواروں کی بالترتیب پسند یاآپشنز کی فہرست سب کے سامنے دے کر اپنی رائے دے سکتے ہیں۔سیاسی جماعتیں بھی متناسب نمائندگی کے مطابق فہرست دے سکتی ہیں۔ مگر اس سے منسلک خدشہ یہ ہے کہ انتخاب کرنے والے آزادی سے اپنی رائے نہیں دے سکیں گے یا پھر کسی طاقت ور امیدوار کی مخالفت کرکے نقصان اور انتقام کا سامنا کرسکتے ہیں۔

صوبائی اسمبلیوں یا قومی اسمبلی کے ذریعےایوانِ بالا کے اراکین کے انتخاب میں بڑھتی ہوئی خرید و فروخت کے پیشِ نظر کافی عرصے سے اراکین کے بہ راہ راست انتخاب کا مطالبہ بھی کیا جارہا ہے۔ماہرین کے مطابق اس کے لیے ضروری ہوگا کہ پورا صوبہ ایک حلقہ ہو اور عوام ہر تین سال بعد پارٹیوں کو ووٹ دیں جن سے پہلے سے ان کے نام زد کردہ سینیٹرز کی فہرست لی جاچکی ہو یا صوبائی اسمبلی کے چار پانچ حلقوں کو ملا کر سینیٹ کا ایک حلقہ قائم کیا جائے جس میں عوام امیدواروں کو بہ راہِ راست ووٹ دیں۔

دونوں طریقوں میں ایک تہائی یانصف نشستیں ماہرین، اقلیتوں اور خواتین کے لیےمخصوص ہوں جن کا انتخاب بہ راہ راست نہیں بلکہ بہ راہ راست ووٹنگ میں پارٹی پوزیشن کی بنیاد پر نام زدگی کے ذریعے ہو۔تاہم ان دونوں طریقوں کے لیے ہر تین سال بعد انتخاب درکار ہوگا جو ظاہر ہےکہ مشکل اورمنہگا کام ہے۔ پھر اس طرح سینیٹ صرف مال داروں کا کلب اور قومی اسمبلی کی نقل بن جائے گا۔یہ ہی وجہ ہے کہ پورے سینیٹ کی کمیٹی نے بھی2015میں ایک رپورٹ میں سینیٹرز کے بہ راہ راست انتخاب کو آئین کے بنیادی ڈھانچے سے متصادم قرار دیا تھا۔

ایک تجویز یہ دی جاتی ہے کہ صوبائی اسمبلیوں میں سیاسی جماعتوں کی پوزیشن کی بنیاد پر نام زدگی کردی جائے۔آئین کی دفعہ 59 شق 2 کے تحت کسی صوبے کی سینیٹ میں نشستیںپُر کرنے کے لیے انتخاب متناسب نمائندگی کے نظام کے تحت اور واحد قابلِ انتقال ووٹ کے ذریعے ہونا ہے۔ اس دفعہ میں یہ نقص بتایا جاتا ہے کہ اس میں ایک جانب کہا گیا ہےکہ سینیٹ کی نشستیں لازما صوبائی اسمبلی میں پارٹی پوزیشن کے تناسب سے ہوں اور دوسری جانب صرف اُن نشستوں پر خفیہ رائے دہی سے انتخاب کی بات کرکے یہ نشستیں دوسروں کے لیے بھی جیتنے کا امکان پیدا کیاگیا ہے جیسے کہ2018میں خیبر پختون خوا اسمبلی میں پی ٹی آئی کی نشستیں اوروں نے ہتھیالی تھیں۔ ظاہر ہے کہ یہ آئین کی منشاء کے خلاف ہے۔ اگر ووٹ کسی کو بھی دیا جا سکتا ہو تو پھر متناسب نمائندگی کی بات کیوں کی گئی اور اگر پارٹی پوزیشن اور متناسب نمائندگی کی بنیاد پر ہی سینیٹ کے اراکین منتخب کرنے ہیں تو پھر نام زدگی کے بجائے انتخاب کی بات کیوں کی گئ؟ یہ نقص دور کرنے کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے۔

ماہرین ِ سیاست و آئین کے مطابق درست راہ یہ ہے کہ اُس صوبائی اسمبلی میں عام انتخابات میں پارٹی پوزیشن کی بنیاد پر ہی وہاں کی نشستیں نام زدگی سے پُر کی جائیں اور واحد قابلِ انتقال ووٹ اور خفیہ رائے دہی کے ذریعے دوبارہ انتخاب سے متناسب نمائندگی کاامکان خطرے میں نہ ڈالا جائے۔ یعنی سیاسی جماعتوں سے اُن کے حصے کی نشستوں کے لیے نام زد ارکان کی فہرستیں طلب کی جائیں اور ان کا ایوانِ بالا کے رکن کے طور پر انتخاب کا حکم نامہ جاری کردیا جائے۔ اس طرح کوئی اضافی خرچ بھی نہیں ہوگا اور ہارس ٹریڈنگ کا موقع بھی جاتا رہے گا۔ بس اس کے لیے اس دفعہ کی شق نمبر دو میں ترمیم کرکے’’واحد قابلِ انتقال ووٹ‘‘ کی جگہ ’’سیاسی جماعت کے سربراہ کی جانب سے نام زدگی‘‘کے الفاظ شامل کرنے ہوں گے۔

ہارس ٹریڈنگ کی اصطلاح

اس اصطلاح کا استعمال پہلے واقعی گھوڑوں کی خرید و فروخت کے حوالے سے ہوتا تھا۔1820کے آس پاس تاجر اچھی نسل کے گھوڑے خریدنے کے لیے چالاکی کا استعمال کرتے تھے۔ تجارت کا یہ طریقہ کچھ اس طرح کا تھا جس میں چالاکی، پیسے اور باہمی فائدوں کے لیے گھوڑوں کو کسی کے اصطبل سے کھول کر کہیں اور باندھ دیا جاتا ہے۔

کیمبرج ڈکشنری کے مطابق اس کا مطلب ہے: ’’وہ غیر رسمی بات چیت جس میں دواطراف کے لوگ ایسا اتحاد قائم کرتے ہیں جس میں دونوں کا فائدہ ہوتا ہے‘‘۔

ملک میں یہ اصطلاح ان دنوں شہ سرخیوں میں ہے تو آئیے جانتے ہیں کہ ہارس ٹریڈنگ دراصل کیا ہے، یہ اصطلاح کہاں سے آئی اور انتخابات سے گھوڑوں کا کیا لینا دینا ہوتا ہے۔

ہمارے خِطّے میں کافی عرصے سے یہ اصطلاح دراصل ضرب المثل کے طور پر استعمال ہونے لگی ہے۔ اس کے لفظی معنی’’گھوڑوں کی خرید و فروخت‘‘ہے۔ لیکن کیمبرج ڈکشنری اس کی تشریح کرتی ہے۔

یہ ایسی سودے بازی ہوتی ہے جس میں دونوں ہی فریق اس کوشش میں رہتے ہیں کہ انہیں زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل ہو۔ اس سودےبازی کے دوران بعض اوقات چالاکی سے سودے پیش کیے جاتے ہیں اور آخر کار دونوں فریق کسی نتیجے پر پہنچ جاتے ہیں۔

سیاست اورہارس ٹریڈنگ کی اصطلاح

جب کوئی سیاسی جماعت حزبِ اختلاف کے کچھ ارکان کو لالچ ، عہدے، پیسے ، شہرت یا کسی دیگر قسم کی لالچ دے کر اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کرتی ہے تو اراکین پارلیمان کی اس قسم کی خرید و فروخت کو سیاسی ہارس ٹریڈنگ کہا جاتاہے۔ایسا اس صورت حال میں ہوتا ہے جب کسی بھی ایک پارٹی کو حکومت سازی کےلیے اکثریت حاصل نہ ہو پائی ہو اور اسے اکثریت ثابت کرنےکےلیے باہرسے مدددرکار ہو۔

ایسے میں وہ پارٹی یہ کوشش کرتی ہے کہ کسی طرح سے مخالف، آزاد یا دیگر چھوٹی جماعتوں کے اراکین اسے اپنی حمایت فراہم کردیں اور اس جماعت کی حکومت بن جائے۔ اس کے لیے ہر طرح کے حربے استعمال کیے جاتے ہیں۔ چالاکی، پیسہ، عہدہ ، اسی کو ہارس ٹریڈنگ کہا جاتاہے۔بعض افراد اسے سیاست کا ضروری حصہ تصور کرتے ہیں اور کبھی کبھی اس طرح کی سیاسی رسہ کشی بہت دل چسپ بھی ہو جاتی ہے۔

اگرچہ پاکستان میں اس کا استعمال دو تین دہائیوں سے زیادہ پرانا نہیں ہے(بے نظیر بھٹو کا دور حکومت ۔ تحریک عدا اعتماد۔چھانگا مانگا)تاہم بھارت کی سیاست میں یہ اصطلاح 1967سے استعمال ہوتی آ رہی ہے۔ 1967 کے انتخابات میں ہریانہ کے رکن اسمبلی لال نےپندہ روز میں تین سیاسی جماعتیں تبدیل کر ڈالی تھیں۔ آخر کار جب وہ تیسری بار کانگریس میں شامل ہوئے تو کانگریس کے رہنما بیریندر سنگھ نے پریس کانفرنس میںیہ یادگار جملہ کہا تھا: ’’گیا رام اب آیا رام بن گئے ہیں‘‘۔

اگرچہ ہمارے ہاں فلور کراسنگ کا پانون تاخیر سے بنا ،لیکن بھارت میں1985میں راجیو گاندھی کی حکومت نے آئین میںباون ویں ترمیم کرکے ’’پارٹی کی تبدیلی کا قانون‘‘ منظور کیا تھا۔ اس کے مطابق اراکین اسمبلی کو اپنی سیاسی جماعت تبدیل کرنے کی وجہ سے رکنیت سے محروم کیا جا سکتا ہے۔ اس قانون کے مطابق کسی بھی جماعت کے وہ منتخب نمائندگان جو جماعت سے علیحدہ ہونا چاہتے ہوں ان کی تعداد دو تہائی سے کم نہیں ہو سکتی ورنہ انہیں نااہل قرار دیا جا سکتا ہے۔اسی طرح بنگلا دیش، جنوبی افریقا اور کینیا جیسے ترقی پزیر ممالک میں بھی پارٹی کی تبدیلی کا قانون موجود ہے ۔ لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ ایسا کوئی بھی قانون ترقی یافتہ ممالک کنیڈا، فرانس، جرمنی یا انگلینڈ میں موجود نہیں ہے۔